ایک ہفتہ قبل گجرات سے تعلق رکھنے والے نوجوان شاعر اسامہ جمشید نے خودکشی کر لی‘یوں یہ موضوع ایک دفعہ پھر سوشل میڈیا کی زینت بن گیا اور ہمارا سماج‘ بالخصوص تخلیق کار طبقہ اپنے لیکچرز اور رویوں سے یہ بتانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے کہ کاش اسامہ ہمیں بتاتا‘کاش ہم سے وہ اپنا دکھ شیئر کرتا‘ہم سے وہ اپنے مسائل ڈسکس کرتا تو ایسا کبھی نہ ہوتا۔یہ ایسے ڈائیلاگ ہیں جو ہر خودکشی کے بعد معتبر طبقے کی جانب سے سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔جو شخص خودکشی کی اٹیمپ لے رہا ہوتا ہے اس کے حالات سے بہت زیادہ نہیں تو اچھے خاصی قریبی احباب واقف ہوتے ہیں اور ان کا چارہ کرنے کے بجائے عموما نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔آج امن اور محبت کا بھاشن دینے والے یہ سوچنا شروع کر دیں کہ ہمارے ارد گرد کوئی اور ایسا نوجوان تو نہیں جو اسامہ کی طرح موت کی جانب بڑھ رہا ہے اور ہم اسے مسلسل نہ صرف نظرانداز کر رہے ہیں بلکہ طنز کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں‘تو میرے خیال سے اس رجحان میں کافی حد تک کمی آ سکتی ہے۔اسامہ جمشید یقینا ہم سب کا دوست نہیں تھا‘اس حلقہ احباب اگرچہ اچھا خاسا تھا مگر اس کے باوجود اس کے دوست احباب انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں لہٰذا میں نے بہت سوں سے رابطہ کیا اور حقیقت جاننے کی کوشش کی اور بہت حد تک چیزیں کلیئر بھی ہوئیں جس کا سارا نہیں تو بہت حد تک الزام اس کے اپنے اہلِ خانہ کو جاتا ہے۔
میں نے گزشتہ اسی موضوع پر ایک کالم میں کہا تھا خود خودکشی کرنے والا کبھی بھی یک دم یہ گناہِ کبیرہ نہیں کرتا بلکہ بہت سے عوامل اس عمل کے پیچھے کار فرما ہوتے ہیں جن میں اہلِ خانہ‘عزیز و اقارب اور دوست احباب سمیت سماجی رویے نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہم کبھی بھی کسی ایک دکھ کو خودکشی کے ساتھ نہیں جوڑ سکتے۔اسامہ کو گھروالوں سے مسائل تھے‘اسامہ اس سے قبل خودکشی کی دو”اٹیمپ“بھی لے چکا تھا(بقول قریبی ذرائع)‘اسامہ کو اس کے والد کی طرف سے ہمیشہ نظر انداز کیا گیا اور تنقید کا نشانہ بنایا گیا‘اسامہ کی بری صحبت سے اس کے گھر والے پریشان تھے‘اسامہ کئی نوکریاں بدل چکا تھا اور یہاں تک کہ جب وہ سعودی عرب سے واپس آیا(جو کہ اس کا والد نہیں چاہتا تھا)تو کئی مہینے تک گھر والوں سے ناراضی رہی جس کی صلح علامہ طاہر القادری نے کروائی کیونکہ اسامہ منہاج القرآن گجرات ونگ کا انتہائی متحرک کاررکن تھا۔ادبی حوالے سے مصطفوی سٹوڈنٹ موومنٹ کے ادبی دوستوں سے وابستہ تھا اور ادبی تقریبات میں ہمیشہ پیش پیش ہوتا اورمیرا بھی تعلق عمران اختر سانولؔ (صدر ایم ایس ایم ادبی ونگ)کے توسط سے منہاج القرآن کے مشاعروں میں شروع ہوئیں جو یادگار نہ سہی مگر خوبصورت ضرور ہیں۔
اسامہ جمشید کی خودکشی کی تحقیق کرتے ہوئے بہت سارے انکشافات سے بھی ہوئے جو یقینا کالم میں بیان نہیں کیے جا سکتے مگر مجھے یہ جان کر بھی شدید حیرانی ہوئی کہ وہ گزشتہ کئی ہفتوں سے شدید ڈپریشن کا شکار تھا اور اس کا دکھ‘ ڈپریشن اس کے قریبی عزیز یا دوست یا پھر والدین کیوں نہ سمجھ سکے؟۔آخری دنوں میں اسامہ‘ نوجوان شاعر احمد عطا کے ساتھ کسی کتابوں کے پروجیکٹ پر بھی کام کر رہا تھا جس سے اس کی انکم زیادہ نہیں تو گزارے لائق ضرور تھی۔سماجی رویے عموما ًلکھنے والوں کا یا آرٹسٹ طبقے کو نظرانداز کر دیتے ہیں ُان کا استحصال کرتے ہیں اور اس کا نقصان سماج کو تو زیادہ نہیں ہوتا مگر خود تخلیق کار کسی بڑے حادثے کا ضرور شکار ہو جاتا ہے۔میں اس موضوع پر بات کرتے ہوئے ہمیشہ ایک ہی بات کرتا ہوں کہ مرنے والے کو خودکشی سے بچانے کا سب سے پہلا اور مضبوط ترین راستہ والدین اور گھر والوں کے پاس ہوتا ہے۔جب بھی یہ لوگ محسوس کریں کہ ہمارے بچے میں کئی منفی تبدیلی آ رہی ہے‘وہ چپ چپ رہنے لگ گیا ہے‘وہ مسلسل تنہائی میں بیٹھنے لگ گیا ہے‘وہ سموکنگ یا ڈرنگ زیادہ کر رہا ہے‘وہ موبائل فون ضرورت سے کہیں زیادہ استعمال کر رہا ہے‘وہ بات بات پہ الجھ رہا ہے یا ایسے ہی دیگر عوامل اس کی زندگی میں داخل ہو رہے ہیں تو انہیں اسی وقت چوکس ہو جانا چاہیے اور بچے سے قربت بڑھانی چاہیے‘والدین کو ”مولا جٹ“بننے کی بجائے بچے کا دوست بن کر سینے سے لگانا چاہیے تاکہ وہ آپ کی قربت سے آپ کو اپنا سمجھ سکے۔یقین جانیں آج ستر فیصد والدین اور بچوں کے درمیان خلا‘والدین کے ان سخت رویوں کی وجہ سے پیدا ہوا جس کی انتہا خودکشی یا منشیات ہے۔ماں جب بھی بات کرے گے وہ بچے کو باپ کے نام سے ڈرائے گی‘باپ کے نام کی دھمکی دے گی اور یوں وقت کے ساتھ ساتھ بچے کو یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ ساری دنیا میری بہترین دوست ہے‘بس میرا باپ ہی میری آزادی کاسب سے بڑا دشمن ہے۔ یہی کردار ماں اپنے بارے میں بھی ادا کرتی ہے اور یوں بچہ اوائل عمری میں ہی والدین سے متنفر ہو جاتا ہے‘وہ ہر ایرے غیرے پر بھروسہ کر لیتا ہے مگر والدین سے ہر بات چھپانے لگتا ہے اور یہی سے سارے مسائل جنم لیتے ہیں۔والدین دوست ہوں تو بچے کی زندگی میں آنے والی ہر پریشانی اور ڈپریشن کا حل تلاشا جا سکتا ہے مگر والدین کو ”مولا جٹ“کا کردار اداکرنے کی بجائے دوستی کا رویہ اپنانا ہوگا۔دوسرا بہترین راستہ ہمارے سماجی رویے ہیں جن سے ایسے واقعات ہیں پر کماحقہ کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ہمیں اپنے ارد گرد لوگوں سے یا چاہنے والوں سے خودغرضی کا رویہ تبدیل کرنا ہوگا کیونکہ ہماری خودغرضی ہی کسی کی جان لیتی ہے‘ہم جب ہر معاملے میں اپنا فائدہ سوچنے لگتے ہیں تو پھر بھائی‘بھائی کو اور والدین تک اپنے بچوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔اسامہ ہر گلی اور ہر شہر میں درجنوں موجود ہیں‘کچھ ظاہر تو کچھ چھپے ہوئے۔ہمیں اسامہ جمشید کی موت سے عبرت حاصل کرتے ہوئے اپنے چاہنے والوں سے تعلق کو مضبوط کرنا ہوتا۔میں نے 2017ء میں مرحوم دوست منظور جمشید کی خودکشی پر کالم لکھتے ہوئے کہا تھا کہ یہ خودکشی نہیں بلکہ قت۵ل ہے جو اس کے والدین‘دوستوں اور سماج نے کیا ہے۔ایک عام انسان کی موت کا نقصان بھی ناقابلِ برداشت ہوتا ہے اور اگر اسامہ جیسے ذہین تخلیق کار کی موت ہو جائے تو سوچئے کتنا نقصان ہوا ہوگا۔مجھے یہ جان کر مزید حیرانی ہوئی کہ اسامہ جنہیں مرشدوں سے زیادہ اہمیت دیتا رہا‘جن کے نام کی مالا جپتا رہا‘وہی دوست اور عزیز و اقارب اس کے جنازے کو کندھا نہ دے سکے۔فیس بک اورسوشل میڈیا پر بھاشن دینا بہت آسان ہوتا ہے‘عملی زندگی بہت مختلف ہوتی ہے اور کاش ہمارا تخلیق کار طبقہ عملی زندگی گزارنا شروع کر دے۔کتنے ہی شاعر اور دانشور حضرات جو اس کے بہت قریبی تھی‘جنازے تک کو کندھا نہ دے سکے اورمیں سمجھتا ہوں کہ یہ خودکشی کے بعد بھی اسامہ کو تکلیف دی گئی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں