• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • قائداعظم محمد علی جناح اور پہلے آئین کی تشکیل(قائداعظم اور اسلامی ریاست کا تصور)۔۔داؤد ظفر ندیم/قسط5۔دوسرا حصہ

قائداعظم محمد علی جناح اور پہلے آئین کی تشکیل(قائداعظم اور اسلامی ریاست کا تصور)۔۔داؤد ظفر ندیم/قسط5۔دوسرا حصہ

بہت سے لوگ یہ تو لکھتے ہیں کہ قائداعظم اسلامی ریاست کی بات کرتے تھے مگر وہ اسلامی ریاست کے بارے میں قائداعظم کے تصور کو اسلامی ریاست کے اس تصور سے گڈمڈ کر جاتے ہیں جس کا تصور پاکستان بننے کے بعد پاکستان کے مذہبی سیاسی مفکریں کے  تصور سے پیش کیا گیا حالانکہ قائد اعظم کی اسلامی ریاست کوئی تھیو کریٹک ریاست نہیں تھی بلکہ ایک جمہوری اور روشن خیال ریاست کی بات تھی۔

بدقسمتی سے قائد اعظم کی وفات کے بعد ایک گروہ  بن  گیا جو بنیاد پرستی اور مذہبی بنیاد پر اسلامی ریاست کی بات کر رہا تھا اور عملاً  اسلامی ریاست کی تعریف اور اس کی خصوصیات کا کام اسی گروہ کے ذمہ ہو گیا ۔دوسرا گروہ وہ تھا جو جدید سیکولر ریاست کا حمایتی تھا اس کے نزدیک اسلامی ریاست کا نام لینا بھی ترقی پسندانہ اور جمہوری تکثیریت پسندی کے خلاف تھا اس لئے پاکستان میں روشن خیالی اور جمہوریت کے تمام حمایتی اسلامی ریاست کے کسی بھی تصور کے مخالف ہوگئے اور یوں اسلامی ریاست کے نام پر جو تشریح سامنے آئی وہ ایک تھیوکرٹیک اور شدت پسند خیالات پر مبنی ایک مذہبی ریاست کا تصور تھا ۔

اب قائداعظم کے نزدیک اسلامی ریاست کا تصور کیا تھا۔ اس پر کوئی علمی اور تحقیقی کام نہیں ہو سکا۔ ظاہر ہے اس طرح کے مضامین اس خلا کو پورا نہیں کر سکتے صرف چند لائنز ہی بتلا سکتے ہیں۔ یہ محققین اور سیاسی دانشوروں کا کام ہے کہ وہ قائداعظم کے  اسلامی ریاست کے تصور پر لکھیں اور اس کا ایک خاکہ پیش کریں۔

میں نے اس مضمون میں قائد اعظم کی بعض تقاریر  سے مدد لی ہے اور ایک ممکنہ خاکہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے تاہم میرے اپنے خیال میں یہ نامکمل اور ناکافی ہے۔
قائداعظم کی اسلامی ریاست کے تصور میں سب سے نمایاں خصوصیت مذہبی برداشت اور رواداری تھی۔

۔14اگست1947 ؁ کو منتقلی اقتدار کی تقریب میں جب وائسرائے ہندلارڈ ماؤنٹ بیٹن نے مغل شہنشاہ اکبر کی مذہبی رواداری کی مثال دیتے ہوئے پاکستان کو اسکی پیروی کا مشورہ دیا تو قائد اعظمؒ نے برملا جواب دیا کہ  “مسلمانوں کے پاس اس سے کہیں افضل مثال حضرت محمد ﷺ کی ہے اور وہی تعلیمات مغل شہنشاہ اکبرکے غیر مسلموں سے رواداری کا منبع ہیں۔ حضرت محمدﷺ نے نہ صرف غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی بلکہ عملی طور پر بھی یہود ونصاریٰ  کے ساتھ مذہبی رواداری اور حسن سلو ک کی ایسی اعلیٰ ترین مثال قائم کی جسکی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ۔ وہ انسانیت کے اعلیٰ و ارفع اصولوں کے پاسدار رہے اور ہمیں بھی اسکی پیروی کرنی چاہیے۔
اس کی مزید وضاحت قائداعظم اس سے پہلے گیارہ اگست کو اپنے ایک خطاب میں کر چکے تھے۔
گیارہ اگست کی تاریخ کی تقریر کو پاکستان کی دستوری اور سیاسی تاریخ میں جو اہمیت حاصل ہے بدقسمتی سے پاکستان کی سیاسی اور دستوری تاریخ میں اس کا اعتراف نہیں کیا گیا۔ قائداعظم کی یہ تقریر پاکستان کے آئین سازی میں راہنما اصول کا درجہ رکھتی ہے۔
اس تقریر میں قائداعظم نے واضح کیا تھا کہ پاکستان کے دستور کی بنیاد کیا ہوگی۔ انہوں نے پاکستان میں بلا تفریق مذہب و عقیدہ ہر شہری کو کاروبار ریاست میں مساوی حقو ق کی یقین دہانی کرائی تھی انہوں نے کہا تھا۔۔۔۔
’’آپ آزاد ہیں۔آپ اپنے مندر،مساجد اور اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کے لیے آزاد ہونگے۔خواہ آپ کا کسی نسل،مذہب یا عقیدے سے تعلق ہوآپ کو کاروبار مملکت میں مساوی حقوق حاصل ہونگے۔قانونی لحاظ سے سب شہر یوں کو مساوی حقوق حاصل ہونگے۔
قائداعظم جمہوریت کو لازمی خیال کرتے تھے،
جمہوریت کو وہ اسلام کا ایک سنہری اصول سمجھتے تھے”

خالق دینا ہال کراچی میں سول و فوجی افسران سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم ؒ نے فرمایا۔۔۔
’’ میرا پختہ یقین ہے کہ ہماری کامیابی اور فلاح اسلام میں حضرت محمدﷺ جو عظیم قانون دان تھے کے مرتب کردہ سنہری اصولوں کو اپنانے میں پنہاں ہے آئیے کہ ہم اسلام کے سنہری اصولوں پر مبنی جمہوریت کی بنیاد رکھیں‘‘
قائداعظم نے کئی دفعہ واضح کیا کہ یہ اسلامی ریاست اسلام کے سنہری اصولوں کو اپنائے گی یہ کوئی مذہبی تھیوکریٹک ریاست نہیں ہوگی۔

امریکہ کے عوام سے خطاب کرتے ہوئے فروری 1948 میں قائد اعظم نے کہا کہ ”مجھے یقین ہے کہ پاکستان کا آئین جمہوری ہو گا اور اسلام کے اہم اصولوں کو اپنے اندر سمو لے گا۔ یہ اصول آج بھی اسی طرح قابل عمل ہیں جیسے تیرہ سو برس پہلے تھے۔ اسلام نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے۔ اس نے ہمیں انسانی برابری، انصاف اور ہر ایک کے ساتھ برابری کا درس دیا ہے۔ بہرحال کسی بھی صورت میں پاکستان ایک ایسی مذہبی ریاست نہیں ہو گا جس پر مُلا ایک خدائی مشن کے ساتھ حکومت کریں۔ یہاں بہت سے غیر مسلم ہیں، ہندو، مسیحی اور پارسی لیکن وہ سب پاکستانی ہیں۔ ان کو دوسرے شہریوں کی طرح وہی سب حقوق اور استحقاق حاصل ہوں گے اور پاکستان کے معاملات میں اپنا برحق کردار ادا کریں گے۔ “

قائداعظم سمجھتے تھے کہ پاکستان کے مسلمانوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے آئین کے اصول اسلامی تعلیمات سے اخذ کریں مگر یہ بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ اس سے مراد کسی تھیوکریٹک یا مذہبی ریاست کی تعمیر نہیں ہوگی۔
19 فروری 1948 کے دن آسٹریلیا کے عوام سے نشریاتی خطاب میں بھی اسی بات کا اعادہ کیا۔ ”ہم میں سے ایک بھاری اکثریت مسلمان ہے۔ ہم اپنے نبیؐ کی تعلیمات کی پیروی کرتے ہیں۔ ۔ ۔ لیکن کوئی غلط فہمی دل میں مت رکھیں۔ پاکستان ایک تھیوکریسی (مذہبی ریاست) یا ایسا کچھ دوسرا نہیں ہے۔ اسلام ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہم دوسرے مذاہب کے بارے میں برداشت کا مظاہرہ کریں اور ہم کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے ان افراد سے قریبی تعلق قائم کرنے کے متمنی ہیں جو خود اس بات کے لئے تیار ہیں کہ وہ پاکستان کے سچے اور وفادار شہری کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کریں“۔

وہ سمجھتے تھے کہ یہ بات پاکستانی عوام کے عقیدے کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے کہ جمہوریت اسلام کا لازمی حصہ ہے۔

لندن میں 14 دسمبر 1946 کو فرمایا ”جمہوریت مسلمانوں کے خون میں شامل ہے جو کل انسانیت کی برابری پر یقین رکھتے ہیں۔ ۔ ۔ اور برادری، برابری اور آزادی کے حق کو مانتے ہیں۔ “
اس کے بعد قائداعظم نے جس بات پر زور دیا تھا وہ امن عامہ، عوام کی فلاح اور غریبوں کی بھلائی تھا۔

حکومتی ذمہ داریوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے 11 اگست 1947 کو آئین ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”بلاشبہ اس بات پر آپ مجھ سے اختلاف نہیں کریں گے کہ کسی حکومت کی پہلی ذمہ داری امن عامہ کا قیام ہے تاکہ زندگی، جائیداد اور اس کے شہریوں کے مذہبی عقائد کی ریاست پوری طرح حفاظت کرے۔ ۔ ۔ اگر ہم پاکستان کی اس عظیم ریاست کو خوش اور خوشحال بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں تن دہی اور یک سوئی سے عوام، خاص طور پر غریبوں کی فلاح پر توجہ مرکوز کرنی ہو گی“۔
آزادی اظہار کے ضمن میں 21 مارچ 1948 کو ڈھاکہ میں بات کرتے ہوئے فرمایا ”حکومت صرف ایک ہی ہدف کو اپنا مقصد بنا سکتی ہے۔ ۔ ۔ کس طرح عوام کی خدمت کی جائے، کس طرح ان کی فلاح اور بھلائی کے لئے طریقے اور ذرائع پیدا کیے جائیں۔ کسی حکومت کا اور کیا دوسرا ہدف ہو سکتا ہے؟

قائداعظم کی کوشش تھی کہ عوام اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ عوامی سطح پر حکومت کا احتساب کریں گے اور اس کی کارکردگی پر نظر رکھیں گے مگر یہ تنقید برائے تنقید نہیں ہوگی۔
اسی موضوع پر انہوں نے 18 اپریل 1948 کے دن پشاور کے ایڈورڈز کالج میں بات کی۔ ”میں یہ چاہتا ہوں کہ ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے شہری کے طور پر آپ چوکنے رہیں۔ جب حکومت داد کی مستحق ہو تو اسے داد دیں۔ جب وہ تنقید کی مستحق ہو تو اس پر بے خوف ہو کر تنقید کریں۔ لیکن ہر وقت جارحانہ اور تباہ کن تنقید کر کے وزارت یا اہلکاروں کو روند ڈالنے پر خوش نہ ہوتے رہیں۔

قائداعظم انتخاب اور انتخاب کے ذریعے ہی حکومت کی تبدیلی پر یقین رکھتے تھے اس کے علاوہ حکومت کی تبدیلی کا کوئی طریقہ درست نہیں سمجھتے تھے۔
22 مئی 1948 کے دن ڈھاکہ میں ریڈیو کے ذریعے قوم سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے عوام کے حکومت بنانے اور ہٹانے کے حق کے بارے میں راہنمائی کی۔ ”غیر ملکی راج کے خاتمے کے بعد اب عوام اپنے مقدر کا فیصلہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ ان کو پوری آزادی حاصل ہے کہ وہ آئینی طریقے سے کسی بھِی حکومت کو منتخب کریں۔ لیکن اس کا ہرگز بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی گروہ غیر قانونی طریقے استعمال کر کے یہ کوشش کرے کہ وہ منتخب حکومت پر اپنی مرضی تھوپ دے۔ حکومت اور اس کی پالیسی منتخب نمائندوں کے ووٹ سے بدلی جا سکتی ہے“۔
اسی موضوع پر 21 مارچ 1948 کو ڈھاکہ میں ہی انہوں نے فرمایا ”یہ آپ کے اپنے ہاتھوں میں ہے کہ کسی حکومت کو اقتدار میں لائیں یا اسے اتار دیں لیکن آپ کو یہ بلوے کے ذریعے نہیں کرنا چاہیے۔ آپ کے پاس طاقت ہے، آپ کو اسے استعمال کرنے کا فن سیکھنا ہو گا۔ آپ کو یہ مشینری چلانے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ ایک حکومت سے بہت زیادہ ناخوش ہیں تو آئینی طور پر یہ آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے کہ ایک حکومت کو ہٹائیں اور دوسری کو لے آئیں“۔

آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ قائد اعظم ایک ایسی جمہوری ریاست میں ہی پاکستان کی فلاح دیکھتے تھے جس پر شدت پسند ملائیت کا غلبہ نہ ہو، جہاں حکومت اپنی توجہ شہریوں کی فلاح پر مرکوز کرے، جہاں تمام شہری اپنے رنگ نسل اور عقیدے سے بالاتر ہو کر ایک جیسے حقوق رکھتے ہوں، جہاں جمہوری طریقے سے حکومت کو منتخب کیا جائے اور اسے ہٹانے یا کمزور کرنے کے لئے بلوے اور فسادات کی راہ اختیار نہ کی جائے بلکہ آئینی طریقے اسے عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے ہی ہٹایا جائے۔

قائد اعظم کی زندگی کا اہم ترین مقصد برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی، جمہوری اور آئینی حقوق کی پاس داری تھا اور وہ خود بھی کبھی قانون شکنی کے مرتکب نہیں ہوئے۔ آپ جمہوریت اور پارلیمانی نظام کے سب سے بڑے حامی اور مشاورت پر پختہ یقین رکھنے والے تھے۔
لندن کے روزنامہ ورکر لندن کو ایک انٹرویو میں قائد اعظم نے کہا کہ مسلمان پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک جمہوری ملک بنانا چاہتے ہیں جس کا کسی بھی رنگ یا نسل سے کوئی تعلق نہ ہوگا اور وہ جمہوری حکومت عوام کے تابع اور عوامی امنگوں کی ترجمان ہوگی۔

ایک دفعہ دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسے میں کسی شخص نے جذبات میں آ کر قائد اعظم کے لیے ‘‘شاہ پاکستان زندہ باد’’ کا نعرہ لگا دیا۔ جس کو آپ نے سخت ناپسند کیا اور فرمایا دیکھیے آپ لوگوں کو اس قِسم کی باتیں نہیں کرنی چاہیے۔ پاکستان میں کوئی بادشاہ نہیں ہو گا۔ وہ مسلمانوں کی جمہوری ریاست ہوگی جہاں سب برابر ہوں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قائداعظم نے جس جمہوری اور آئینی طور پر طاقتور پاکستان کا خواب دیکھا تھا افسوس ہم اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔
جمہوریت،نظام حکومت،ریاست اور مذہب کے تعلق کے حوالے سے ابھی بھی ہم بحث و مباحثے میں الجھے رہتے ہیں حالانکہ قیام پاکستان سے پہلے ہی قائد اعظم نے اس حوالے سے اپنا واضع نکتہ نظر دے دیا تھا۔
قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کے آئین اور قانون کی بالادستی چاہتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ ریاست پاکستان اپنے شہریوں کو امن و انصاف دے اور یہاں کے رہنے والے خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم سب کو یکساں جمہوری حقوق حاصل ہوں۔

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
برداشت اور محبت میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply