متبادل بیانیہ اور پاکستان

آجکل جس طرح سے یہ لفظ زیر گردش ہے مجھ کم عقل سمیت اکثر لوگ اس کا مطلب تک سمجھنے سے قاصر ہیں چونکہ عوام کی اکثریت سادہ ہے تو اس بات کو بالکل سادہ طریقے سے بیان کیا جاۓ.عام فہم میں اس کو سمجھیں تو مطلب بنتا ہے موجودہ ضرورت کے تحت ریاستی ترجیحات اور درست سمت کا تعین جس پر مثبت اقدامات کیے جائیں۔ دراصّل اس وقت مملکت کو ضرورت ہے اندرونی سطح پر پھیلے ہوئےانتشار کو ختم کرنے کی اور بیرونی سطح پر ایک مضبوط و محفوظ پہچان پھر سے بنانے کی۔
کیونکہ عالمی سطح پر ہماری پہچان ایک دہشت گرد ملک اور شر پسند عناصر کی پرورش کرنے والی ریاست کی ہے جس پر دشمن ممالک کی جانب سے ہر فورم پر بے بنیاد اور جھوٹا پروپیگنڈہ کیا گیا اور بدقسمتی سے ہماری طرف سے صرف لفظی جواب دیے گئے .اب ضرورت اس امر کی ہے کے ہمیں اپنی کھوئی ہوئی شناخت بحال کرنی ہے جس کے لئے موجودہ قیادت کو عملی ٹھوس اقدامات اٹھانے ہونگے اور ملکی سالمیت پر کسی بھی قسم کے سمجھوتے سے گریز کرنا ہوگا ..بدقسمتی سے ابھی تک بات صرف لفظوں اور بیان بازی تک محدود ہے جس کا نقصان ہم ہر گزرتے دن کے ساتھ بھگتے جا رہے ہیں ۔
کیا وجہ ہے کے 70 سال سے قائم اس مملکت کو ابھی تک ایک سمت نہیں مل سکی ؟کیا وجہ ہے کے ابھی تک ہم ملکی سالمیت کی خاطر ایک نہ ہو سکے ؟یہاں ہمیں ماننا پڑے گا اپنی بنائی گئی غلط پالیسی پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے ہمیں کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے پچھلے 2 عشروں میں ہماری حکمرانی کمزوری اور دہشت گردی کی لہر نے ہمیں تباہ کر کے رکھ دیا اس وجہ سے اب تک ہم اس عفریت سے ابھی تک جان نہ چھڑا سکے ،یہ بات کافی غور طلب ہے کے ہماری سرزمین دشمنوں کے ہاتھوں استعمال ہوتی رہی اور اس میں ہمارے ہم وطن شامل رہے۔ دشمن کے آلہ کار بن کر .،
مگر بات یہاں وہی آجاتی ہے کے ہمارے دفاعی ادارے کیوں غفلت میں رہے۔۔ کیوں نہ پہلے ہی ان کا قلع قمع کیا گیا اور کیوں پہلے ایسے درندوں کو آزاد چھوڑا گیا ؟
اب بھی وقت ہے اپنی غلطیوں کے ازالے کا ،اور دشمن کا سر کچلنے کا ۔تا کہ یہ ریاست ایک محفوظ ریاست بن سکے اور دنیا میں ہم اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکیں۔
تو آئیں اور عہد کریں کے صرف لفظی مزاحمت سے کام نہ چلائیں بلکہ عملی ٹھوس اقدامات کریں تاکے رعایا کو چین و سکوں میسر ہو ،اور ہم دنیا کو یقین دلا سکیں کے ہم امن پسند قوم ہیں اور اسلام سلامتی کا مذہب ہے ۔

Facebook Comments

محمّد عتیق
لکھنے پڑھنے کا جنون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply