موجودہ سیاسی صورتحال کا مختصر سائنسی تجزیہ۔۔فاروق بلوچ

جناب میاں نواز شریف صاحب!  سر   چور کہنا بہت معمولی بات ہے. لیکن جب عوام اِس بات پہ خوش ہوتی ہے کہ ایک عدالتی چور “چیف جسٹس آف پاکستان” نوازشریف کو چور کہہ رہا ہے تو مجھے عوام کی سادگی پہ ہنسی آتی ہے (اِس کا مطلب یہ نہیں کہ مجھے عوام سے گلہ ہے یا میں عوام کو بُرا کہہ رہا ہوں). سرمایہ دارانہ نظام میں عدالت، فوج، پارلیمنٹ، انتظامیہ سے لیکر دیگر تمام ریاستی ادارے عوام کی بجائے “امیروں” کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں.

یہاں دوست مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ پاکستان میں نوازشریف سے زیادہ کون امیر ہے پھر یہ ادارے اپنے سب سے امیر بندے کو تحفظ کیوں نہیں دے رہے  ہیں؟ یا پھر یہ مثال دی جاتی ہے سعودی عرب میں دنیا کے امیرترین شہزادوں کو یہ ریاستی ادارے کیوں تحفظ نہیں دے رہے؟ یہ سوال اِس لیے اٹھائے جاتے ہیں کیونکہ ہمیں سماج کی اوپری پرت (حاکم پرت) کی بُنت سے واقفیت نہیں ہے. ہمیں تو اُن کے سامنے رکھے کھانوں کے نام تک نہیں آتے، ایوانِ اقتدار کی الجھنیں کیا خاک سمجھیں گے.

ہوتا یوں ہے کہ جب جب سرمایہ دارانہ نظام گراوٹ، بحران اور نقصان کا شکار ہوتا ہے تو سارے بڑے بڑے سرمایہ دار اپنا اپنا مفاد محفوظ کرنے اور اپنے اپنے آپ کو نقصان سے بچانے کے لیے ایک دوسرے پہ پَل پڑتے ہیں. آج دیکھ لیجیے پاکستانی معیشت مسلسل گراوٹ اور مندی کا شکار ہے اور یہی کچھ عالمی منظرنامے پہ نظر آ رہا ہے. امریکہ جیسی مستحکم سمجھی جانے والی دنیا کی سب سے بڑی معیشت پہ کالے سائے منڈلا رہے ہیں. بار بار جزوقتی و قلیل مدتی بجٹ ترتیب دیئے جا رہے ہیں. سعودی عرب کی معیشت ناختم ہونے والے بحرانوں کا سامنا کر رہی ہے. پیداوار (قدرِ زائد) کے انبار لگانے والی چینی معیشت بار بار کریش کر جاتی ہے.

اچھا اب دوست یہ سوال کرتے ہیں کہ اِس معاشی حالت کا سیاسی حالات یعنی نوازشریف، عمران خان، عدلیہ اور فوج کے فیصلوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ ایک بات یاد رکھیے کہ سیاست دراصل معیشت کا عکس ہوتی ہے. جیسی معیشت ہو گی ویسی ہی سیاست ہو گی. کیونکہ ہماری سیاست بھی ہمارے سرمایہ دار متعین کرتے ہیں یہ سیاسی کھیل بھی سرمایہ داروں کے کنٹرول میں ہے. کیا ہم دیکھتے نہیں کہ ہمارے ہاں الیکشن کے لیے سب سے اولین ضرورت کیا ہے ؟ پیسہ ۔۔یعنی دولت یعنی سرمایہ!

جب معیشت گراوٹ کا شکار ہے اِسی لیے سیاست بھی گراوٹ کا شکار ہے. سیاستدان خود ہی سرمایہ دار بھی ہیں جیسے نوازشریف اور آصف زرداری وغیرہ یا پھر سیاستدان سرمایہ داروں کے گماشتہ ہیں جیسے عمران خان یا پھر سیاستدان سرمایہ داروں کی  بلاواسطہ کٹھ پتلی ہیں جیسے جماعت اسلامی وغیرہ. جیسے جیسے پاکستان کی معیشت گراوٹ اور عدم استحکام کا شکار ہو رہی ہے تو سیاست بھی ایسی ہی گھٹیا، پیچیدہ اور عدم استحکام کا شکار ہو رہی ہے. یہ پاکستانی سیاست نہیں بلکہ پاکستانی سرمایہ داروں کی آپسی جنگ ہے جو اپنی اپنی چالاکی سے پاکستانی اداروں کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں. نوازشریف کی جگہ کوئی دوسرا سیاستدان ہوتا تو کب کا قصہِ عبرت و پارینہ بن کر گمنام ہو چکا ہوتا جیسے الطاف حسین وغیرہ. لیکن چونکہ نوازشریف کا ریاستی اداروں پہ خاصا اثر و رسوخ موجود ہے اِس لیے وہ ابھی تک آنکھیں دکھا رہا ہے.

موجودہ سیاسی جدل میں عوام کا  کوئی کردار نہیں ہے. یہاں نوازشریف جیتے گا یا پھر کوئی دوسرا سرمایہ دار یا کئی دیگر سرمایہ دار جیتے گے. جنگ بہرحال جاری ہے. موجودہ پورے معاملے میں عوام کہیں بھی موجود نہیں ہیں کیونکہ عوام نظام کا حصہ ہی نہیں ہیں. عوام اِس نظام کا حصہ بن ہی نہیں سکتے کیونکہ عوام کے پاس سرمایہ نہیں ہوتا. ذرائع پیداوار پہ تو سرمایہ داروں کی نجی ملکیت باقی ہے.

عوام کے پاس کیا آپشن بچتا ہے؟
خاموشی سے سر جھکا کر شوگر ملز کے پرمٹ حاصل کرنے اور پھر بیچے ہوئے گنے کی قیمت کے لیے ذلیل ہوتے رہیں. اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے زیادہ سے زیادہ محنت کرکے ذہنی و قلبی و جسمانی بیماریوں کو گلے لگاتے رہیں. کبھی کسی شریف تو کبھی کسی نیازی تو کسی زرداری تو کبھی افتخار چوہدری یا ثاقب نثار سے امیدیں وابستہ کرتے ہوئے آنے والے سہانے کل کو  سینوں میں لیے قبر میں اتر جائیں.

Advertisements
julia rana solicitors

دوسرا آپشن کیا ہے؟
زبانوں، سرحدوں اور مذہب کی حدود کو پامال کرتے ہوئے اپنے طبقے کے لوگوں کے ہاتھ تھام کر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بغاوت کر دیں. ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کے خاتمے کے ذریعے آزاد منڈی کی معیشت کی جگہ منصوبہ بند معیشت کے ذریعے سوشلسٹ نظام مرتب کیا جائے تاکہ سماجی سائنس سے لیکر سیاسی ایوانوں تک مزدور، کسان اور نوجوان کا راج قائم ہو. کوئی طبقہ باقی نہ رہے. بس نام رہے اللہ کا اور راج کرے خلقِ خدا!!

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply