“مطالعہ بیتی”قسط دوم

گزشتہ ماہ مطالعہ کی گئی کچھ کتابوں کا احوال لکھا، احباب نے اسے بہت پسند کیا، کافی دوستوں نے اس تحریر کے بعد کتابوں کا مطالعہ بھی کیا، اس مہینے زیرِ مطالعہ رہی کتابوں پر تبصرہ لکھنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن مصروفیات کی وجہ سے لکھ نہ پایا، کچھ احباب نے زور زبردستی مطالبہ کیا کہ اس مہینے بھی کچھ لکھوں۔۔مصروفیات سے وقت نکال کر ان چند کتب پر تبصرہ لکھ رہا ہوں، اللہ رب العزت مجھے اور آپ کو کتابوں سے دوستی لگانے کی توفیق اور ان سے سیکھنے اور عمل کا جذبہ بھی عطا کریں۔۔
1 :آپ بیتی، جلد نمبر ۱
مصنف، شیخ الحدیث حضرت مولال زکریا رح،
صفحات: 747
یہ شیخ الحدیث رح کی خود نوشت آپ بیتی ہے، جس میں ایک عام شخص اور عالم کے لیے بہت سی قیمتی چیزیں ہیں، اکابر علماء دیوبند کی زندگی، ان کے واقعات، رہن، سہن، معاملات، تجارت، معاشرت بلکہ ان کی پوری زندگی کی ایک جھلک سامنے آجاتی ہے، ان کی زندگی کے تجربات اور علمی خدمات وغیرہ، دین کے حصول اور اس کی نشر واشاعت کے لیے انہوں نے کس قدر محنت ومشقت برداشت کی، آج ان کی بدولت ہم پکا پکایا کھا رہے ہیں، ایک عالم دین اور فاضل مدرسہ کو یہ کتاب کم از کم ایک دفعہ لازمی پڑھنی چاہیے۔
2:سوانح قاسمی!
مصنف:سید مناظر احسن گیلانی رح،
دو جلدیں، پانچ حصے،
صفحات:1312
مولانا قاسم نانوتوی رح کا نام اور ان کے علمی کارنامے اہل علم سے پوشیدہ نہیں، ان کی زندگی سادگی، تواضع وانکساری کا مجموعہ تھی، ان کا علمی رعب ودبدبہ، اخلاص، تقویٰ وپرہیز گاری اور ذہانت وفطانت اس قدر مشہور تھی کہ اپنے پرائے سب دیوانے تھے، ان کی زندگی ہمارے لیے قابلِ تقلید اور بہترین نمونہ ہے، ان کی یہ سوانح پڑھ کر انسان اپنے اندر ایک انقلاب محسوس کرتا ہے، شیخ اسد علی رح کے گھر پیدا ہونے والے اس بچے نے پوری دنیا میں علم کی شمع جلائی، ان کی زندگی کے واقعات کے لیے ایک بڑا دفتر درکار ہوگا، یہ مختصر سا تبصرہ اس کا متحمل نہیں، جو احباب اس تفصیل کے خواہشمند ہوں وہ یہ کتاب ضروت مطالعہ کریں، پھر یہ سوانح مولانا سید مناظر احسن گیلانی رح کے قلم سے ہو تو کتاب کی چاشنی اور مٹھاس مزید بڑھ جاتی ہے، مولانا گیلانی رح کو رئیس القلم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، مجھے جن اہلِ قلم کی کتابیں پڑھنے پر مجبور کرتی ہیں۔۔ ان میں مولانا سید ابوالحسن علی الندوی رح اور گیلانی رح سر فہرست ہیں، اہل ذوق کے لیے اس کتاب میں بہت کچھ ہے۔
3:پیر کامل،
مصنفہ: عمیرہ احمد
صفحات: 525
اب جتنی کتابوں نے مجھے پڑھنے میں لطف دیا اور بار بار پڑھنے پر آمادہ کیا ان میں سے ایک پیر کامل بھی ہے، دو دن کے مختصر عرصے میں یہ کتاب مکمل کی، مذکورہ کتاب میں موصوفہ نے دنیا، زندگی، آخرت، ختم نبوت، جنت، جہنم پر تفصیلی بحث کی ہے، زیادہ تر اس کتاب کا کردار ختم نبوت کو ثابت کرنا ہے، ایک بھٹکے ہوئے مسافر کو کس طرح سیدھی راہ مل جاتی، جستجو میں انسان کیا کچھ حاصل کر لیتا ہے۔۔یہ سب جاننے کے لیے لازمی ہے آج ہی آپ یہ کتاب پڑھیں۔
4:لاحاصل،
مصنفہ: عمیرہ احمد
صفحات: 265
یہ کتاب میں نے ایک دوست کے مشورے سے شروع کی اور چوبیس گھنٹے میں مکمل کر لی، اس کتاب کے مرکزی کردار میں اس بات پر بحث کی گئی ہے کہ دنیا کچھ نہیں، انسان بڑا نام بنانے، بنگلہ، کوٹھی، شہرت اور بلندی کی ساری چیزیں حاصل کرنے کے لیے کیا کچھ جتن کرتا ہے، لیکن یہ سب کچھ کسی کام کا نہیں، لاحاصل ہے۔۔ نام رہے گا تو بس اللہ کا، اور آخرت میں کامیابی نیک اعمال پر موقوف ہے۔
5:یادوں کی برات،
مصنف: شاعر جوش ملیح آبادی،
صفحات: 780
یادوں کی برات ایک شاعر کی آپ بیتی ہے اور اردو ادب کا ایک شہ پارہ ہے، کتاب اردو محاورات، تعبیرات، مترادف ومتضاد ترکیبیں اور مقفع اور مسجع عبارتوں کا خزانہ ہے، ایک شاعر کی زندگی پر کیا گزرتی ہے، وہ جوش پر بھی گزری، ان کے اٹھارہ معاشقوں کی تفصیل آپ پڑھیں تو سر شرم سے جھک جائے گا، جوش نے ان کے ذکر میں کتنی کھلی اور غیر سنجیدہ زبان استعمال کی ہے اس کا اندازہ کتاب کر ہی لگایا جا سکتا ہے، جوش نے جابجا مذہب کا بھونڈا مذاق اڑایا ہے، مذہب سے دوری کی جو علت انہوں نے بیان کی ہے وہ بھی پڑھنے کے قابل اور عقل سے بالاتر ہے ، ان کے خوابوں کا ذکر پڑھ کر ایسا لگا کہ وہ وقت کے ولی اللہ ہیں، یہ خواب کتنے سچے اور کتنے جھوٹے ہیں، یہ جوش اور ان کے رب کا معاملہ ہے، کتاب کے آخر میں شخصی خاکے بہت عمدہ اور معلوماتی ہیں، ساری چیزوں کے بعد بھی ادب سے محبت رکھنے والے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ناگزیر ہے۔
6:جالب بیتی،
مصنف: حبیب جالب،
صفحات: 360
حبیب جالب اردو شاعری میں ایک بڑا مقام رکھتے ہیں، انہیں عوامی اور انقلابی شاعر سے پہچانا جاتا ہے، ان کی شاعری میں ایسا ترنم ہوتا تھا کہ مجلس گرما جاتی اور جوش و ولولہ بیدار ہوجاتا تھا، ان کی اکثر زندگی حق گوئی، بے باکی اور حاکم وقت سے بغاوت کی پاداش میں جیل میں گزری، یہ کتاب جالب کی پوری زندگی کا خلاصہ ہے، جہاں جالب کی استقامت و بہادری آشکارا ہوتی ہے وہاں خوشامدی اور مکروہ چہرے بھی نمایاں ہوتے ہیں،یہ آپ بیتی بھی پڑھے جانے کی مستحق ہے،
7:فردوس ابلیس،
دو جلدیں،
مصنف: عنایت اللہ
صفحات: 1100
حسن بن صباح کی جعلی جنت، حشیش کا کمال، سلطنت سلجوقیہ کی زوال کی داستان، چنچل لڑکیوں کے کارنامے یہ سب کچھ جاننے کے لیے فردوس ابلیس کا مطالعہ بہت مفید رہے گا، مصنف نے تاریخی حوالہ سے عمدہ کام کیا ہے، ناول کا انداز اور زبان عام فہم استعمال کی گئی ہے،
8:پرانے چراغ
دو جلدیں ، دوم، سوم
صفحات: 730
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے، کچھ دن قبل عشاء کی نماز پڑھ کر فارغ ہوا تو کھانے کا دستر خوان لگ چکا تھا، میں بھی دستر خوان کے کنارے جاکر بیٹھ گیا، سوال کرنا میری عادت ہے، سامنے جامعہ کے ایک سینئر استاد تشریف فرما تھے، وہ مطالعے کا اچھا ذوق اور تجربہ رکھتے ہیں، باتوں باتوں میں، میں انہیں کتابوں پر لے آیا، تبصرے ہوتے گئے اور میں کام کی باتیں ذہن نشین کرتا گیا۔۔انہوں نے مجھ سے پوچھ لیا کہ آپ نے پرانے چراغ پڑھی ہے؟
میں نے کہا اب تک پڑھنے کی فرصت نہیں ملی، دل میں ایک جھٹکا سا لگا، ایک خلش سی بیدار ہوئی کہ لازمی اس کتاب سے انہوں نے کچھ حاصل کیا ہوگا تبھی وہ مجھے پڑھنے کا مشورہ دے رہے ہیں، میں نے اب تک یہ کتاب کیوں نہیں پڑھی ؟ وساوس نے آن گھیرا۔۔ خیر کھانے کے بعد فوراً لائبریری آتے ہی پہلے یہ کام کیا کہ پرانے چراغ کو تلاش کرنے لگا، بڑی تگ و دو کے بعد دوسری اور تیسری جلد میسر ہوسکی، پہلی جلد شاید کوئی برکت کے لیے لے اڑا، بس پہلے سے مطالعے کی کتب کو موقوف کر کے پرانے چراغ کا آغاز کردیا، ایک ہفتے کے اندر دیگر مصروفیات کے ساتھ دو جلدیں ختم کر ڈالیں،
طویل تمہید کا مقصد یہ ہے کہ اس کتاب سے ایک چیز پیش کرنے والا ہوں کہ مولانا سید ابوالحسن علی الندوی رح ایک عالمگیر علمی شخصیت تھی، ان کے قلم کے بارے میں چند لفظ لکھنا ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کی بجائے ان کی توہین سمجھتا ہوں، وہ ہمارے تعریفی کلمات سے بہت اونچے تھے، مولانا نے پرانے چراغ میں معاصر شخصیتوں، بزرگوں، استادوں اور دوستوں سے متعلق تعارفی مضامین، تاثرات، مشاہدات و واقعات اور معلومات کا دلچسپ مجموعہ مرتب کیا ہے، مولانا کی جو چیز سب سے بھلی لگی وہ ان معاصر شخصیتوں کا ذکر کرنا جن سے ان کو شدید علمی اور فکری اختلاف تھا، لیکن باوجود جس احترام کے ساتھ ان کا تعارف پیش کیا ہے وہ قابلِ تقلید اور لائقِ تحسین ہے۔ آج ہمارا کسی سے ذرا علمی اختلاف ہوجائے ہم اس کی مٹی پلید کر دیتے ہیں، بعض اوقات ذاتیات پر اُتر آتے ہیں، مولانا سید قطب شہید کا تذکرہ لکھتے ہوئے ان کی گرانمایہ خدمات اور علمی دلچسپی پر ان کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں، لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں کہ سید قطب مرحوم نے بعض قرآنی اصطلاحات کی جو تعبیر وتشریح کی ہے اور ان کا جو مرکزی نقطہ، اصل روح، اور مرکزی خیال قرار دے کر اس پر زور دیا ہے راقم کو اس سے پورا اتفاق نہیں ۔۔۔لیکن یہ اختلاف وتنقید علمی وفکری حدود میں ہے اور شہید مرحوم کے پورے احترام واعتراف کے ساتھ ہے۔ قریب قریب ایسا ذکر سید ابوالاعلیٰ مودودی رح اور شبلی نعمانی رح کے بارے میں ہے۔ ہمیں اکابرین کی زندگیاں پڑھنی چاہییں ان سے سبق حاصل کرنا ، ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے، معاصر شخصیات سے علمی اختلاف کے باوجود ان سے علمی استفادے سے گریز نہیں کرنا چاہیے، ان کی مجالس وتقاریر میں شرکت کرنا چاہیے، علم تو مومن کی گمشدہ متاع ہے، جہاں سے ملے حاصل کرلو۔
9:چراغ تلے
مصنف: مشتاق احمد یوسفی،
صفحات: 165
میں نے مرشد یوسفی کی خاکم بدہن، آب گم اور چراغ تلے پہلے پڑھی تھیں، ایک دیرینہ دوست نے مشورہ دیا کہ جس ترتیب سے انہوں نے کتابیں لکھی ہیں اسی ترتیب سے پڑھیں، اس لیے چراغ تلے دوبارہ پڑھ رہا ہوں، یوسفی صاحب کے شگفتہ اور مزاحیہ قلم پر میں تبصرہ کرنے سے عاری ہوں، ہنسی ہنسی میں کام کی باتیں کہہ جانا یوسفی صاحب کا ہنر ہے،
10:لنگر خانہ،
کچھ خاکے، کچھ خاکہ نما،
مصنف: جاوید صدیقی،
اس کتاب پر انتظار حسین مرحوم کے تبصر ے کا ہی خلاصہ نقل کر دیتا ہوں، میرے لیے جاوید صدیقی بالکل نیا نام تھا، حالانکہ بمبئی میں میری ان سے ملاقات ہوچکی تھی ان کی کسی تحریر کا حوالہ میرے ذہن میں نہیں تھا۔۔۔ہمارے یہاں جو خاکے لکھے گئے ہیں وہ شخصیات پر ہیں، ان میں سے چند ایسے لوگ ہیں جنہوں نے شخصیتوں کی ایسی تصویر کشی کی ہے جو پوری تہذیب کو زندہ کر دیتی ہے، ان لکھنے والوں میں سے جاوید صدیقی کا بہت قائل ہوں، مزید چند کتابیں رہ گئی ہیں وہ اگلی آپ بیتی میں!
انشاءاللہ
(اگر آپ کو اس مطالعہ بیتی سے کچھ حاصل ہوا ہو تو ضرور مطلع کیجیے گا )

Facebook Comments

نعیم الدین
لکھنے پڑہنے والا ایک ادنی طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply