یو پی میں بھاجپا کی کامیابی کتنی حقیقی؟

سوال کرنے والے نے سوال کیا کہ آیا یوپی کے2014ءکے پارلیمانی انتخابات کے نتائج (جس میں بی جے پی نے80میں سے71نشستیں جیتی تھیں یا 2017ءکے ریاستی اسمبلی کے انتخابات کے نتائج جس میں بی جے پی نے403میں سے325نشستیں حاصل کی ہیں میں کون سے زیادہ آہم ہے؟ سیدھا سا جواب یہ ہے کہ2017ءکے اسمبلی کے الیکشن کے نتائج کی وجہ یہ ہے کہ2014ءکے انتخابات وعدوں کے سبز باغ دکھا کر، تبدیلی، مہنگائی و کرپشن میں کمی اور بینک کھاتوں میں پندرہ لاکھ جمع کرانے کے وعدوں کے تیقن پر مودی جیتے تھے۔2017ءمیں مودی کی جھولی خالی تھی۔ وعدے پورے کرنے کے تمام خانے خالی تھے۔ نوٹ بندی کی ناقابل بیان تکالیف، عمومی مہنگائی، کرپشن اور بدانتظامی کے داغوں سے ان کا ماتھا مکروہ نظر آتا تھا۔ وکاس (ترقی) کا نعرہ کھوکھلا ثابت ہوا تھا تو اکھلیش کے ماتھے پر کچھ داغ تو تھے لیکن ان کے سر پر ترقیاتی کاموں کا تاج چمک رہا تھا۔ پھر بھی خلاف توقع مودی جیت گئے جو بہت اہم ہے۔
گزشتہ ہفتہ اسی کالم میں راقم الحروف نے اکھلیش کی کامیابی کی پیش قیاسی کی تھی جو غلط ثابت ہوئی جس کی شرمندگی ہم کو بہر حال ہے لیکن جیسا کہ بعض احباب نے یاد دلایا کہ ہم نے لکھا تھا کہ ’’بھاجپا کسی شیطانی سازش اور مجرمانہ منصوبہ بندی سے کامیاب ہوتو اس کو صاف شفاف اور دیانتدارانہ کامیابی نہیں کہا جائے گا‘‘ بی جے پی کامیاب تو بے شک ہوئی لیکن سازشوں اور غیر دیانتدارانہ طریقوں سے ہی اسے کامیابی ملی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا نے جس “مودی لہر” کا شور مچارکھا ہے وہ تو محض”اشتہاری” ہے۔ مودی یا بھاجپا کی کامیابی میں شفافیت کی کمی نے شکوک و شبہات کے ناقابل تسخیر پہاڑ کھڑے کررکھے ہیں۔ بی جے پی کے انتخابات میں کامیابی کے طریقے وقت اور مقام کے لحاظ سے بدلتے رہتے ہیں اور بی جے پی کی سازشوں کے تانے بانوں کا بُنا جانا انتخابات سے بہت پہلے ہی شروع ہوجاتا ہے۔یو پی میں بی جے پی کو اصل خطرہ تو واقعی سماج وادی پارٹی سے تھا۔ اس لئے ایس پی میں پھوٹ ڈالنے اور انتشار پیدا کرنے کیلئے بھاجپا کے ماہر سازشی امت شاہ نے اپنے ایجنٹ اور وفادار امرسنگھ کو مامور کیا۔ ملائم سنگھ اور ان کے بعض برادران کی بھاجپا سے خفیہ قربتیں تو تھیں۔ امرسنگھ نے باپ بیٹے میں تفرقہ ڈال دیا۔ اکھلیش کو پتہ تھا کہ2014ءکی طرح بی جے پی کو بار بار خفیہ مدد نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی “مظفر نگر” دہرایا جاسکتا ہے اور نہ ہی اترپردیش میں بھاجپا سماج وادی پارٹی کو برسر اقتدار دیکھنا چاہتی تھی۔
اس لئے پہلا کام یہ کیا گیا کہ باپ بیٹے باپ بیٹے میں اختلافات پیدا کئے گئے۔ شیوپال اور اکھلیش میں دوریاں بڑھادی جائیں۔ اس طرح پارٹی اور پارٹی کے کارکن و ہمدرد غیر محسوس طور پر الگ الگ خیموں میں بٹ گئے یہ بی جے پی کا پہلا حربہ تھا۔بی جے پی کی تمام تر کوشش یہ تھی کہ بہار جیسا عظیم اتحاد (مہاگٹھ بندھن) یوپی میں قائم نہ ہو اور مایاوتی اور ایس پی کو متحد نہ ہونے دیا جائے یوں بھی مایاوتی اور ملائم سنگھ کی دشمنی پرانی تھی۔ مایاوتی اور ملائم سنگھ سیکولر ووٹس کو تقسیم کرانے کیلئے کافی تھے۔ اگلا آہم مرحلہ مسلم ووٹس کا تھا۔ حقیقت ہے کہ مسلم ووٹس کا متحد ہونا ناممکن ہے۔ مظفر نگر اور دوسرے فسادات کی وجہ سے یو پی کا مسلمان ایس پی سے خاصہ برگشتہ تھا اور مایاوتی کی طرف جاتا نظر آتا تھا۔ بی جے پی کو یوپی کے انتخابی معرکے میں مجلس اتحاد المسلمین کی شرکت سے بھی بڑا خطرہ تھا لہٰذا مجلس پر آر ایس ایس کی مدد کا الزام لگایا گیا اور اسد الدین اویسی کو آر ایس ایس و بھاجپا کا ایجنٹ بتاکر بھاجپا نے مسلمانوں سے ہی ان کو بدنام کروایا۔ چند مسلمان قائدین، خود ساختہ دانشور اور عالم حسب معمول بھاجپا اور کانگریس کو مل گئے۔ زرد صحافت کے علمبردار صحافیوں اور چند گمنام اور غیر معیاری مضامین لکھنے والے بھی ان کو مل گئے۔ اس سلسلہ میں لکھنؤ کے ایک بزرگ صحافی جو سنبھل کے ایک ممتاز علمی و ادبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جن کو بہتان طرازی کی وعید بہت سوں سے لاکھوں درجہ زیادہ معلوم ہے پھر بھی آج تک بے جواز، بے بنیاد، بے وزن ، بہتان طرازی میں مصروف ہیں۔۔ بہرحال بی جے پی کی یہ سازش بھی کامیاب رہی اور ایم آئی ایم اور اسد الدین اویسی کے لئے حالات ناسازگار ہوگئے اور وہ ناکام رہے۔
اکھلیش بھلے ہی نوجوان ہوں تاہم سیاسی سوجھ بوجھ اور تدبر میں ملائم سنگھ سے بھی آگے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے یہ محسوس کیا کہ ملائم سنگھ اور شیوپال یادو کی وجہ سے نہ صرف مسلمان بلکہ دوسرے بھی ایس پی سے دور ہورہے ہیں تو انہوں نے ایس پی سے ملائم سنگھ اور شیوپال اور امرسنگھ اور دوسرے ایسے تمام لوگوں کو پارٹی سے دور کردیا تاکہ نہ صرف مسلمان دوسرے بھی واپس آجائیں۔ ملائم اینڈ کمپنی نے وقتی خاموشی تو اختیار کرلی لیکن غالباً ان کی اپنی یا امت شاہ کی سازش کے بموجب اندر ہی اندر اکھلیش کی جڑیں کاٹنے کی تیاری شروع کردی گئی۔ تاریخ عالم میں باپ چچا کے خلاف بیٹے و بھتیجے کی سازش و دشمنی کی بے شمار مثالیں ہیں لیکن باپ کے بیٹے یا چچا کے بھتیجے کے خلاف سازش کی مثال شاید ہی ہو چنانچہ ایس پی کے مخالف اکھلیش اور موافق بھاجپا گروپ نے اپنے ہی مضبوط و مستحکم قلعوں سے اکھلیش کو محروم کرکے بھاجپا کی بے مثال مدد کی اس نقطہ نظر کی دلیل یہ ہے کہ ملائم سنگھ اور شیوپال یادو نے انتخابی مہم سے خود کو دور رکھا کوئی سرگرمی نہیں دکھائی۔ آخری مرحلے کی پولنگ سے قبل ملائم کی دوسری بیوی (جو امرسنگھ کی رشتہ دار ہے) نے اکھلیش کے خلاف زہر اگلا جس کا نہ کوئی جواز نہ تھا نہ ہی ضرورت، صرف مودی کی مدد مقصد تھا۔باور کیا جاتا ہے کہ مایاوتی کے اپنے ادوار میں کرپشن اور بھاجپا سے ان کی قربتوں کی وجہ سے بدنام تھیں۔ اپنی کامیابی کیلئے انتخاب نہیں لڑا بلکہ انتخابی معرکہ آرائی میں بھاجپا کی مدد اور اس کو جتانے کیلئے انتخاب لڑا۔ مانا جاتا ہے کہ اندراگاندھی اور ذوالفقار علی بھٹو کی طرح مودی اور امت شاہ نے نہ صرف اپنے حریفوں اور دشمنوں بلکہ دوستوں کے خلاف بھی فائلیں کھول رکھی ہیں اور ان کے ذریعہ ان کو قابو میں رکھا جاتا ہے۔ یہ بھی باور کیا جاتا ہے پرینکا گاندھی اپنے شوہر ورات کی وجہ سے ایسی ہی کسی مجبوری کے سبب پارٹی سے دور اور بے عمل ہیں جب اکھلیش نے دور ہوتے ہوئے مسلمانوں اور سیکولر ووٹرز کو اپنی طرف مائل کرلیا تو ان کو انتشار سے دوچار کرنے کے لئے مایاوتی نے ایک سو زیادہ مسلمانوں کو ٹکٹ دے کر مسلمانوں سے بھاجپا کو ووٹ دینے کی درخواست ہر دن کرتی رہیں۔ ا سطرح مسلم اور سیکولر ووٹس کی زبردست تقسیم کا مایاوتی نے خاطر خواہ انتظام کیا اور بکاؤ مولویوں اورشاہی امام جامع مسجد دہلی کی قیادت میں خرید لیا ۔ ایس پی کانگریس سے اتحاد نہ کرنا پھر مسلم ووٹرز کی تقسیم کا انتظام کرنا تاکہ بھاجپا کو فائدہ ہو۔ مایاوتی نے مجلس اتحادالمسلمین سے بھی اتحاد نہیں کیا اگر کانگریس ایس پی اور بی ایس پی اور مسلم پارٹیوں کا متحدہ محاذ بنتا تو بھاجپا کا جیتنا (اگر ای وی ایم میں دھاندلی کی بات غلط ہے) خاصہ مشکل ہوتا۔
الیکشن کمشنر نسیم زیدی بھی مودی یا بھاجپا کے زبردست مدد گار ثابت ہوئے۔ مودی کی بغیر اجازت ریالی روڈ شوز کے بعد ان کو روڈ سوز اور ریالی کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے تھی۔ مایاوتی مذہب کا حوالہ دے کر علی الاعلان مسلمانوں سے ووٹ مانگتی رہیں۔ چیف الیکشن کمشنر خاموش رہے کیونکہ اس طرح بھاجپا کا فائدہ تھا۔ خود مودی رمضان، ہولی، دیوالی، قبرستان اور شمسان کا حوالہ دے کر بدترین فرقہ پرستی کی، زیدی صاحب کیوں خاموش رہے۔ ایک جگہ پولنگ ہورہی دوسرے شہر میں مودی کی تقریر ہورہی ہے تو وہ برسر عام دکھا کر قوانین کی خلاف ورزی ہوتی رہی۔ سب سے بڑھ کر پولنگ کے اتنے زیادہ مرحلے محض اس لئے رکھے گئے کہ مودی کو زیادہ سے زیادہ موقع دیا جائے۔ یہ سب زیدی کے کرتوت ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ مودی صاحب کو مندروں کے درشن کرتے، پوجا کرتے، گائے کی خدمت کرتے ٹی وی پر بار بار دکھانے پر بھی الیکشن کمیشن خاموش کیوں رہا؟ مودی کے علاوہ ادتیہ ناتھ، اومابھارتی، ساکشی خود امت شاہ نے فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے والے بیانات دئیے۔ مذبح خانے بند کرنے کا اعلان کیا۔ اس پر بھی الیکشن کمیشن کی خاموشی چہ معنی دارد؟ مختصر یہ کہ الیکشن کمیشن سے ہر قسم کی دھاندلیاں کروائی گئیں۔ اس کو کام کرنے نہیں دیا گیا۔ فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کی کھلی چھوٹ دی گئی آخر کیوں؟ ای وی ایمس مشینوں میں کچھ نہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے اس سے قبل بھی بار ہا ایسی شکایات آتی رہی ہیں ۔ الیکشن کمیشن کے انکار سے یا تردید سے کوئی شکایت تو دور نہ ہوگی۔ تحقیقات تو ہونی چاہئے ورنہ بڑے بڑے وکیل یہ مسئلہ سپریم کورٹ لے جائیں۔ ووٹوں کی تقسیم کی ذمہ دار تمام سیکولر پارٹیاں مسلم پارٹیاں خاص طور پر بھاجپا، بہوجن سماج پارٹی ذمہ دار ہیں۔ مسلمان کے خلاف مسلمان کو کھڑا کرنا ووٹ بانٹنا ہی تو ہے۔ پیس پارٹی نے بھی ووٹ تقسیم کروائے لیکن مورد الزام صرف اسد الدین اویسی ہی کیوں ٹھہرائے جاتے ہیں ؟ جو لوگ یہ بہتان طرازی کرتے رہے ہیں اور کررہے ہیں ان کو خوف خدا نہیں ہے۔2014ءمیں بغیر اسد الدین اویسی کے سیکولر پارٹیوں کا اپنا برا حشر کیوں ہوا تھا؟ مختصر یہ کہ بھاجپا کو روکنے کے سلسلے میں اس کے مخالفوں نے احساس ذمہ داری کا کوئی ثبوت نہیں دیا اور اس لئے کہ بھاجپا کے تمام مخالف قابل مذمت ہیں۔

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply