اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر ( میں یہ اندازہ لگا سکا ہوں کہ وہ ویانا یونیورسٹی میں پڑھتا ہوگا، لیکن یہ صرف اندازہ ہی ہے) ایک طالبعلم نے مجھے بتایا کہ اس نے سگمنڈ فرائیڈ کی ایک ایسی کتاب دریافت کی ہے جو کبھی لکھی ہی نہیں گئی. اس کتاب کی تحریر سے لگتا ہے کہ یقینناً فرائیڈ نے ہی اسے لکھا ہوگا. اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس پہ نہ تو یقین کیا جا سکتا ہے نہ آپ اسے جھٹلا سکتے ہیں. اس کا طرز تحریر بالکل سادہ ہے. اس تحریر کی طرح جو آپ پڑھ رہے ہیں. میرے بہت زیادہ اصرار پر اس نے کتاب کا یہ نام بتایا " کسی کتاب کو جلد پڑھنے کے طریقے". یہ ہرگز کوئی لطیفہ نہیں کہ الفاظ پر تیز انگلی پھیریں اور دھیان نہ بھٹکنے دیں تو کوئی بھی کتاب جلد پڑھی جا سکتی ہے. لیکن کیا کتاب سمجھنا ہی اہم نہیں ہونا چاہیے؟ فرائیڈ مسخرہ نہیں تھا. مجھے لگتا ہے اس کے اندر یہ بھی نہیں لکھا ہوگا کہ کتاب کے ابتدائیہ یا پیش لفظ کو پڑھ کر یہ رائے قائم کر لیں کہ آپ نے اسے پڑھا ہے. نہ ہی نام کچھ کارگر ثابت ہو سکتا ہے، جیسے خود اس کتاب کا نام ہے. لیکن آپ کچھ بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ جب وہ اسے کھولتا ہے تو وہ ان خوابوں میں کھو جاتا ہے، جنہیں نہ دیکھنے کیلئے اس نے کتنی راتیں قربان کیں
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں