گمشدہ محلے

چلو اس محلّے چلتے ہیں
کوئی بتا رہا تھا
وہاں مکان اب بھی اونچے نہیں ہوئے
اس کی گلی کے نکڑ پر ۔۔۔
چلو !
کھڑے ہوتے ہیں
وہاں اب بھی بوڑھیاں
پلیٹوں میں ڈھانپ کر
سوغات پڑوس میں بھیجتی ہیں
چلو وہ سوغاتیں چکھتے ہیں
وہاں اب بھی خوشیاں
مل کر مناتے ہیں
وہاں غم اب بھی
سانجھے ہوتے ہیں
وہاں آسمانوں پر رنگین پتنگیں
بو کاٹا کے شور کے ساتھ
اب بھی اڑتی ہیں
وہاں ڈور الجھتی ہے
الجھے رشتے
سلجھے ملتے ہیں
کسی کی کھڑکی کا پٹ اب بھی
بند رہتا ہے
کہ چڑیا کا گھونسلہ
نہ ٹوٹ جائے
کبوتروں کے دانے
چھتوں پر بکھرے ملتے ہیں
گڑیوں کی شادی پر
بچیاں
اب بھی گیت گاتی ہیں
بارات آنے پر شور مچاتی ہیں
ہر چھت پر اب بھی
عید کے چاند دیکھے جاتے ہیں
اب بھی دوستوں کی مائیں
خالہ چاچی کہہ کر
پکاری جاتی ہیں
بچوں کی لڑائی میں
صرف بچے لڑتے ہیں
وہ پھر سے ایک ہوتے ہیں
وہاں کسی چلمن کے پیچھے
ایک شرمیلی لڑکی
کتابوں میں
سوکھے پھول رکھتی ہے
اخبار سے غزلوں کے تراشے کاٹ کر
رجسٹر میں چپکاتی ہے
وہاں اب بھی
پڑوس سے پیاز
نمک مانگے جاتے ہیں
چلو اس محلّے چلتے ہیں
کوئی بتا رہا تھا
لوگ دلوں میں محبت رکھتے ہیں!!!

Facebook Comments

صہیب جمال
جب کھیلنے کودنے کی عمر تھی تو رسالہ ساتھی کا ایڈیٹر بنادیا گیا ۔۔۔ اکیس سال کھیلنے کودنے کی عمر ہوتی ہے ۔۔۔ تھوڑے بڑے ہوئے تو اشتہارات کی دنیا نے اپنی طرف کھینچ لیا ۔۔۔ پھر تو لائیٹ کیمرہ ایکشن اور خاص کے حسیناؤں کے ایکشن نے ایسا گھیرا کہ اب تک ۔۔۔ کٹ ۔۔ کٹ ۔۔۔ اور پیک اپ سے نہ نکل سکے ۔۔۔ مگر قلم کا ساتھ نہیں چھوٹا ۔۔ ڈرامہ ، پولیٹیکل سٹائر ، نظمیں ، ترانے ، گانے ،نثری شاعری سب کی ریڑھ لگائی ۔۔۔ بچوں کی تحریریں لکھتے لکھتے ۔۔۔ بچوں کے لئے کمارہے ہیں ۔۔۔ شہر کراچی میں رہتے ہیں ہم ۔۔۔ جہاں لوگ کھل کر جیتے ہیں اگر کچھ دن جی لیے تو ۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply