ہندوتو – سیاسی یا مذہبی : ہمانشو کمار

ترجمہ: سعود فیروز اعظمی
(مضمون نگار کی سبھی باتوں سے مترجم اور “مکالمہ” کا اتفاق ضروری نہیں)

Advertisements
julia rana solicitors

کسی نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کا اتحاد دیکھنا ہو تو کسی نا معلوم سے مولوی کے “اسلام خطرے میں ہے” کے نعرے کے بعد امڈ آئے مسلمانوں کے اژدہام میں دیکھئے. کسی مشاعرے میں ایک دوسرے پر گرتے پڑتے مسلمانوں کو دیکھ لیجئے. لیکن آپ کسی سیاسی جدوجہد کے لئے مسلمانوں کو متحد ہوتا نہیں دیکھ سکیں گے.
ایسا کیوں ہے؟ کیوں کہ مسلمان سیاسی نہیں بلکہ مذہبی گروہ ہیں. مسلمانوں کا کوئی سیاسی ایجنڈا ہے ہی نہیں. مسلمانوں کا محض مذہبی ایجنڈا ہے. وہ بھی محض انفرادی (یا مسلکی) حد تک… ان کا کوئی اجتماعی ایجنڈا نہیں ہے.
اس کے بر عکس ہندو ایک سیاسی گروہ ہے. اس گروہ کا ایک سیاسی ایجنڈا ہے. اس کے پیش نظر ایک مضبوط سیاسی تربیت کا پروگرام ہے.
ہندو مذہب نہیں ہے، ہندو ایک سیاسی لفظ ہے. پانچ سو سال پہلے اکبر کے زمانے میں تلسی داس جب “رام چَرِت مانَس” لکھ رہے تھے اس وقت تک بھی انہوں نے اپنے لئے لفظ ہندو کااستعمال نہیں کیا تھا.
کیوں کہ اس وقت تک بھی کوئی ہندو مذہب نہیں تھا. کوئی بھی ہندو دوسرے ہندو جیسا نہیں ہے، کوئی ہندو بت پرست ہوتا ہے کوئی نہیں ہوتا، کوئی گوشت کھاتا ہے کوئی نہیں کھاتا. آدیواسی خدا کو نہیں مانتا، گائے (کا گوشت) کھاتا ہے، بتوں کی پوجا نہیں کرتا، لیکن بی.جے.پی (BJP) کو ہندؤں کے تحفظ کے سیاسی ایجنڈے پر ووٹ دیتا ہے.
انگریزوں نے ہندوستان میں اپنے خلاف اٹھ رہی آواز کو دبانے کے لئے ایک طرف مسلم لیگ کی حوصلہ افزائی کی، دوسری طرف ہندو نام کی نئی سیاسی فکر کو مہمیز کیا. آزادی کے بعد قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی مسلم لیگ کی سیاست بھی ہندوستان میں ختم ہوگئی. لیکن سَنگھ کی قیادت میں زمینداروں، ساہوکاروں اور جاگیرداروں نے اپنی امیری اور طاقت کو برقرار رکھنے کو اپنا سیاسی ایجنڈا بنایا.
ان کا اقتدار میں آنا ناممکن تھا کیونکہ یہ بھارت کی کل آبادی کا محض چار فیصد تھے. چنانچہ سَنگھ کی قیادت میں انہوں نے طویل عرصے تک محنت کی. رام جنم بھومی کے مسئلے پر سنگھ پریوار دلتوں، آدیواسیوں اور دیگر پسماندہ طبقات کو ہندو شناخت کی بنیاد پر متحد کرنے میں کامیاب رہا. سنگھ نے کروڑوں دلتوں،آدیواسیوں اور پسماندہ طبقات کو یہ باور کرا دیا کہ دیکھو یہ باہر سے آئے مسلمان ہمارے رام جی کا مندر نہیں بننے دے رہے ہیں. اس طرح جو دلت اپنے اطراف کے آدیواسی سے لاتعلق تھا،یا جو OBC ہمیشہ دلت کے تئیں نفرت کے جذبات رکھتا تھا، وہ سب باہم ہندتوا کے زیرسایہ آگئے. مسلمانوں کا ہوّا کھڑا کر کے مختلف فرقوں کو اکٹھا کرنا اور اصلی سیاسی مسائل کو پس پشت ڈال دینا سنگھ کی سیاست کی بنیاد اور خاصیت رہی، سَنگھ اس کے سہارے اقتدار پر قبضہ جمانے میں پوری طرح کامیاب ہوگیا.
دوسری طرف ہندوستان کا مسلمان بغیر کسی سیاسی ایجنڈے کے چلتا رہا. ہندوستان کے مسلمانوں کو لگتا تھا کہ جنگ آزادی کے بعد ہمارے نام پر پاکستان مانگ لیا گیا اور گاندھی کا قتل بھی ہماری ہی وجہ سے ہوگیا. اس لئے ہماری ملت کو کسی بات کا مطالبہ کرنے کا کوئی حق بچا ہی نہیں ہے. حالانکہ نہ تو تقسیم ملک کے لئے اور نہ گاندھی جی کے قتل ہی کے لئے مسلمان کسی بھی طرح سے قصور وار ٹھرائے جا سکتے تھے. ہندوستان کی تقسیم کا بیج ساورکر کی ہندو مہا سبھا اور ہیڈگیوار کی راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ(RSS) کے ہاتھوں بویا گیا. حتی کہ مسلم لیگ کی سیاست کا ہدف بھی ہندوؤں کی مخالفت کرنا نہیں تھا. جبکہ ہندو مہا سبھا اور راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ کا اصل ایجنڈا ابتدا سے ہی مسلمانوں، عیسائیوں اور اشتراکیوں کی مخالفت کرنا طئے کیا گیا تھا.
ہندومہا سبھا اور سنگھ کی پوری سیاست یہ تھی کہ ہندوستان کے باشندوں کو مسلمانوں اور عیسائیوں کا خوف دلایا جائے. اور مزدوروں ، کسانوں اور دلتوں کی مساوات والے سیاسی مطالبے پر لگام لگائی جائے. تاکہ پرانے زمیندار، ساہوکار اور جاگیردار اپنی پرانی امیری اور طاقت ور حیثیت آزادی کے بعد بھی برقرار رکھ سکیں.
اپنی سیاست کو جاری رکھے کے لئے سنگھ آج بھی نفرت کا یہی زہر ملک کے نوجوانوں کے ذہن میں منظم طریقے سے گھولتا ہے. ہندوستان کے مسلمان آج بھی کسی سیاسی ایجنڈے کے بغیر ملک کی مین اسٹریم سیاست میں شمولیت کی کوشش کرتے ہیں. توجہ دیں ہندوستان میں مسلمان کسی بھی فرقہ پرست پارٹی کو ووٹ نہیں دیتے. کیوں کہ مسلمانوں کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے. اس لئے آپ مسلمانوں کو سیاسی معاملوں پر منظم و متحد ہوتے نہیں دیکھ پاتے. اس لئے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں نجیب نام کے لڑکے کو جب سنگھ سے وابستہ تنظیم کے لوگوں نے پیٹا اور غائب کردیا، تو اس کی لڑائی سیکیولر طاقتوں نے لڑی. نجیب کے لئے کوئی مسلمانوں کا ہجوم نہیں امڈ آیا.
ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہندوستان کی سیاست کا ایجنڈا مساوات اور انصاف ہونا چاہئے. لیکن سنگھی سیاست ان ہی دو الفاظ سے خوف کھاتی ہے. اس کا حل یہی ہے کہ مساوات اور انصاف کے لئے ملک بھر میں جو تحریکیں الگ الگ چل رہی ہیں، جیسے طلبہ کی تحریک، خواتین کی تحریک، مزدوروں کی تحریک، کسانوں کی تحریک،دلتوں کی تحریک اور آدیواسیوں کی تحریک، ان سب کے درمیان رابطہ و تعلق پیدا ہو اور وہ مل کر نفرت کی اس سیاست کا خاتمہ کرکے مساوات اور انصاف کی سیاست سے نوجوانوں کو وابستہ کردیں-
(بشکریہ: نیشنل دستک)

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply