بے بنیاد الزامات اور حسین حقانی

شاگرد : حسین حقانی کے ایک مضمون کو جواز بنا کر ان پر شدید تنقید کی جارہی ہے ۔
استاد : بات تنقید کی حد تک رہتی تو ٹھیک تھا ۔
شاگرد : جی پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے جذباتی انداز میں تقریر کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ حسین حقانی کو قومی غدار قرار دیا جائے ۔
استاد : ( قہقہہ ) شاہ صاحب جنگل کے بادشاہ ہیں کچھ بھی کہہ سکتے ہیں مگر یہ تو انہیں جب کہنا چاہئے تھا جب جنرل کیانی اور جنرل پاشا بھی یہی کہا کرتے تھے ۔
شاگرد : مقصد میموگیٹ اسکینڈل کے وقت حسین حقانی غداری کا مرتکب تھا ۔
استاد : نہیں میں نے ایک منطقی سوال اٹھایا ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ وہ نہ کل غلط تھا نہ آج غلط ہے مگر جو اسے آج غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں انہوں نے اسے کل غلط ثابت کیوں نہیں کیا ؟
شاگرد : شاہ صاحب تو فرما رہے ہیں کہ وہ غدار تھا اس لیئے ہم نے اسے ہٹا کر شیری رحمان کو سفیر بنا دیا تھا ۔
استاد : اس وقت اس نے کچھ ایسی تحریریں لکھی تھیں جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ پاکستان میں جمہوری اداروں کو سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے خطرات لاحق ہیں اور وہ پی پی حکومت کا لگایا ہوا سفیر تھا ظاہر سی بات ہے کہ وہ اسی موقف کو لے کر آگے چل رہا تھا جو اسلام آباد میں بیٹھے صدر پاکستان آصف زرداری کا موقف تھا اور وہ کچھ ایسا غلط نہیں تھا جتنا کہ اسے اچھالا گیا ۔
شاگرد : کیا یہ درست نہیں کہ زرداری نے جو پانچ سال مکمل کیئے ان میں حسین حقانی کی سفارتکاری کا بڑا دخل رہا ۔
استاد : مجھے اس سے قطعی اختلاف نہیں، موجودہ بین الاقوامی تعلقات میں سفارتکاری بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ یوں سمجھو روس میں پیوٹن کیلئے جو اہمیت آنجہانی آندرے کارلوف کی تھی وہی اہمیت زرداری کیلئے حسین حقانی کی تھی بلکہ شاید اس سے بھی کچھ زیادہ ۔۔
شاگرد : اب کہا جارہا ہے کہ وہ امریکہ میں ریاست پاکستان کی کردار کشی کر رہا ہے اور امریکہ کو مِس گائیڈ کر رہا ہے ۔
استاد : ( قہقہہ ) آج تم بار بار لطیفے سنا رہے ہو ۔۔ گو کہ امریکہ کو نمبر ون ہونے کا کچھ ایسا دعویٰ تو نہیں مگر کچھ تھوڑا بہت ہاتھ پاؤں سی آئی اے بھی مار لیتی ہے اگر کسی پسماندہ ملک کے سفارتکار اسے مس گائیڈ کرنے لگیں تو پھر تو ہو گیا امریکہ کا کام ۔۔
شاگرد : کہا جارہا ہے کہ اس نے اپنے حالیہ مضمون میں پاکستان کے عسکری اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور پاکستان کی جو مخدوش صورتحال لکھی ہے وہ حقائق کے بر خلاف ہے ۔
استاد : شاہ صاحب نے شاید وہ مضمون پڑھنے کی زحمت بھی نہ کی ہو ایک تو یہ کہ اس مضمون میں سِرے سے کوئی انکشاف والی بات ہی نہیں کچھ باتوں کو دہرایا گیا ہے جو بار بار زیرِ بحث آتی رہی ہیں اور کچھ اس نے اس مخدوش صورتحال کی نشاندہی کی ہے جس کا سامنا پاکستان کو آنے والے دنوں میں ہو سکتا ہے ۔
شاگرد : کیا اس نے یہ نہیں لکھا کے اُسامہ کیلئے کیے جانے والے ایبٹ آباد آپریشن سے متعلق عسکری حکام لاعلم تھے اور سول حکومت کو اعتماد میں لیا گیا تھا ۔
استاد : قطعی نہیں اس نے یہ لکھا ہے کہ اس وقت بھی امریکہ پاکستان کے عسکری حکام پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں تھا تاہم سول حکام پر اسے کچھ اعتماد تھا مگر یہ کہیں نہیں لکھا کہ گیلانی یا زرداری حکومت کو ایبٹ آباد آپریشن کا علم تھا مزید اس نے یہ ضرور لکھا ہے کہ پاکستان سے اُسامہ کی برآمدگی کے بعد امریکہ کیلئے پاکستان پر اعتماد کرنا مزید مشکل اور دشوار ہوگیا تھا ۔
شاگر : مطلب آپ یہ کہنا چاہتے ہیں اس نے پاکستان کے خلاف کام نہیں کیا بلکہ پاکستانی سرکار کو سفارتی زبان میں کچھ ہدایات دینے کی کوشش کی ہے۔
استاد : بالکل۔۔ اس کا موقف بڑا واضع ہے، وہ کہتا ہے کہ اس وقت جس طرح پاکستان ، امریکہ پر اعتماد نہیں کر رہا بالکل اسی طرح امریکہ بھی پاکستان سے بد ظن ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کر رہا جس کی اس سے امید کی جارہی تھی، با الفاظ دیگر وہ اسے ڈبل گیم سمجھ رہا ہے مزید وہ حالات سے کچھ واقفیت رکھنے کی وجہ سے کہہ رہا ہے کہ امریکی حکام صرف اس نقطے پر مرتکز ہیں کہ پاکستان کو اس کی کیا سزا دی جائے اس کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ایک معتدل پالیسی اختیار کر کے کوئی درمیانی راستہ چننا چاہیے۔
شاگرد : حسین حقانی پر ویزے بیچنے سمیت کئی دیگر الزامات بھی لگا دیئے گئے ہیں ۔
استاد : ان سب کا جواب وہ دے چکا ہے اس کا کہنا ہے ماضی میں جب وہ سفیر تھا تو اس نے جو کچھ بھی کیا وہ حکومت کی ہدایت پر ہی کیا۔۔ اس نے کہا کہ پاکستان یہ سمجھ رہا ہے کہ اب چین سے اقتصادی تعلقات بحال ہوگئے تو ہمیں امریکہ کی ضرورت نہیں رہی اور ہم چین کی مدد سے تمام مشکلات کا سامنا کر لیں گے جو ایک دوراندیش سوچ نہیں، اس نے پاکستان کے نیشنل میڈیا کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جو ایک خاص ایجنڈے کے تحت اسکی کردار کشی کر رہا ہے، حسین حقانی نے واضع کیا کہ آپ مولانا فضل الرحمان اور مولانا سمیع الحق کو سامنے لاکر عالمی دنیا سے تعلقات بہتر نہیں بنا سکتے اس کیلئے آپ کو بہتر سفارتکاروں کو ہی سامنے لانا پڑے گا اور اعتدال کا راستہ اپنانا ہوگا ۔
شاگرد : ان باتوں میں تو کوئی غیر معقولیت نہیں۔۔ ایبٹ آباد آپریشن کوئی انکشاف نہیں، روز اول سے ہی سب جانتے ہیں کہ پاکستان کو اعتماد میں لیئے بنا یہ آپریشن کیا گیا تھا ۔ چند دن قبل ملک کے طول و عرض میں ہونے والے ایک درجن خودکش حملے ہماری مخدوش صورتحال کی بھی غمازی کرتے ہیں، باقی امریکہ ہمارے لیئے کیا سوچ رہا ہے وہ بہت حد تک ٹرمپ انتظامیہ کے بیانات سے بھی ظاہر ہو رہا ہے ۔
استاد : بیشک ضرورت اسی بات کی ہے کہ ایک متعدل راستے کا انتخاب کر لیا جائے اور خارجہ پالیسی کو ہنسی مذاق نہ سمجھا جائے سنجیدگی کے ساتھ ایک ایسی پالیسی بنائی جائے جس میں دشمن بنانے سے گریز کیا جائے اور انتہا پسندی کے خلاف ہمیں جس عالمی دباؤ کا سامنا ہے اسے انا کا مسئلہ بنا کر عامر لیاقت جیسے چٹکلے ، شوکت صدیقی جیسے مہرے ، حافظ سعید، مسعود اظہر اور عبدلعزیز جیسے مجاہدین کو آرام پر بھیج دیا جائے اور ایک متبادل روشن خیال بیانیہ کے ساتھ میڈیا پالیسی بھی وضع کی جائے قومی پالیسی بھی اور خارجہ پالیسی بھی ۔ سیکورٹی اسٹیٹ کے اسٹیٹس کا خاتمہ کر کے ویلفیئر اسٹیٹ کی جانب بڑھا جائے ۔
شاگرد : کیا حسین حقانی جیسے لوگوں کو قومی غدار قرار دینے کے بعد یہ سب ممکن ہے ؟
استاد : نہیں اس سفر میں ہمیں ہر قدم پر حسین حقانی جیسے فعال اور قابل سفارتکاروں کی اور گراس روٹ لیول رکھنے والی ہر روشن خیال جماعت کی ضرورت ہوگی ۔ کراچی سے خیبر تک عوامی تحفظات دور کرنا ہوں گے، جنہیں دیوار سے لگا کر عرصہ حیات تنگ کیا گیا ہے انہیں ایک صفحہ پر لانا ہوگا ،منانا ہوگا اور اگر اسی طرح غداری کے سرٹیفکیٹ اب طاقت کے مراکز کے بعد عوامی پارلیمنٹ سے بھی جاری ہونے لگے تو پھر سمجھو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہانی ختم !!

Facebook Comments

کاشف رفیق محسن
اسلام انسانیت کا مذہب ہے ، انسانیت ہی اسلام کا اصل اور روشن چہرہ انسانیت ہی میرا مذہب

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply