آپ کو سانحہ اے پی ایس تو یاد ہی ہوگا کیونکہ نہ یاد ہو ،تو یاد کروانے کو ادارے کا نام ہی کافی ہے پھر اس میں پڑھنے والے بچے کیوں نا اہم ہوں، جو صبح اٹھتے ہی بڑے سے وائٹ ٹب میں بیٹھ کر فریش ہوتے ہیں، اسکے بعد بریک فاسٹ میں بریڈ اور ایک بڑے والا بلو بینڈ سجا رکھا ہوگا اگر رات کو سوتے ہوئے فرمائش جیم کی تھی تو صبح فرمائشی مینگو جیم بھی ٹیبل پر سجا ہوگا، بریک فاسٹ تو ہوا اعلی ٰقسم کا، اب اسکول کے لیے نکلنا ہے تو ننھے سپاہی کا گھر سے باہر قدم رکھتے ہی دروازے پر موجود سپاہی کا سلوٹ اسکا استقبال کرے گا کچھ کو یہ سہولت میسر نہیں ہوتی ،وجہ آپ جانتے ہیں، پھر وہ ننھا سپاہی سکول کے گیٹ تک بحفاظت جاتا ہے-
لیکن! دورانِ درس ننھے سپاہی کو دہشت گردوں کی گولیاں چھلنی کر کے اسکی معصوم سی مسکراہٹ کو خاموش کر دیتی ہیں- اب میں آپ اسے یوم سیاہ کہتے ہوئے اپنی ڈیپیز کو کالا کریں گے، ہر سال ان مرنے والوں بچوں کے لیے شمعیں روشن کریں گے، اک نیا نغمہ انکے اظہار کے لیے دکھی ماؤں کے لیے نکالا جائے گا، کیونکہ ہمارے پاس یہی اک اظہار افسوس کا طریقہ بچا ہے-
اب آئیے آج کے واقعے پر ،اک مدرسے کے طالب علم پر تو سب سے پہلے جانیے کہ یہ گھروں سے دور ان والدین کو چھوڑ کر آئے ہوتے ہیں،جو دوبارہ اپنے لخت جگر کو سال بعد ہی دیکھتی ہیں، یا فرسٹ ٹرم یا تو پھر سیکنڈ ٹرم امتحانات کی چھٹیوں میں، اگر بچے کے پاس آنے کے پیسے موجود ہوں تو، ورنہ سال بعد ہی یہ لخت جگر دوبارہ انکی آنکھوں کی ٹھنڈک بنتے ہیں-
دوران پڑھائی اچھے مدارس میں تو انکو اچھی کینٹین کی بدولت اچھا ناشتہ مل جاتا ہے لیکن عموما ً چھوٹے مدارس میں ایسا نہیں ہوتا، صبح ناشتے میں رات کی باسی روٹی مل جائے تو کافی ہے۔
میں ہر مذہب اور مسلک کا جی جان سے احترام سے کرتا ہوں۔ تاہم مجھے اللہ تعالیٰ نے جس دین پر پیدا کیا ہے اس کی مکمل پاسداری کرتا ہوں۔ آزادی اظہار رائے کا نہ صرف حامی ہوں بلکہ اس کو لوگوں کے بنیادی حقوق میں شمار کرتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ زبان سے کہی گئی کوئی بھی بات جو ذاتیات کو نہ چھو رہی ہو میرے نزدیک شاذ ہی گستاخی کے زمرے میں آتی ہے۔
مجھے پسند ہے کہ لوگ مجھ پر تنقید کریں، اختلاف کریں یا میری تعریف کریں۔ لیکن میں اس بات کو قطعاً ناپسند کرتا ہوں کہ مجھ پر تنقید کے جواب میں یا میرا کوئی چاہنے والا پتھر مار دے۔ یہ نہ صرف انسان کی جاہلیت اور حیوانیت کی علامت ہے بلکہ عدم برداشت جو اپنے آپ میں ایک بڑا جرم ہے ،کا بھی عکاس ہے۔
سانحہ پشاور اور کچھ نہیں ملکی تاریخ کے سیاہ ابواب میں ایک اور بھیانک اضافہ ہے۔ جس کی بنیاد عدم برداشت اور حیوانیت پر رکھی گئی ہے۔ بولنے والے بولتے بولتے تھک جائیں گے، رونے والے روتے روتے تھک جائیں گے لیکن ظالموں کے دل پر نہ کوئی آہ دستک دے گی نہ کوئی آنسو ان کے دلوں کی سیاہی کو پگھلا سکے گا۔
اس حال کو مصطفی زیدی کچھ یوں بیاں کرتے ہے کہ:
اے وطن کیسے یہ دھبّے در و دیوار پہ ہیں
کس شقی کے یہ طمانّچے ترے رُخسار پہ ہیں
اے وطن یہ ترا اُترا ہوا چہرہ کیوں ہے
غُرفہ و بامِ شبستاں میں اندھیرا کیوں ہے
درد پلکوں سے لہو بن کے چھلکتا کیوں ہے
ایک اک سانس پہ تنقید کا پہرا کیوں ہے
کس نے ماں باپ کی سی آنکھ اُٹھالی تجھ سے
چھین لی کس نے ترے کان کی بالی تجھ سے
میرا پشاور کے شہداء سے کوئی خون کا رشتہ نہیں۔ لیکن انسانیت کا رشتہ ہے۔ جو دنیا کے تمام رشتوں سے بڑھ کر ہے۔ ساتھ ہی ساتھ میری دلی تمنا ہے کہ جن لوگوں نے عشق جیسے خوب صورت احساس کی آڑ میں قتل و غارت کو اپنا پیشہ بنا لیا ہے انہیں پکڑ پکڑ کر سزا دی جائے کہ دین نام ہے عدل و انصاف کا اور عدل و انصاف کا ایک نام قصاص بھی ہے-
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں