کتھا چار جنموں کی ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند/قسط 19

1991 کی شروعات۔۔۔یونیورسٹی میں میری تین برس کی تقرری ختم ہونے کے قریب تھی۔ ساؤتھ ایشیا پوئٹری پراجیکٹ بھی مکمل ہو چکا تھا کہ مجھے سعودی عرب میں آنے کی دعوت ملی۔ کام وہی تھا، نصاب سازی اور کورس پلاننگ کا، لیکن اس کا لٹریچر سے کوئی واسطہ نہیں تھا، صرف عرب طلبہ کے لیے English As A Second Language i.e. E.S.L.کے زمرے میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں مواد تیار کرنا تھا۔ میرے لیے یہ ایک چیلنج تھا، اس لیے بھی کہ میں نے اس میدان میں اس سے پہلے کوئی کام نہیں کیا تھا اور مجھے خود کو ایک نئے میدان اختصاص میں اپنی کارکردگی ثابت کرنے کا موقع مل رہا تھا، دوسرے یہ کہ تنخواہ معقول تھی، اس پر کوئی ٹیکس نہیں تھا، اور حکومت کی طرف سے سرکاری رہائش گاہ یا مکان کا کرایہ اور کار یا ٹرانسپورٹیشن الاؤنس اضافی مراعات تھیں۔

یہ بھی پڑھیے  : نعت خوانی کی روایت/نور درویش

کچھ دوستوں سے یہاں بات کی۔ کچھ دیگر دوستوں سے پاکستان اور ہندوستان میں بات کی۔ لاہور سے ڈاکٹر وزیر آغا نے بتایا کہ ان کے عزیز اور معروف شاعر نصیر احمد ناصرؔ بھی ریاض میں سکونت پذیر ہیں، اور کہ وہ انہیں خط لکھ کر میرے آنے کی اطلاع دے رہے ہیں۔ واشنگٹن سے ہی ایک اور ہندی قلم کار اور عزیز دوست دھننجے کمار نے اپنے دوست میاں بیوی جسّیؔ سرنااور ان کی اہلیہ جسبیرؔ کے نام تعارفی خطوط دیے، جو خود سعودی حکومت میں ایک ممتاز عہدے پر فائز تھے۔ اسی طرح معروف کالم نگار ڈاکٹر منظور اعجاز نے ایک تعارفی خط دیا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہاں ہندوستانی سفیر عشرت عزیز صاحب سے بھی ان کے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے دنوں سے ہی علیک سلیک تھی، اور جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ مجھے ریاض میں ہی رہنا ہو گا، تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔لیکن حکومت کی طرف سے جو ہوائی ٹکٹ مجھے دیا گیا، وہ جدّہ کے راستے ریاض کا تھا، یعنی جدّہ میں مجھے ایک دن رُکنا تھا اور دوسرے دن کی اڑان پکڑنی تھی۔یہ غتربود کیسے ہوئی، اس بارے میں پوچھنا ہی غلط تھا۔ اس لیے میں نے اسے بھی اللہ کی رضا جان کر قبول کیا، اور پھر ریاض کے بجائے جدّہ پہنچ جانے کی وجہ سے ایک ایسی نعتیہ نظم ایئر پورٹ پر ہی خلق ہوئی، جس نے مجھے روحانی خوشی سے شرابور کر دیا۔ آج بھی جب کبھی میں وہ نظم پڑھتا ہوں، تو خوشی کی لہریں میرے وجود کو سرشار کر دیتی ہیں۔

ہوا یہ کہ ایئر پورٹ کے ویٹنگ لاؤنج تک پہنچنے کے لیے بھی ہوائی اڈے سے باہر جانے والے مسافروں کی قطار میں ہی انتظار کرنا پڑتا تھا۔ میرے پاؤں میں کچھ تکلیف تھی اور چہ آنکہ چلنے میں مجھے اتنی دقت نہیں ہوتی تھی، تو بھی قطار میں آدھ پون گھنٹہ کھڑا ہونا اور ایک ایک قدم آگے بڑھاناسوہان ِ روح تھا۔

یہ بھی پڑھیے  :      نسبت ہے مجھے شاہِ لولاک سے”عشق آتش”/اسماء مغل
ا ب میں کن الفاظ میں اس epiphany کو بیان کروں کہ یکدم مجھے محسوس ہوا کہ کوئی مجھے بلا رہا ہے، کوئی بار بار مجھے تاکید کر رہا ہے، ”حاضری دے کر جانا!“ میری رگ ِ جاں میں بیٹھا ہو اکوئی یہ بات کہے جا رہا ہے، کہے جا رہا ہے، کہے جا رہا ہے۔۔میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ روہانسکا سا ہو کر میں نے اپنے پیچھے کھڑے ہوئے شخص سے انگریزی میں کہا، ”قطار میں میر ی جگہ کا خیال رکھنا۔ میرے پاؤں میں تکلیف ہے۔میں زیادہ دیر کھڑا نہیں رہ سکتا، سامنے کرسی پر بیٹھ رہا ہوں۔“ کچھ قدم چل کر میں کرسی پر جیسے ڈھیر ہو گیا، لیکن آواز بند نہ ہوئی۔ میں نے جیب سے نوٹ بک نکالی، پین تلاش کیا، اور جب تک میں نے ڈائری کے ایک کورے صفحے پر اپنی نظم کا یہ عنوان نہیں لکھا، ”حاضری“، آواز بند نہیں ہوئی۔ جونہی میں نے پہلی سطر لکھ لی، جیسے کوئی دم بخود سُن رہا ہو، میرے کانوں میں ایئر پورٹ کا شور و غل جیسے دب گیاہو، ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ مجھے اپنی نظم لکھتے ہوئے صرف پانچ منٹ لگے، اور اس کے بعد میں ہلکا سا ہو کر، بقول شیکسپیئر،
All passion spent, all fret and fever gone قطار میں اپنی جگہ پر جا کر کھڑا ہو گیا۔ نظم یہ تھی۔
حاضری!
حضورؐ ِ اکرم
فقیر اک پائے لنگ لے کر
سعادت ِ حاضری کی خاطر
ہزاروں کوسوں سے آپؐ کے در پہ آ گیا ہے
نبیؐ ِ بر حق
یہ حاضری گرچہ نا مکمل ہے
پھر بھی اس کو قبول کیجے
حضورؐ، آقائےؐ محترم
یہ فقیر اتنا تو  جانتا ہے
کہ قبلہ  دید صرف اک فاصلے سے اس کو روا ہے
اس کے نصیب میں مصطفےٰؐ کے در کی تجلیاں دور سے لکھی ہیں

Advertisements
julia rana solicitors

نبیؐ ء اکرم
وہ سایہ ء رحمت ِ پیمبرؐ
جو صف بہ صف سب نمازیوں کے سروں پہ ہے
اس کا ایک پرتو
ذرا سی بخشش
ذرا سا فیضان ِ عفو و رحمت
اُسے بھی مل جائے
جو شہء ﷺ  مرسلین
دست ِ دعا اٹھائے کھڑا ہے اک فاصلے پہ، لیکن
نمازیوں کی صفوں میں شامل نہیں ہے، آقاؐ!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کتھا چار جنموں کی ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند/قسط 19

Leave a Reply