میں اور سمرسٹ ماہم

بورخیس نے کہا اپنا مقابلہ اپنے بڑوں سے کرو. ڈرامہ میں شیکسپئیر اور برنارڈ شا سے، ناول میں ٹالسٹائی اور ڈکنز سے، افسانے میں او ہنری اور موپاساں سے.
میں نے تین دن پہلے" ایک متوازی سی زندگی" نام کی کہانی لکھی تھی جس میں ایک شخص لوگوں کی عادات کے مطابق انہیں کسی ناول کے کسی کردار کا نام دے دیتا ہے. مجھے لگتا تھا کہ شاید ایسا کسی نے نہیں سوچا ہو گا. لیکن مجھے یہ بتاتے ہوئے کافی افسوس ہو رہا ہے کہ ابھی وہی آئیڈیا میں نے Of Human Bondage کے اٹھارویں حصہ میں پڑھا. یہ ناول Somerset Maugham نے 1934ء میں لکھا تھا. کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ میں پہلے پیدا ہو جاتا اور Maugham انیس سو بانوے میں پیدا ہوتا. تب کیا میری وہی کہانی پڑھتے Maugham یہ سوچتا کہ اگر وہ میری جگہ پہ پیدا ہوتا تو کتنا دلچسپ ہوتا.
یہ Of Human Bondage کا اٹھارواں حصہ میں سے ایک ٹکڑا ہے، اٹھارواں اس لئے کہ میں Online Literature پہ پڑھتا ہوں.
" He took to a singular habit. He would imagine that he was some boy whom he had a particular fancy for; he would throw his soul, as it were, into the other's body, talk with his voice and laugh with his heart; he would imagine himself doing all the things the other did."
یہ میری کہانی ہے
ایک شخص جسے یہی وہم تھا کہ ایک زندگی کو کیسے گزارا جا سکتا ہے، نے کتابیں پڑھنا شروع کر دیں. اس نے ڈان کہوٹے سے ہمارے ستاروں میں ہی غلطیاں ہیں پڑھ ڈالیں. اس نے ہندوستانی ادب سے لاطینی ادب تک سب کچھ پڑھ ڈالا اور جب گھر سے نکلا تو اسے وہی لوگ نظر آئے جن سے وہ تنگ تھا کہ ساری زندگی ان کیساتھ ہی گزارنی ہوگی. آخر اس کے زہن میں ایک نئی چیز سمائی. اس نے جیب سے موبائل نکالا اور تمام لوگوں کے ناموں کو انکی عادات کے مطابق ناولوں کے کرداروں سے بدل دیا. اب جب اسے کسی بازاروف، مادام بوواری یا فلورینٹینو کا فون آتا تو ایک لمحہ کیلئے ہی سہی، اسے محسوس ہوتا، وہ کتنا جی چکا ہے.

Facebook Comments

جنید عاصم
جنید میٹرو رائٹر ہے جس کی کہانیاں میٹرو کے انتظار میں سوچی اور میٹرو کے اندر لکھی جاتی ہیں۔ لاہور میں رہتا ہے اور کسی بھی راوین کی طرح گورنمنٹ کالج لاہور کی محبت (تعصب ) میں مبتلا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply