تعصب کا زہر اور مکالمہ

تعصب کا زہر اور مکالمہ !
پیارے ہم وطنو !
آپ چاہے مذہبی ہوں، لبرل ہوں، ایتھیئسٹ (ملحد) ہوں، آپکا تعلق رائٹ سے ہو یا لیفٹ سے، آپ سوشلسٹ، کمیونسٹ، نیشنلسٹ ہیں یا جمہوریت پسند، الغرض آپ جو بھی نطریہ رکھتے ہیں، بے شک رکھو لیکن یاد رکھو کہ آپکے ہاتھ اور زبان سے دوسرے انسانوں کو تکلیف یا کسی قسم کا نقصان نا ہو۔ سمجھنا چاہیے کہ کسی بھی قسم کا تعصب ناصرف انسانوں کو باہمی مشاورت سے دور رکھتا ہے بلکہ نفرت اور سازشوں کی کھائی میں گرا دیتا ہے-
مارک ٹوائن کہتا ہے: “جب تک کہ سچ جوتے پہنے تب تک جھوٹ دنیا کا ایک چکر لگا چکا ہوتا ہے” معاملات کو تعصب کی نظر سے دیکھنے والا کبھی بھی حقیقت کو نہیں پا سکتا، اسے وہی دکھائی دیتا ہے جس پر اس کا ذہن پہلے سے طے شدہ مفروضے پر مطمئن ہوتا ہے جب کہ حقیقت کو پانے کے لیےآپ کو تحقیق اور علم کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ دنیا میں ایسے بیشتر مسائل ہیں جن کا حل کلی طور پہ کسی ایک گروپ یا جماعت کے پاس نہیں رہا بلکہ ان مسائل کا حل صرف اور صرف مل جل کے بیٹھنے اور ایک دوسرے کو سننے اور سمجھنے میں پنہاں رہا ہے۔
میں اپنی زندگی کے اب تک کے سفر میں بھانت بھانت کے لوگوں سے ملا ہوں اور ان میں عجیب عجیب رویوں کا بھی مشاہدہ کیا ہے۔ سب سے زیادہ دل کو توڑنے والی بات یہ دیکھی کہ کوئی بھی اپنے آپ کو متعصب نہیں مانتا، حالانکہ سب کے سب تعصب کے مریض ہیں لیکن خود کو ایک دم نارمل سمجھتے ہیں- آپ کسی بھی خاص مذہبی فرقے کے دیوانے سےملیے، یا کسی نیشنلسٹ یا ڈیموکریٹک سےملیے آپکو انکے اندر اخلاق اور تمیز کی کمی نظر آۓ گی، ہر ایک کو اپنے علم اور مطالعہ پر زعم ہے ۔ بیشتر لوگ اس غرور میں اتنے اندھے ہو چکے ہیں کہ انسانیت کا احترام ان کےلیےبے معانی ہو کر رہ گیا ہے- مذہبی اور لبرل کا تکرار تو ہوتا ہی ہے، مگر خود مذہبی لوگ جو عموماً” اعلیٰ” اخلاق کے دعویدار ہوتے ہیں بھی ایک دوسرے کو گالیاں، لعنتیں اور کفر کے فتوے دیتے نہیں تھکتے- ظرف کا دامن جھٹک دیا گیا ہے- تکبر اور اندھی عقیدت کوٹ کوٹ کے بھری ہے- کوئی بھی جھوٹ کو جھوٹ اور سچ کو سچ ماننے کو تیار نہیں ہوتا-
دوستو ! تعصب موت ہے اور تحمل زندگی ۔ محبت عقلمندی ہے اور نفرت بے وقوفی ۔ یہ دنیا جو روز بروز سکڑتی جارہی ہے اس میں ہمیں ایک دوسرے سے مکالمہ کرنا سیکھنا ہوگا ۔ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ کچھ لوگ اور ان کی باتیں ایسی بھی ہیں جو ہمیں نا پسند ہیں ۔ اگرچہ ہمیں اکٹھا جینا تو ہے لیکن مرنا اکٹھا نہیں ہے ۔لہٰذا لازمی طور پر ہمیں اپنے آپ کو ایک خاص قسم کی عادت ڈالنا ہوگی اور وہ ہے “برداشت اور مکالمہ کی عادت”۔ آج ہرکوئی اگر ایک دوسرے کی ناخوشی چاہنے کی بجائے خوشی چاہنے لگ جائے تو دنیا جنّت بن جائے۔
اگرچہ وقت کے ساتھ آدمی کے نظریات بھی بدلتے رہتے ہیں، مگر آپ چاہے کسی بھی نظریہ ،عقیدہ، زبان، یا علاقہ سے تعلق رکھتے ہوں، خدارا صرف اور صرف پاکستان کا سوچیے اور پاکستان کی ترقی کے کے لیے کام کیجیے۔ سوچیے کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کشمکش میں کہیں ہم پاکستان کی ،اور اپنی جڑیں کھوکھلی تو نہیں کر رہے ؟ جبکہ دوسری جانب حکمران طبقہ اور اُس کے حواری ملک کو لوٹنے اور اپنی کرپشن بچانے میں مشغول ہیں۔
کچھ عرصہ قبل مولانا شیرانی نے پاکستان کے تقسیم ہونے کی پیشن گوئی کی تھی- غور کیجیے کہ سقوط ڈھاکہ کی طرح ایک بار پھر کہیں ہم کسی گرداب میں تو نہیں پھنس رہے؟ خدارا ہوش کے ناخن لیں اور اس پیشن گوئی کو جھوٹا ثابت کر دیجیے ! ورنہ ہماری داستاں بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔

Facebook Comments

آصف وڑائچ
Asif Warraich is an Engineer by profession but he writes and pours his heart out. He tries to portray the truth . Fiction is his favorite but he also expresses about politics, religion and social issues

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply