کنٹریکٹ ملازمت، بدترین استحصال۔۔سید عمران علی شاہ

انسان کو اپنی زندگی گزارنے کے لیے جو بنیادی ترین ضروریات درکار ہوتی ہیں، اس میں خوراک، لباس اور ایک محفوظ چھت اہم ترین ہیں،
ایک اندازے کے مطابق انسان کا اس زمین پر وجود لاکھوں، کروڑوں سال سے ہے، پتھروں کے زمانے سے لیکر دور جدید تک، انسان نے اپنی بقاء اور گزر بسر کے لیے، کسی نہ کسی ذریعہ معاش کا سہارا لیا، تاکہ وہ اپنی تمام ضروریات کو پورا کر سکے، انسان، زراعت سے وابستہ ہوا، تجارت کرتا رہا، سمندر کی تہہ سے خزانے تلاش کرتے ہوئے، اپنی بھوک مٹانے کے لیے مچھلیوں کا شکار کرتا رہا،
مگر جیسے جیسے وقت اور زمانے ترقی کی تو انسان کے ذرائع معاش نے بھی جدت اختیار کرلی، بڑے بڑے کارخانے اور صنعتیں لگالیں، نت نئے اچھوتے کاروبار دریافت کرلیے،
انسان کی ترقی کا سفر جدید علوم کی بناء پر اگے سے آگے بڑھنے لگا،اور وقت ایسا بھی آن پہنچا کہ انسان کے اچھے ذریعہ معاش  کے لیے اعلیٰ تعلیم کا حصول ایک جزو لازم ٹھہرا۔
ملک پاکستان ترقی پذیر ممالک میں شمار ہوتا ہے، آزادی کے تہتر سالوں کے میں ارض وطن کو ان گنت نشیب و فراز کا سامنا رہا، مگر ان تمام کے باوجود ترقی کا عمل رواں دواں ہے، ہماری ملکی معیشت بیرونی امداد اور قرضوں کے دم پر چلی جارہی ہے، مگر تعلیم کے شعبے میں پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے کہ جہاں حصول تعلیم کا رجحان بہت زیادہ ہے۔
گزشتہ 20 سال میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے حصول تعلیم کی شرح میں 10 فیصد سے زائد کا اضافہ دیکھنے میں آیا، مگر اس کے بر عکس اگر روزگار کے مواقع کی بات کی جائے تو اس کی شرح بجائے بڑھنے کے کم ہوئی ہے۔
جس سے نوجوانوں میں ایک بے چینی اور اضطراب کی کیفیت دیکھنے کو ملتی ہے، سرکاری اداروں میں ملازمت کا حصول تو ایک خواب ہی بن چکا ہے، کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ پاکستان میں آدھی زندگی ڈگریوں کے حصول میں گزر جاتی ہے اور باقی ان ڈگریوں کی فوٹو کاپیاں کروانے میں گزر جاتی ہے، پاکستان میں NTS نے لوگوں کو روزگار کے لیے ٹسٹوں کی مد میں غریب نوجوانوں سے اربوں روپے بٹورے مگر ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
رہی سہی کسر ملازمت کے لیے دیے جانے والے کنٹریکٹ نے پوری کردی، گزشتہ چند دہائیوں میں پاکستان میں سرکاری، نیم  سرکاری، غیر سرکاری اور نجی اداروں میں کنٹریکٹ پر ملازمت دینے کا سلسلہ زور شور سے جاری ہوا۔
کنٹریکٹ/عارضی ملازمت چاہے سرکاری ہو یا نجی اداروں میں ہو بلاشبہ نہایت غیر یقینی مستقبل کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ، بہترین پیشہ ورانہ اہلیت کے حامل افراد کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔
کنٹریکٹ ملازم کی زندگی کا پیشتر حصہ بےچینی اور افسران کی دھمکیوں کے خوف میں گزر جاتا ہے۔ کنثریکٹ ملازم ریگولر ملازم کے سامنے انڈر پریشر لایف گزارتا ہے۔ کنٹریکٹ ملازم تعیلم حاصل نہں کر سکتا کیونکہ ریگولر ملازم کی طرح چچھٹیاں نہں ملتی۔ کنٹریکٹ ملازم اپنا اور بچوں کے علاج کے لیے دس دن سے زیادہ چھٹیاں نہیں لے سکتا۔ کنٹریکٹ ملازم اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوانے کا رسک نہیں لے سکتا کیونکہ اسے اپنی نوکری اور تنخواہ کا بھروسہ نہیں ہوتا۔
کنٹریکٹ ملازم کی salary پوری دے کر ہر ماہ ٹیکس کٹوتی کی جاتی ہے جب کہ ریگولر ملازم کی کٹوتی کم کی جاتی ہے۔ کنٹریکٹ ملازم کو رسک الاونس نہں دیا جاتا۔کنٹریکٹ ملازم کو بنک عموماً کسی بھی قسم کا لون نہیں دیتے۔
پاکستان میں چند ایک نجی ادارے اچھی ملازمت کے مواقع فراہم کرتے ہیں جس میں وہ اپنے ملازمین کواعلیٰ ماہانہ تنخواہوں کے ساتھ ساتھ دیگر مراعات بھی دیتے ہیں ان اداروں میں اکثر و بیشتر ملٹی نیشنل گروپس ہیں اور چند ایک مقامی پرائیویٹ کمپنیز ہیں۔
لیکن اگر اکثریت میں نجی اداروں اور شعبوں کی کنٹریکٹ ملازمت کا جائزہ لیا جائے تو ان کا حال سرکاری کنٹریکٹ ملازمین کے مقابلے میں دگرگوں ہے، کمپنیوں کے مالکان پڑھے لکھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ پروفیشنلز کا بدترین استحصال کرتے ہیں، اور ان کی عزت نفس کو مجروح کرتے رہتے ہیں۔
اس وقت بھی محکمہ صحت، نادرا، پنجاب ایمرجنسی سروس ریسکیو 1122 جیسے اہم ترین اداروں علاوہ دیگر بہت سے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں لاکھوں کی تعداد میں کنٹریکٹ ملازمین اپنے فرائض ادا کر رہے، ان میں سے بیشتر لوگ اپنی عمر کا ایک طویل عرصہ اس امید پر ان اداروں میں کام کررہے ہیں کہ شاید ان کی نوکری مستقل ہو جائے۔
حکومت کو اس وقت ایک جامع حکمت عملی بنانی ہوگی، کہ کس طرح سے نجی ملازمت اور سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں کام کرنے والے کنٹریکٹ ملازمین کے مستقبل کو محفوظ بنایا جا سکے،
یا تو ان تمام افراد کو مستقل کیا جائے یا پھر لیبر کے قوانین کو مزید سخت سے سخت بنا کر آجروں، صنعتکاروں، کمپنیوں، اور اداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے پاس موجود ملازمین کو جاب سکیورٹی فراہم کریں، ان کو قانون کے مطابق مکمل سوشل سکیورٹی فراہم کریں، ان ملازمین کو صحت اور زندگی کی بیمہ پالیسی دی جائیں، ای او بی آئی کی سہولت کو مزید مؤثر بنایا جائے، اور کنٹریکٹ ملازمت کی کم از کم مدت 5 سے 10 سال تک ہونی چاہیے۔
جزوقتی ملازمت ایک بد ترین امتحان ہوتی ہے، کنٹریکٹ ملازمت ہنر مند اور پیشہ وارانہ مہارت رکھنے والے لوگوں کا بد ترین استحصال کرتی ہے، اگر لوگوں کو محفوظ ملازمت فراہم ہوگی تو انکی استعداد کار بہتر ہوگی اور وہ اپنی محنت سے ملکی ترقی کے حصول میں اپنا کردار نبھائیں گے۔

Facebook Comments

سید عمران علی شاہ
سید عمران علی شاہ نام - سید عمران علی شاہ سکونت- لیہ, پاکستان تعلیم: MBA, MA International Relations, B.Ed, M.A Special Education شعبہ-ڈویلپمنٹ سیکٹر, NGOs شاعری ,کالم نگاری، مضمون نگاری، موسیقی سے گہرا لگاؤ ہے، گذشتہ 8 سال سے، مختلف قومی و علاقائی اخبارات روزنامہ نظام اسلام آباد، روزنامہ خبریں ملتان، روزنامہ صحافت کوئٹہ،روزنامہ نوائے تھل، روزنامہ شناور ،روزنامہ لیہ ٹو ڈے اور روزنامہ معرکہ میں کالمز اور آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں، اسی طرح سے عالمی شہرت یافتہ ویبسائٹ مکالمہ ڈاٹ کام، ڈیلی اردو کالمز اور ہم سب میں بھی پچھلے کئی سالوں سے ان کے کالمز باقاعدگی سے شائع ہو رہے، بذات خود بھی شعبہ صحافت سے وابستگی ہے، 10 سال ہفت روزہ میری آواز (مظفر گڑھ، ملتان) سے بطور ایڈیٹر وابستہ رہے، اس وقت روزنامہ شناور لیہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں اور ہفت روزہ اعجازِ قلم لیہ کے چیف ایڈیٹر ہیں، مختلف اداروں میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی ممبر ماسٹرز کی سطح کے طلباء و طالبات کو تعلیم بھی دیتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply