جواب جاہلاں. مسکراہٹ

یہ 2003 کی بات ہے۔ گرمیوں کی چھٹیاں ہو چکی تھیں ۔ مہینہ بھر اپنے رشتے داروں کو تنگ کرنے کے بعد ہم واپس اپنے گھر پہنچ گئے۔ اب وقت تھا تنگ آنے کا۔ گھر والوں کا ہم سے یا ہمارا گھر والوں سے۔ سو ہم نے عافیت اسی میں جانی کہ اپنے آپ کو مصروف رکھا جائے ۔ ہم نے ایک ماہ قبل بچھڑے اپنے عزیز دوستوں سے رابطہ کیا اور ٹیوشن کا پروگرام بنایا۔ ہمارا دس طلباء کا گروپ اپنے استاد محترم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وقت، جگہ اور فیس مقرر ہوئی. ہمیں استاد محترم کے گھر جو کہ ہمارے گاؤں سے اندازاً دس کلو میٹر دور تھا جا کر ٹیوشن پڑھنا تھی۔ چلو اچھا ہے اسی بہانے پہلی دفعہ اکیلے بسوں ویگنوں کے سفر کا موقع بھی مل جائے گا۔ ورنہ گھر والوں کے ساتھ بھی سفر کا کوئی مزہ آتا ہے۔ چھت پہ نہیں چڑھنا ۔ دروازے میں نہیں لٹکنا ، کھڑکی سے ہاتھ باہر نکالا تو چماٹ کھاؤ گے۔ مسافر بس نہ ہوئی پولیس وین ہو گئی کہ جس میں یہی خدشہ رہتا ہے کہ ملزم کہیں فرار ہی نہ ہو جائے۔ (ویسے یہ الگ کہانی ہے کہ ہم نے جب جب بھی پولیس وین دیکھی اس میں سےملزم فرار ہو ہی جاتے ہیں۔ جی جی میں ٹی وی میں دیکھنے کی ہی بات کر رہا ہوں)
چلیں جی مختصر کرتے ہیں ۔ ٹیوشن میں آج ہمارا پہلا دن تھا۔ مہینہ بھر عیش کے بعد جب ہم نے کتابیں کھولیں تو ہم سے اداس کتابیں کچھ اس طرح گویا ہوئیں کہ
حیران ہیں، لب بستہ ہیں، دل گیر ہیں غنچے
خوشبو کی زبانی تیرا پیغام ہی آئے
ہم نے جلدی سے کتابیں بند کیں اور ان کے کان میں بولے حد ہے تم بھی کبھی بھی کہیں بھی شروع ہو جاتی ہو دیکھ تو لیا کرو کہ ہم کہاں بیٹھے ہیں۔ خبردار اب کچھ بولا تو۔
پڑھائی شروع ہوئے ابھی زیادہ دیر نہ گذری تھی کہ ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ پہلے تو ہم اپنے اوسان کھو بیٹھے لیکن جب استاد محترم پر نظر پڑی کہ وہ مسکرا رہے ہیں تو اپنے آپ کو سنبھالا۔ معلوم ہوا کہ یہ کوئی جان لیوا دھماکہ نہ تھا بلکہ ایک پٹاخے کی آواز تھی لیکن کمرہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے آواز زیادہ محسوس ہوئی۔اس دور میں ویسے بھی ان دھماکوں سے مانوس نہ تھے اس لئے ہم کچھ زیادہ ہی محسوس کر گئے۔ لیکن استاد محترم کی ہنسی پر کچھ حیرت ہو رہی تھی ہم نے پوچھ لیا سر آپ مسکرا رہے ہیں اس دھماکے کے سہولت کار کہیں آپ ہی تو نہیں؟ انہوں نے نفی میں سر ہلایا اور بتایا کہ یہ کسی شرارتی بچے کا کام ہے اس نے دروازے کے نیچے سے پٹاخہ پھینکا ہو گا۔ اور بچے کبھی کبھار ایسے کر جاتے ہیں زیادہ ڈرنے کی ضرورت نہیں۔
استاد محترم کی بات ابھی مکمل نہ ہوئی تھی ایک اور دھماکہ ہوا۔ اس دفعہ ہم پہلے کی طرح چونکے تو نہ تھے لیکن غصہ بہت آیا کہ یہ کیا حرکت ہے۔ پتا بھی ہے کہ ہم پڑھنے آئے ہیں پھر ایسا کرنا کہاں کی شرافت ہے۔ ہم نے استاد محترم سے درخواست کی کہ ہمیں اجازت دیجئے ہم اس افلاطون کی اولاد کو پکڑ کے لاتے ہیں اور اسے سبق سکھاتے ہیں تا آئندہ اسے ایسی حرکت کی جرات نہ ہو۔ استاد محترم نے ہمیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ کتاب میز پر رکھی اور ہم سے گویا ہوئے۔ استاد محترم کے الفاظ آج بھی ہمارے ذہن میں نقش ہیں۔ وہ نصیحت ہمارے لئے آئندہ زندگی میں لائحہ عمل تھی۔ آپ سے بھی شیئر کرنے کا شوق ہوا ۔ سو حاضر ہے۔
” دیکھو بیٹا اگر تو کامیاب زندگی گزارنی ہے تو ایسے موقعوں پر خاموش رہنا سیکھو۔ شرارتیں، بدتمیزیاں کرنے والا یہی تو چاہتا ہے کہ آپ اس سے تنگ ہوں. جس مقصد کے لئے آپ وہاں ہیں اسے چھوڑیں اسکے پیچھے بھاگیں اور وہ اس سے لطف اٹھائے۔ لیکن اگر آپ ایسے موقع پر اسے توجہ نہیں دیں گے اور اپنے کام میں مگن رہیں گے تو یقیناً وہ مایوس ہو گا۔ وہ سمجھے گا کہ وہ اپنا پیسہ اور وقت دونوں برباد کر رہا ہے۔ اور آئندہ ایسی حرکتیں کم از کم آپکے ساتھ نہیں کرے گا”
استاد محترم نے تھوڑا توقف اختیار کیا اور پھر بولے۔
“میری اس نصیحت کو صرف بچوں کی شرارتوں کے تناظر میں ہی نہ لیں۔ آئندہ زندگی میں آپ کو بے شمار ایسے مواقع پیش آئیں گے جب آپ کا دل کرے گا کہ مجھے فلاں کو سبق سکھانا چاہئے۔ اسکی جراءت کیسے ہوئی میرے ساتھ ایسا کرنے کی ۔ یہی وقت ہے آپکے امتحان کا۔ یہی وہ موقع ہے جہاں آپ نے رکنا ہے ، مسکرانا ہے اور آگے نکل جانا ہے۔ پھر دیکھیں وہ شخص اپنی ناکامی پہ کیسے پشیمان ہوتا ہے۔ استاد محترم نے ہم سے پوچھا کہ بتائیں اگر آپ کہیں جا رہے ہیں اور رستے میں آپ پر کتا بھونکنا شروع کر دے تو آپ کیا کرو گے ؟ کچھ نے کہا ہم اسے ماریں گے کچھ نے کہا کہ ہم رک جائیں گے اور اسکے جانے کا انتظار کریں گے اور پھر چل پڑیں گے۔ گویا جتنے منہ اتنی باتیں۔ استاد محترم نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اسے مارنے یا رک کر اس کے جانے کا انتظار کرنے سے کیا ہو گا؟ وقت کا ضیاع۔ اور یہ کسی شستہ مزاج شخصیت کوتو زیب نہ دے گا کہ وہ رک کر کسی پر پتھر پھینکنا شروع کر دے۔”
یہ تھا خلاصہ ان نصائح کا جو آج سے پندرہ سال قبل ہمارے استاد محترم نے ہمیں پلے باندھنے کو دیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ آج ہم بحیثیت قوم غیر ضروری بحثوں میں الجھ چکے ہیں۔ ہم غیر ضروری لوگوں کو اہمیت دے کر انکی باتوں ، انکے عملوں پر توجہ دے کر ایک غیر ضروری لڑائی کا حصہ بن چکے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو اگر ہم ایسے لوگوں کو اہمیت دیے بغیر تھوڑا مسکرا کر آگے چل دیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاگلوں کی درشت زبانی پہ اگر انہیں نظر انداز کر دیا جائے تو وہ چپ ہو کے کونے میں بیٹھ جاتے ہیں۔ لیکن اگر انہیں چپ کرانے یا مارنے کی کوشش کی جائے تو اور شور مچاتے ہیں۔ پس فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ کسے کس قسم کا جواب دینا ہے اور کہاں سے ہم نے مسکرا کے آگے نکل جانا ہے۔

Facebook Comments

محمد شفیق عادل
ذیادہ لکھنا پڑھنا نہیں آتا. اور ذیادہ کوشش بھی نہیں کی. بس کبھی آنکھ کھلتی ہے تو قلم پکڑ لیتا ہوں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply