ہم شاپروں کے شاپر، شاپر نشاں ہمارا۔۔۔اسامہ اقبال خواجہ

شاپر ہماری قومی پہچان ہیں، یہ اس بیمار معاشرے میں زندگی کی علامت ہیں۔ زندگی کی حرارت انہی کے دم قدم سے ہے، مایوس چہروں پہ آنے والی مسکراہٹ انہی کی مرہون منت ہے۔ یہ نہ ہوں تو ہمارا معاشرہ آگے بڑھنے سے  انکار کر دے۔ جیسے درخت ہمارے لیے آکسیجن پیدا کرتے ہیں، اسی طرح شاپر ہماری فکری آبیاری کی کیاری کو پانی لگاتے ہیں، بلکہ سچ بتاؤں تو یہ دلائل کا ایک نہ  ختم ہونے والا منبع ہیں۔ یہ سماج انہی کے دم سے ہے، یہ معاشرہ انہی کے سر پر کھڑا ہے(دعا ہے کہ ان میں سے ہوا نہ نکلے)، اب تو یہ عالم ہے کے اپنی زندگی کا دار و مدار ہی شاپر پہ ہے۔ آپ ایک روز خود کے لیے شاپروں سے کنارہ کشی اختیار کر کے تو دیکھیں، نہیں جناب ممکن ہی نہیں جیسے پانی اور ہوا سے انکار نہیں، ویسے ہی شاپر سے بھی انکار نہیں ہو سکتا۔ آپ ان کو پس پشت ڈال کر میدانِ کارزار میں اتر تو سکتے  ہیں، مگر زندہ واپسی شاید عملی طور پر ممکن نہیں۔ آپ کو جہادِ زندگانی میں کامیابی کی شرط اول بتاؤں تو وہ شاپر ہیں۔ اور جہاد زندگانی ہی کیا، یہ تو ازدواجی معاملات سے لے کر ہمارے قومی سطح کے معاملات تک، ہر جگہ، ہر گلی محلے میں مکمل منی بیک گارنٹی کے ساتھ کارآمد ہیں۔

آج کل دنیا میں کافی ساری بیوقوف حکومتیں قائم ہیں۔ خیر دوسروں سے کیا گلا، جب اپنے ہی چراغ تلے مٹی کے تیل کی جگہ پانی ہو۔ مگر آج اس تحریر کے توسط سے، میں اپنے سیانے خان صاحب سے سوال کرتا ہوں کہ جناب اب ایسے بھی کیا دن آ گئے جو اپنے پاؤں پہ کلہاڑی مارنے کی بجائے اپنے اور ہمارے سر پہ کلہاڑا دے مارا۔ ارے آپ کی حکومت کس نے بنائی، شاپر نے۔ آپ حکومت میں اب تک کس کی مہربانی سے ہیں، شاپر کی مہربانی سے،خیر ویسے یہاں مہربانی ایک اور فرشتہ صفت مہربان کی بھی ہے، لیکن کیا کروں میری رہائش پنڈی میں ہے۔ ویسے ان پچھلے دو جملوں کا آپس میں کوئی لینا دینا نہیں، بالکل اسی طرح جیسے حکومت کا شاپر سے کچھ لینا دینا نہیں۔ تو بات ہو رہی تھی، اس حکومت کے بنانے اور قائم رکھنے میں شاپروں کے سنہری کردار کی۔ یہ شاپر ہی تھے جن کی بے شمار قربانیوں کی بدولت یہ حکومت، اس کے کارندے اور ان کارندوں کے تمام ہی دفاعی تجزیہ نگار آج سینہ تان کر سوال کنندہ کے ہر سوال کا منہ توڑ، بلکہ سینہ زور قسم کا جواب دے ڈالتے ہیں۔

خیر بہت پہلے پڑھا تھا کہ  جاپانی لوگ پیکنگ بڑی زبردست قسم کی کرتے ہیں، اب ان کی پیکنگ کا تو یاد نہیں مگر ہمارے ہاں ایک انتہائی معمولی بات بھی شاپر میں مکمل پیک کر کے دی جاتی ہے۔ میں پچھلے کافی عرصے سے اس ذہنی خبط میں مبتلا تھا کہ لوگوں کو روزمرہ کی گفتگو سے لے کر مشورہ، نصیحت یا کوئی بھی کلام بغیر شاپر کے کرنا چاہیے۔ مگر یقین مانئے آپ کی اوقات ہی کیا، آپ کی حیثیت ہی کچھ نہیں۔ آپ کو اپنی بات کی اہمیت کا احساس دلانا ہے، تو پہلے دو گلاس ٹھنڈا گرم پانی کے الگ الگ پئیں، پھر سوچنے کی نمائش یا اداکاری کریں اور پھر اسی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے اپنی تمام تر گفتگو  کو شاپر میں پھوک بھر کے “پیک” کردیں۔ آپ کی بات ہاتھوں ہاتھ نہ بِکے تو میرا نام تبدیل کرنے سے پہلے، شاپر تبدیل کر کے ضرور دیکھیے گا ان شاء اللہ افاقہ ہو گا۔ ارے آج کل تو صاحب لوگ شاپر کے بغیر نہیں بکتے، آپ ناچیز کیا چیز ہیں؟۔ آپ خود کی اچھی قیمت لگوانا چاہتے ہیں، جی چاہتا ہے کہ منہ مانگے داموں آپ کو لیا جائےتو بس ایک شاپر کا غلاف اوڑھ لیجیے، آپ کو 15 روز میں “سیلیبریٹی” بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ضروری نوٹ: “سیلیبریٹی” کی تعریف میں وہ تمام لوگ آتے ہیں جن کو کم از کم 10 ایسے لوگ جانتے ہیں(جن کو وہ خود نہیں جانتے)جو ان سے ملنے کا اشتیاق رکھتے ہیں، شکریہ۔

Facebook Comments

Usama Iqbal Khawaja
صحافی بننے کی کوشش میں، بول نیوز کے ساتھ منسلک ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply