اک ٹکڑا دھوپ کا

(اسد محمد خان کی تحریر سے بلال حسن بھٹی کا انتخاب۔ ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے۔)
انسان کتنے ہی لوگوں کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہے لیکن یہ پورا نظام کچھ اس طرح کا ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہوپاتا۔۔کیا خوبصورت بات کہی ہے صاحبِ نہج البلاغہ نے کہ میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے اپنے رب کو پہچانا۔۔۔حق ہے! میں ساری زندگی وہی کرنا چاہتا تھا جس کے لیئے مجھے آمادہ کیا جا رہا تھا اور اُنہی لوگوں کہ ساتھ رہنا چاہتا تھا جو میرے آس پاس تھے اور ایک لمبی عمر پانا چاہتا تھا جو اب مجھے مل چکی ہے سو میں ناشکری نہیں کرتا۔۔ اماں کہتی تھی "کبھی ناشکری مت کرنا یہ حد درجے کا اوچھا پن ہے" سو اب میں خوش ہوں کہ مجھے یہاں اچھے، بہت اچھے اور بعض اپنے وقت کے بے مثال لوگ ملے, ملتے رہے۔ بڑے بیبے لوگ ،جن کے بھلے مانس ہونے میں کوئی شبہ نہ تھا۔ سید سلیم احمد تھے، اطہر نفیس تھے اور بھی بہت سے اعلیٰ حضرت۔۔ اور یہ بھی، یہ آدمی۔۔ جون ایلیا!
ہاہ! کیا مزے کا یار تھا یہ آخر الذکر بھی، دانش کیا بکل مار کے بیٹھتا تھا یاروں کے بیچ! اور دِنوں کہ اُس پھیلاوے میں ہم تو سبھی دانشِمند تھے۔ہم نے شعبے بانٹ رکھے تھے اور علاقےبھی۔۔میرا تو خیر آپ اب تک جان گئے ہوں گے۔دوستوں کی سناتا ہوں کہ پورا جزیرہ نماء عرب، شمالی افریقہ، اندلس اورسموچا عجم اس امروہی جون ایلیا کےپاس تھا اور ان جگہوں کے سب زمانے اس کی دسترس میں تھے۔ اَمراءالقیس اور زریں تاج, محمود درویش، جامی، ابنِ تیمیہ ، بوعلی ابن سینا اور ابنِ رشد سب اور ہم میں سے ایک اور تھا جو بہت پہلے چلا گیا وہ بینکر، سید ارشاد مصطفٰے ساؤتھ پیسیفک اس کے قبضہ میں تھا۔ مصور پال گاگیں، سمرسٹ مام، اور پھر سارتر اور ساگاں، برٹینڈر رسل، موپساں، رادھا کرشن۔۔۔ ایک ہجوم اپنے ساتھ لیے پھرتا تھا، وہ ارشاد مُصطفٰے۔۔درجات بلند ہوں اُس کے۔
جون جب ہمارے ساتھ اکیلا ہوتا اور اپنے آپ میں ہوتا تو سب حکایتیں نقل کرتا تھا کہ ایک صاحبِ حال کا گزر کس دشت پُر ہول سے ہوا۔ کیا دیکھتا ہے کہ دشت کے بیچوں بیچ ایک دیوارِ شکستہ ہے۔ جو کسی کشادہ محل سرا کی باقی بچی ہوئی دیوار ہے۔۔سو وہ نوحہ اپنے اچھے زمانوں سے بچھڑنے کا اور اپنے ثروت و شوکت والے مکینوں کے مٹ جانے کا پڑھتی ہے اور دیوار پر کسی نے یہ شعر لکھ رکھا ہے۔۔
ہجر کا بار کیوں کر سہا جائے۔۔
میں سیہ بخت تو ایسی ایک وحشت میں گرداں ہوں
کہ اگر دیوار ہوتا تو ڈھے جاتا!
اس صاحبِ حال نے قدرے توقف کیا پھر مٹی کا ایک ٹکڑا اُٹھا کر برابر میں یہ شعر لکھ دیا
عشق کا دعویٰ کرتا ہے اور کسی بھی دیوار سے گیا گزرا ہے
اے سیاہ بخت! تو زندہ کیوں کر ہے مر کیوں نہیں گیا؟
یہ لکھ کر وہ روانہ ہوا ایک زمانہ گزر گیا۔۔ بعد ایک مدت کے وہ صاحبِ حال پھر اُسی دشتِ بے سایہ سے، اسی دیوار کے نیچے سے گزرا۔ کیا دیکھتا ہے کہ دیوار پر ایک خجالت کا حرف سادہ لکھا ہے اور ایک جوان مرا پڑا ہے۔ اُف ۔۔۔کیا رویا ہے وہ ارشاد مُصٰطفےٰ اُس روز کہ جون ایلیاء جیسا آدمی بھی چور سا بن گیا۔اُن زمانوں میں مردوں کا مردوں کے بیچ بیٹھ کر رونا خفت کی بات نہیں ہوتی تھی۔ خود جون رویا ہے۔ ایک ہوش مند کا گریہ کِیا ہے میرے یار نے نواسہء نبی ﷺ کے عشق میں ۔۔
بہت بے آسرا پن ہے سو چپ رہ،
نہیں ہے کوئی مژدہ خدائیں
سو اب اللہ ہی اللہ ہے۔۔۔۔!!

Facebook Comments

بلال حسن بھٹی
ایک طالب علم جو ہمیشہ کچھ نیا سیکھنے کی جستجو میں رہتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply