کیا امیر ہونا بری بات ہے۔۔؟

کیا امیر ہونا بری بات ہے۔۔؟
سیدعبدالوہاب شیرازی
بہت عرصے سے میں اس موضوع پر لکھنے کے لئے سوچ رہا تھالیکن اس موضوع کی حساسیت کی وجہ سے ٹالتا رہا کیونکہ ہمارے ہاں مفت کے مفتیوں کی بھر مار ہے جو فتویٰ چھوڑتے ہوئے دیر نہیں لگاتے۔ لیکن دو دن قبل دوران مطالعہ مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی ایک تقریر سے مجھے اپنے موقف کی حمایت حاصل ہوگئی ہے اس لئے اب اس موضوع پر چند گزارشات پیش خدمت ہیں۔
سب سے پہلے تو مولانا کی تقریر کے الفاظ پڑھیں وہ کیا فرمارہے ہیں:
اگر کوئی کہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غریب تھے(نعوذبااللہ) تو سمجھ لو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فقر اختیاری تھا۔ اضطراری نہ تھا، فقر وہ ہے کہ جس کا فقر اضطراری ہو۔حضرت ابراہیم بن ادھم نے سلطنت چھوڑ دی تھی تو کیا ان کو فقیر کہا جائے گا، اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اپنے اخیتار سے فقر اختیار کیا تھا اور اختیاری بھی کیسا کہ حضرت جبریل علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر آپ پسند فرمائیں تو خدا تعالیٰ آپ کے لئے جبل احد کو سونا کردیں کہ وہ آپ کے ساتھ چلا کرے۔تو آپ نے فرمایا کہ اے جبریل میں تو یہ چاہتا ہوں کہ ایک دن پیٹ بھر کر کھاوں اور ایک دن بھوکا رہوں۔۔۔۔۔۔تو اب یہ شبہ نہ رہا کہ حضور غریب تھے اور غریب ہونے کی وجہ سے تشریف لے گئے بلکہ آپ سلطان تھے اعتقادا اور واقعۃ بھی۔(خطبات حکیم الامت، جلد 3ص213)۔
تھانوی صاحب رحمہ اللہ کے اس بیان سے معلوم ہوا حضورﷺ کا فقر اختیاری تھا، اور مقصد امت کے اضطراری غریبوں کی حوصلہ افزائی کرنابھی تھا۔ ورنہ یہ ایسی ہی بری بات ہوتی تو آپ کے وہ پیارے صحابہ جن کو دنیا میں ہی جنت کی خوشخبری سنائی گئی، حضرت عثمان بن عفان اور عبدالرحمن بن عوف کبھی بھی ارب پتی نہ ہوتے۔عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو ایک ایک دن میں سو سو اونٹ نفع ہوتا تھا۔ سو اونٹ کا مطلب آج کل کے حساب سے ڈیڑھ کروڑ بنتا ہے، یعنی ایک دن میں ڈیڑھ کروڑ روپے منافع، سبحان اللہ۔یہی حال حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سمیت کئی صحابہ کرام کا تھا۔ جبکہ دوسری طرف ایک بہت بڑی تعداد غرباء صحابہ کرام کی بھی تھی۔
جہاں تک حضورﷺ کی زندگی مبارک کا تعلق ہے تو آپ نے اپنی کسی بھی بیوی کو 500درہم(آج کل کے حساب سے 90ہزارروپے) سے کم مہر نہیں دیا، البتہ بعض بیویوں کو اس سے زیادہ بھی دیا۔ ایک بیو ی کو تقریبا 8لاکھ روپے مہر دیا۔ آج کل کتنے دیندار ہیں جو اپنی بیوی کو90ہزار مہر دیتے ہیں۔ آج کل تو دیندار اس بات کا نام رکھ دیا گیا ہے کہ مہر500رکھو۔ ایک دوہفتے قبل ایک نکاح پڑھایا میں نے ۔پوچھا مہر کتنا ہے تو لڑکے کا باپ بڑے فخر سے کہنے لگامبلغ ایک ہزار روپے، میں نے فورا ًاسے ٹوکتے ہوئے کہا ایک ہزار میں نکاح نہیں ہوتا کم از کم دس درہم(2ہزار روپے) ہے چنانچہ پھر5ہزار مہر طے کیا گیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت سے پتا چلتا ہے کہ مدنی زندگی کے آٹھ دس سالوں تک ایک اونٹنی ہر وقت آپ کے پاس ہوتی تھی، اونٹ اس وقت کا جہاز تھا۔پھر بارہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گھوڑے خریدے اور بیچے، گھوڑا اس وقت کی مرسڈیز تھی۔اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ ہزاروں چاندی کے درہم ایک دن میں صدقہ کیے، میں نے جب انہیں پاکستانی روپوں میں کنورٹ کیا تو دوکروڑ روپے بنتے تھے۔ ایک دن میں دو کروڑ صدقہ کرنا معمولی عمل نہیں اور ظاہر ہے یہ رقم پاس تھی تو صدقہ بھی کی۔
اسی طرح حضور ﷺ کی مکی زندگی میں بھی اور مدنی زندگی میں بھی یہ بات ملتی ہے کہ آپ کے پاس نوکر بھی رہے، ازواج مطہرات کے پاس بھی اکثر نوکرانیاں رکھی ہوئی ہوتی تھیں۔ صحابہ کرام کی ایک بڑی تعداد بھی اپنے پاس نوکررکھتی تھی۔
احادیث میں فقرا ، مساکین کے فضائل اور ترک دنیا کی جو ترغیب آئی ہے، اسے اکثر ایسے بیان کیا جاتا ہے کہ شاید امیر ہونا نہایت ہی برا عمل ہے۔ اسی طرح بعض اوقات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کو بھی اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انتہائی غریب تھے اور بڑی کسمپرسی کی حالت میں آپ نے زندگی گزاری۔ ظاہر ہے اس تصور کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ کسی بھی امتی کو اچھا مکان،اچھالباس،اچھی سواری کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔چنانچہ جو شخص ذرا سا دیندار بنتا ہے اسے نہ صرف کاروبار،تجارت بلکہ امیروں سے نفرت ہوجاتی ہے اور وہ انہیں حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے۔
میرا خیال یہ ہے کہ یہ تصور دیندار لوگوں کے ذہن میں ایک سازش کے تحت ڈالا گیا تاکہ کوئی دیندار شخص معاشرے پر اثر انداز نہ ہوسکے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ معاشرے میں اچھی شہرت، اچھی معاشی حالت رکھنے والا شخص بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں غریب کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوتے ہیں وہ کیا کسی دوسرے کے بارے سوچے گا۔ چنانچہ اکثر امیر لوگ ہی دنیا پر حکمرانی کرتے نظر آتے ہیں، کوئی غریب یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ ایک معمولی سا ایس ایچ او بھی لگ سکے۔
دولت اگر اللہ اور اس کے رسول کے لائے ہوئے دین پر عمل کرتے ہوئے مل جائے یا حلال طریقے سے حاصل کرلی جائے تو بری چیز نہیں۔ بس اس میں اللہ کا حق اور خوب صدقہ وخیرات ہوتا رہے، تو بہت بڑی نعمت ہے۔غلبہ دین کی محنت کرنے والے دیندار مسلمانوں کی معاشی حالت کا بہتر ہونا نہایت ہی ضروری ہے۔ اسباب کی دنیا میں جہاں تیر تلوار، گھوڑا اونٹ، زرہ اور خود کا استعمال کیا گیا ہے وہیں حضور ﷺ نے چندے کے طور پر صحابہ کرام سے جنگی تیاری کے لئے مال بھی جمع کیا تھا۔ یہ انسانی ضرورت ہے اور خصوصاً اقامت دین کی جدوجہد میں جہاں اخلاص، ایمان ویقین، صبر،ثابت قدمی اور ہمت و عزم کی ضرورت ہے وہیں اچھی معاشی حالت کا ہونا بھی نہایت ہی ضروری ہے۔جس ملک کی معاشی حالت جتنی مضبوط ہوتی ہے اتنا ہی اس کی دفاعی حالت بہتر ہوجاتی ہے۔لہٰذا یہ مفروضہ ذہن سے نکال لینا چاہیے کہ دیندار تبھی کہلایا جاسکتا ہے جب معاشی حالت خراب ہوجائے، کپڑے پھٹ جائیں، اور آدمی بسوں میں دھکے کھاتا پھرے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply