عزیز جاں اہل فلسطین کے نام پاکستان کی جانب سے /شازیہ ضیاء

اے عزیزانِ برادرانِ  فلسطین!
آج ہم تمہیں اپنا احوالِ  دل سناتے ہیں
تم غمگین ہوتے ہو اپنے شہیدوں پر
تو آنسو ہم بھی بہاتے ہیں
جو حق کی خاطر مر مٹ جائیں
ان شہیدوں کا مگر نہیں سوگ مناتے ہیں
کسی کو دیکھنی ہو مثل مسلمانی، زندگی جاویدانی، صورت ِ نورانی
ہم تمہارا نام بتاتے ہیں، تمہارے قصے سناتے ہیں
رہے نہ ہم میں جو اب باقی ،ملائکہ استقبال میں
گنگناتے ہیں مسرت بھرے نغمے ان کے لیےگاتے ہیں
بہشت میں ان کا مسکن سجاتے ہیں
ان کی آمد کا ڈنکا بجاتے ہیں
خدا ان سے یوں مخاطب ہے
آؤ تم کو دکھاتے ہیں
جو تم کر چلے آئے ہو
وہ بڑی باتیں ہیں
تمہارے لئے بے شمار نعمت، دائمی راحتیں ہیں
تفکر  سے دیکھ کر ان کو انبیاء مسکراتے ہیں

چلو تسلی ہے تمہیں بھی ہمیں بھی وہ اچھی جگہ تو ہیں!

مگر جو رہ گئے ہیں ہم پیچھے، ہمارا دکھ بڑا ہے
کمبخت دشمن ہمارا ،سر پر کھڑا ہے
کس قدر ستم ہے،تنہا تم پر رن پڑا ہے
کیا تماشا ہے امت کا ہر فرد بت بن کر کھڑا ہے
وقت مشکل ہے اور لہو بہت تھوڑا ہے
آتا نہیں تمہاری مددکے واسطے کوئی
ہر مسلمان تن پرست بھگوڑا ہے
فریاد ہے اب یہ اے پروردگار !
کیوں ہمیں ان کافروں پر چھوڑا ہے؟
یاد آتا ہے کہ تیری چاہت میں
لات و منات کاہم نے ہر بُت توڑا ہے
پھر یہ جو مغموم ہے تیرے حبیب کی امت ہی کیوں ہے؟
حسرت و یاس میں ڈوبی تیرے حبیب کی امت ہی کیوں ہے؟
ستم جو تم پہ ہو رہا ہے، تم اس پر دیدہ حیرت ہو؟
لیکن یہ جان لو !تمہی امت کی آبرو ہو غیرت ہو!
دشمن بزدل ہے تم سے ڈرتا ہے
تم نہتوں سے، پر مسلح لڑتا ہے
تمہاری مائیں جنتی ہیں شیر دل اب تک
دھاڑ سے جن کی کانپ جاتے ہیں گتھ و گیدڑ اب تک
تمہاری صفات مومنی سے ہے یہ ہویدا
تمہی میں ہی عمر و ایوب ہوں گے پیدا
تیغ و شمشیر شان مسلمانی تھی، اب نہ رہی
تمہی وہ مجاہد ہو، جنہیں ان کی ضرورت بھی نہ رہی
تم ہی میدان جنگ ہو، کس میں جراتِ  میدانِ  جنگ آباد کرے؟
تم حق پر ہو ،تمہارا ہی دل ہے جو کھل کر فریاد کرے
دیکھو تو سہی! بیت المقدس کی خاطر
فلسطینی کیا کچھ نہیں کر جاتے ہیں
تم کہتے ہو القدس دل ہے ہمارا !
دل پر اتنے ستم ٹوٹیں تو لوگ مر جاتے ہیں
حال امت کا ہے یہ، گر خبر تمھارے درد کی سنیں
کہتے ہیں بہت افسوس ہوا، چلو ہم اپنے گھر جاتے ہیں
ہم بے کس و بے بس ہیں ابھی مگر
تمہارے ساتھ جو ہوتا ہے دل دہل جاتے ہیں
دشمن جو تمہارا ہے دشمن وہ ہمارا ہے
ہم اہل پاک سرزمیں، بچوں کو اپنے یہ سمجھاتے ہیں
جائے نہ کہیں رائیگاں اہل فلسطیں کا لہو
بزرگ ہمارے ہم کو نصیحت یہ کر کے جاتے ہیں
یاد رکھو! ہم میں غیرت اب جتنی بھی باقی ہے
تمہارے لہو کی قیمت کی وصولی کے لئے،
تمہارے انتقام کی  خاطر باقی ہے
ورنہ رہ  کیا گیا ہے اس دنیا میں اب
جام ہے اور ساقی ہے
تم کو معلوم ہے امت میں مہاجر بہت ہیں،
کوئی انصار نہیں ہے
ابوبکر کی سخاوت، ابو ایوب کا ایثار  نہیں ہے
آستینوں میں ہیں غدار بہت،
کوئی وفادار نہیں ہے
خاطرِ  حرمت مرمٹنے کے دعویدار ہیں بہت،
کوئی جانثار نہیں ہے
دشمن تم سے نہ صرف مقدس مقام چاہتا ہے
بزدل بے دست و گریباں جنگ خیبر کا انتقام چاہتا ہے
قادری میں دوام چاہتا ہے
غافل دنیا کا سازوسامان چاہتا ہے
وارث انبیاء ہونے کے دعوے پر،
جنت میں محل و مکان چاہتا ہے
تمہارا تو طفل ناداں بھی
القدس کی نگہبانی میں سرگرداں ہے
حیرت ہے مگر امت کے مقتدروں کے
کانوں پر آنکھوں پر پردہ ہے
یا ہاتھ پہ ہاتھ دھرے ہر شخص منتظر فردا ہے؟
عرب و عجم کے تفرقے سے یہ بات سمجھ ہے آئی
اس لیے تو ہو رہی ہے در در رسوائی
قصہ جہاد سے امن میں خلل آتا ہے
مفاہمت کی بات کرو، موضوع برمحل آتا ہے
لہو اگرچہ اہل فلسطین کا رائیگاں جاتا ہے
ہم کو کیا ہمارا کیا جاتا ہے!
بھولی بسری نسب و ذات کہاں سے یاد آگئی؟
صدیوں پرانی پدری رفاقت یکدم ان کو یاد آگئی
وائے ہو! حرمین کی نگہبانی دست فرنگ زاد آگئی

Advertisements
julia rana solicitors

غم نہیں! تم دنیا کی رونق و رعنائی سے سَوا ہو
کیونکہ تم سفر معراج کے چشم دید گواہ ہو
تم حیدر کرار کے، سیف خدا کے ہتھیار ہو
تم مرد مجاہد ہو، مرد با اختیار ہو
حرمت و آبرو، غیرت ملت کے امیں ہو تم
مقدس فلسطین کا آسماں وزمیں ہو تم
بروز محشر تم پر خصوصی کرم ہوگا
یہ تمہاری قربانیوں کا ،لہو کا بھرم ہوگا
خدا راضی تم سے، بہشت تمہارا حرم ہوگا
شرف لقائے محبوب خدا، تمہارا مرہم ہوگا
پورے ہوں گے اس روز تمہارے غرض و مفاد
ان                 اللہ               لا          تکلفل ،معاد!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply