تھر پارکر ،ترقی کی بربادی۔۔منیش دھارانی

آج پاکستان سمیت دن بھر میں تھرپارکر کسی تعارف کا محتاج نہیں رہا۔ جہاں پہلے اس علاقے کوصرف آٹھویں بڑے ریگستان کے طور پر جانا جاتا تھا وہیں اب یہ تھرکول جیسے بڑے ’’پراجیکٹس‘‘ کے ساتھ ساتھ قحط اور بچوں و عورتوں کی اموات کے حوالے سے بھی بے حد مقبول ہے۔ سندھ کے جنوب میں بائیس ہزار سکوائر کلومیٹرز پر مشتمل یہ علاقہ اپنی عظیم ثقافتی روایات اور تاریخ رکھنے کے ساتھ ساتھ بے حد قیمتی معدنیات سے بھی مالا مال ہے۔ انگریز سامراج کے برِصغیر پر قابض ہونے کے بعد ہی سے یہ علاقہ خاصی توجہ کا مرکز رہا۔ 1843ء میں چارلس نیپیئر نے اس صحرا کو ’’پولیٹیکل ایجنسی‘‘ میں شامل کرواتے ہوئے 1858ء میں اس کا حیدرآباد کلیکٹوریٹ سے الحاق کروایا جس کے بعد 1860ء میں اس علاقے کو ’’ایسٹرن سندھ فرنٹیئر‘‘ کا نام دیتے ہوئے عمرکوٹ کو ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر مقرر کیا گیا۔ اپنی حساس کیفیت کی بدولت یہ علاقہ بٹوارے کے بعد مختلف انتظامی تبدیلیوں کی زد میں رہا۔ اس وقت یہ علاقہ دو اضلاع پر مبنی ہے۔ جس میں ضلع عمرکوٹ کا کچھ حصہ جبکہ ضلع تھرپارکر کے ریگستان کا بڑا حصہ شامل ہے، جبکہ آبادی پندرہ لاکھ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔
صحرائے تھر سندھ کا وہ علاقہ ہے جہاں انگریر سامراج اپنے پاؤں نہیں جما سکا۔ نہری نظا م نہ ہونے کی بدولت یہاں زراعت کا انحصار بارشوں پر تھا جس کی بدولت جاگیرداری سے بھی یہ علاقہ کسی حد تک محفوظ رہا۔ یہی وجہ رہی کہ اس علاقے کو انگریز سامراج ترقی دینے سے بالکل ہی قاصر رہا۔ بنیادی طور پر اُس وقت برطانوی سامراج کیلئے یہ علاقہ لوٹ مار کے لئے موزوں نہیں تھا کیونکہ یہاں کپاس یا اناج کی بڑی پیداوار موجود نہیں تھی۔ شایدیہی وجہ بنی کہ یہاں کی عوام کے طرز زندگی میں پچھلے سینکڑوں سالوں سے کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی اور لوگ آج بھی ویسے ہی زندگی گزارتے ہیں جیسے صدیوں پہلے گزارا کرتے تھے۔ یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش تب بھی مال مویشی تھے اوراب بھی وہی ہیں۔ قحط سالی کے دنوں میں لوگ آج بھی اسی طرح اپنے علاقوں سے نقل مکانی کرتے ہیں جیسے قدیم وقتوں میں نہری علاقوں کی طرف کی جاتی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ عمل ایک عمومی روایت کا درجہ حاصل کرتا چلا گیا۔
شاید ہی کوئی ایسا عہد گزرا ہو جس میں یہاں کے مقامی افراد نے نقل مقانی نہیں کی۔ یہ خطہ 1991ء کے بعد شدید تباہ کن قحط سالی کا شکار رہا۔ قحط سے تنگ آکر ہر سال یہاں کی پچاس فیصد آبادی اپنا آبائی مکان چھوڑ کر اندرونِ سندھ کے بیراجی علاقوں کی جانب رخ کرتی ہے جہاں وہ خوشحالی کی بجائے مزید اذیت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔
تاریخی طور پر اپنی شروعات میں جہاں سرمایہ دارانہ نظام نے بے پناہ ترقی دی وہیں یہ اب اپنی ضد میں تبدیل ہوچکا ہے۔ سماج کو ترقی نہ دے سکنے کی سکت نے اسے عام انسانوں کے دشمن میں تبدیل کر دیا ہے۔ حالیہ عرصے میں جہاں بھی ’’ترقی‘‘ کے اقدامات کیے جاتے ہیں وہاںآبادی کی اکثریت شدید مشکلات میں دھنس جاتی ہے۔ 1991 ء میں اس علاقے میں 175 ارب ٹن کوئلے کی تصدیق کے بعد یہاں چار ہزار میگا واٹ بجلی کی پیداوار کی خبریں گردش کرتی رہیں۔ مختلف حکومتوں کی جانب سے بجلی اور سڑکوں کے منصوبے بھی نظر آئے۔ اس سطحی ترقی کو جواز بنا کر عوام کے ساتھ پچھلی دو دہائیوں سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔ لوگوں پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی کہ اب تھرپارکر کوئی فلاحی ریاست بننے جا رہا ہے لیکن غربت اور بدحالی میں دھنسی عوام کے سامنے آج یہ حقیقت بے نقاب ہو چکی ہے۔ جو خوشحالی کے اقدامات ہوئے بھی وہ صرف اس کالے سونے کو نکالنے اور سامراجی لوٹ مار کے لئے ہوئے۔ آج لوگ اس ترقی کی آگ میں جھلس رہے ہیں۔ یہ کہنا اب کسی طور پر بھی غلط نہیں ہوگا کہ آنے والے عرصے میں تھر کی حالت بھی بلوچستان کی طرح ہوتی چلی جائے گی جہاں سامراجی گدھوں کی لوٹ مار نے خطے کی معدنیات کو عوام کا دشمن بنا دیا ہے۔
کوئلہ یہاں 9 ہزار اسکوائر کلومیٹرز میں موجود ہے۔ یعنی تھرپارکر کا تقریباً نصف کوئلے کی دولت سے مالا مال ہے اوراس علاقے میں تقریباً چھ لاکھ سے زائد آبادی بستی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ پچھلے بیس سالوں سے جہاں ایک طرف لوگ بھوک اور غربت سے برباد ہو رہے تھے وہاں سارا سرمایہ سڑکوں کی تعمیر پر خرچ کیا جا رہا تھا۔ کوئلے کے اس منصوبے کو بارہ بلاکوں میں تقسیم کرکے بلاک نمبر دو سے کوئلہ نکالنے کی شروعات جنوری 2014ء میں سندھ اینگرو کول مائنگ کمپنی (SECMC) نے کی۔ یہ بلاک 79.6 اسکوائر کلومیٹرز پر مشتمل ہے جہاں دو ارب ٹن کوئلہ موجود ہے اور اس سے آئندہ پچاس سالوں تک پچاس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ لیکن تین سال قبل منصوبے کی شروعات ہی سے مختلف سرمایہ دار گِدھوں کی طرح اس منصوبے پر منڈلا رہے ہیں اور ٹھیکوں اور ذیلی ٹھیکوں کی لڑائیاں اب عام بات ہو چکی ہے۔ مقامی آبادی کی اکثریت کو روزگار اور رائلٹی دینے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی بلکہ اس منصوبے نے کئی ہزار افراد کو بے دخل کردیا ہے۔ تھر میں سینکڑوں کی تعداد میں مقامی انجینئر ہونے کے باوجود بھی بڑی پوسٹوں پر افسران کوباہر سے امپورٹ کیا جارہا ہے اور بیشتر عہدوں پر دوسرے علاقوں سے لائے گئے افسران براجمان ہیں۔ جس آبادی کو رائلٹی کے جھانسے دیکر بے دخل کیا گیا وہ آج شہروں میں بدترین زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ان کی اکثریت شہروں میں ڈمپر ڈرائیونگ، ہوٹلوں میں ویٹنگ اور ایسے چھوٹے موٹے کام کرتی نظر آتی ہے۔
اسی علاقے کے گرد زہریلے پانی کا ڈیم بنایا جا رہا ہے۔ جس کے متاثرین اس منصوبے کے خلاف پچھلے دو سالوں سے جدوجہد میں مصروف ہیں۔ یہاں مقامی آبادی کو جبری طور پر کمپنی کی جانب سے حکومتی آشیر باد سے بے دخل کیا گیا۔ ڈیم کے اس زہریلے پانی سے پچیس دیہاتوں کی آبی، زمینی و جنگلی حیات سمیت بہت کچھ برباد ہوجائے گا اور لوگ مختلف بیماریوں کی بھینٹ چڑھتے چلے جائیں گے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 40 فیصدبیماریاں گندا پانی استعمال کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اور اس ڈیم کے ہزاروں کیوبک لیٹر پانی سے علاقے کے لوگوں کو شدید بیماریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مئی 2016ء سے آج تک گوڑانو ڈیم متاثرین احتجاج کررہے ہیں لیکن سول سوسائٹی سے لیکر کوئی بھی سیاسی یا سماجی تنظیم ان کے ساتھ نہیں اور ان کی جدوجہد کو محض فوٹو سیشن کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں حیدرآباد میں ہوئے ایک لٹریچر فیسٹیول کو ’SECMC‘ نے اسپانسر کیا جہاں لوگوں کو یہ جتانے کی کوشش کی گئی کہ آپکو اس ترقی کی تباہی کو برداشت کرنا پڑے گا۔ یہاں انتظامیہ کے لوگوں کو اسٹیج مہیا کیا گیا جبکہ متاثرین کے کسی نمائندے کو بات رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہ عمل اس بات کا واضح اظہار ہے کہ حکومت اور سماجی تنظیموں سمیت صحافیوں اور ادیبوں کی ایک بڑی تعداد لوٹ کھسوٹ کرنے والے سرمایہ داروں کی محض کٹھ پتلیوں سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔
پچھلے اس پورے عرصے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے انتہائی عوام دشمن کردار ادا کیا ہے۔ اقتدار میں بیٹھے یہ تمام حضرات محض سرمایہ داروں اور ان کی دولت کا تحفظ کر رہے ہیں۔ حکمرانوں کی تھر کے عوام سے ہمدردی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت تک ری سیٹلمنٹ پالیسی پر اسمبلی میں کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔ دولت کی ہوس میں آج سرمایہ دار اس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ اب وہ لوگوں کے بنیادی مسائل بھی دیکھنے سے قاصر ہیں اور منافعوں کی شرح میں اضافہ کرنے کے لئے عوام کی زندگیوں سے بھی کھلواڑ کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔
پاکستان کا شمار ان ممالک میں دس ویں نمبرپر ہے جو موسمی تبدیلیوں سے متاثر ہو رہے ہیں۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگرمضر گیسوں کی وجہ سے گلوبل وارننگ کا مسئلہ سنگین ہوچکا ہے۔ آنے والے 15 سالوں میںیہ مسئلہ مزید شدت اختیار کرجائے گا۔ بلوچستان سمیت پورا سندھ اور با لخصوص تھرپارکر کے علاقوں میں اس گلوبل وارمنگ کی وجہ سے درجہ حرارت مزید بڑھے گا اور ماضی کے سیلابوں سے کہیں زیادہ تباہی مچانے والے سیلاب بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ تھرکول پراجیکٹ بھی ماحولیات کو متاثر کریگا۔ یہاں سے ہر سال نکلنے والی ہزاروں ٹن زہریلی گیسیں تھرپارکر کے صاف و شفاف ماحول کو برباد کر دیں گی۔ ایک میگاواٹ بجلی کی پیداوار سے 228 کلوگرام کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوگی۔ اس عمل سے پاکستان کے ڈیڑھ کروڑ عوام (جوکہ سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہیں اور ہر سال اس میں تیس فیصد اضافہ ہو رہا ہے) کی طرح تھرپاکر کے عوام سے بھی تازہ فضا میں سانس لینے کا حق چھینا جائے گا۔
اکیسویں صدی میں قدم رکھنے کے باوجود بھی تھرپارکر کے لوگ اپنی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں۔ یہاں پچاس فیصد پانی پینے کے قابل نہیں۔ پینے کے پانی کا حصول کنوؤں سے ہوتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق یہاں واٹر سالوینٹ کی مقدار بہت زیادہ ہے جس سے کئی بیماریاں پھیلتی ہیں۔ عوام سے لوٹی دولت سے جو منصوبے شروع ہو بھی رہے ہیں ان کا مقصد محض مزید لوٹ مار کرنا ہے۔ پینے کے پانی کے لئے لگائے گئے سات سو آر او پلانٹس کی اکثریت اب ناکارہ ہوچکی ہے۔ اس ساری صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ عام لوگوں کے جینے یا مرنے سے حکمران طبقات کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور وہ عوام کو اسی طرح مزید برباد کرتے چلیں جائیں گے۔ پچھلے کچھ سالوں میں یہاں بھوک کی وجہ سے تقریباًدو ہزار بچوں نے دم توڑا ہے جبکہ ہزاروں عورتوں نے دوران زچگی زندگی کی بازی ہاری ہے۔ آج تھر میں قابل علاج بیماریوں سے مرنا ایک عام بات ہوچکی ہے۔ گزشتہ سال چکن گونیا جیسی بیماری سے یہاں 700 افراد موٹ کے گھاٹ اتر گئے۔
آج سرمایہ دارانہ نظام پوری دنیا میں عوام کے مسائل حل کرنے سے قاصر ہے۔ ایسے میں تھرپارکر جیسے علاقوں میں اس نظام کی بربریت کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں رہ سکتی۔ پاکستان کا حکمران طبقہ یہاں عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ تھر کے عوام بھی برِصغیر کی سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام کے لئے طبقاتی جدوجہد میں محنت کش طبقے کا ساتھ دیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ طبقاتی جدوجہد!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply