قانونِ قدرت اور پرفیکٹ لوگ بمقابلہ امپرفیکٹ لوگ

· باسم اللہ!
ایک سال قبل بتاریخ12مارچ2016حافظ صفوان صاحب کی گفتگو پر میری حاشیہ بندی:
کیا مرد کو رزق عورت کے نصیب سے ملتا ہے؟
سوال: مرد کو رزق عورت کے نصیب سے ملتا ہے، سو کسی مرد کا رزق نہیں کھل رہا تو اس کی وجہ عورت ہے؟ اور کیا اس بات پر عورت کو مار پیٹ اور طعنے دیے جا سکتے ہیں؟
جواب: نہیں!
یہ دوہری جہالت کی وجہ سے ہے، یہ کمزوروں کی وجہ سے رزق دیے جانے والی بات کا الٹا مطلب لیا گیا ہے اور یہ فرض کیا گیا ہے کہ چونکہ مردوں کو عورتوں پر قوام بنایا گیا ہے اس لیے عورتیں کمزور ہیں، یہ جملہ کہ مرد کو رزق عورت کے نصیب سے ملتا ہے قرآن یا حدیث میں کہیں نہیں لکھا، جو یہ کہتا ہے اس پر صرف افسوس کیا جا سکتا ہے،
ہذا ما عندی واللہ تعالی اعلم۔
یہاں تک کلام حافظ صفوان صاحب کا ہے اس کے بعد میری گفتگو کچھ یوں ہے۔۔
قرآن میں دیکھو کیا ہے
وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ۚ كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ۔
(زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں سب کی روزیاں اللہ تعالیٰ پر ہیں وہی ان کے رہنے سہنے کی جگہ کو جانتا ہےاور ان کے سونپے جانے کی جگہ کو بھی، سب کچھ واضح کتاب میں موجود ہے)
إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ۔
اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بےحساب روزی دیتا ہے
وَتَرْزُقُ مَن تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ۔
وہی ہے کہ جسے چاہتا ہے بے شمار روزی دیتا ہے
اس میں اضافہ اگر ممکن ہو تو وہ اللہ جانے کس وجہ سے ممکن ہو سکتا ہے۔
ہاں ایک آیت اور۔۔
وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ ۔۔۔
اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا
اور یہ بھی تمام اہل قری کی اجتماعی کیفیت کی وجہ سے ممکن ہے انفرادی ایمان اور تقوی کا اس سے تعلق نہیں اور
اس میں بھی اضافہ رزق نہیں بلکہ صرف زمین و آسمان کی برکات کا ذکر ہے۔ پھریہ بھی ذکر ہے۔۔
وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهَانَنِ۔۔
اور جب وه اس کو آزماتا ہے اس کی روزی تنگ کر دیتا ہے تو وه کہنے لگتا ہے کہ میرے رب نے میری اہانت کی (اور ذلیل کیا)کچھ گمان گناہ ہیں اب اگر کوئی اللہ کی بابت رزق کی کمی کا گمان کرے جب کہ اپنے کو اس سے زیادہ کا حق دار مانے، کسی بھی وجہ سے چاہے وہ وجہ حدیث کا متن ہی کیوں نہ ہو تو اول اس نے قرآن کے خلاف بات کی اور غلط گمان کیا اوربظاہر جو ہوگا اس کے گمان کی وجہ سے ہوگا۔۔لیکن کیا اس کا گمان رزق کم کرا دے گا ؟؟؟ نہیں رزق تو اب بھی اسی قدر رہے گا صرف ڈیپریشن بڑھ جائے گا اور جو ملا وہ کم محسوس ہو نے لگے گا لیکن کس سے کم ؟؟ اس کی چاہتوں سے یا ضروریات سے کم یا مقابلے میں کسی اور کی کمائی سے کم۔ اصلاً رزق انسان کا حق نہیں بلکہ اللہ کی ذمہ داری ہے۔عورت اپنا رزق لے کر آتی ہے لیکن اگر اس کا الٹ کرلیں اور اس کو گھر داماد پر اپلائی کرلیں تو وہ بھی اپنا رزق لے کر آتا ہے پہلی آیت” وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا”کے تحت۔۔اب یہ لوگوں کی مرضی کہ عورت یا مرد جس کو بھی تنگ کریں یا پھر اللہ کے دین میں شکر گزار ہو جائیں۔مزید غور طلب بات یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ ایتھیسٹ عموماً دنیاوی اہداف کو حاصل کرلیتے ہیں؟؟؟
مزید غور کرنے پر سمجھ آئی کہ ان کے سامنے سوائے ان کے ہدف کے اور کوئی چیز نہیں ہوتی وہ قسمت پر بھی یقین نہیں کرتے چناچہ ان کو ہر حال میں محنت کرنی ہوتی ہے حصول کے یقین کے ساتھ لہذا ان کو کسی قسم کا بودا بہانہ اپنی ناکامی کے سر نہیں تھوپنا ہوتا۔علاوہ ازیں اکثر اہل ایمان، چاہے وہ کسی مذہب کے ہوں اگر وہ دنیاوی طور پر کامیاب ہیں تو وہ قسمت کی بات کرنا پسند نہیں کرتے بلکہ یقین کو کامیابی کی کنجی قرار دیتے ہیں۔ حیران کن بات یہ کہ یہی بات ایتھیسٹ بھی اسی طرح کرتے ہیں کہ میں اس لئے فلاں ہدف کو حاصل کرپایا کہ مجھے اس کا یقین تھا اور میں ہدف کو حاصل شدہ کامیابی کی طرح محسوس کرتا تھا لیکن تمام ناکام لوگ مشترکہ طور پر قسمت کو سب کچھ قرار دیتے ہیں۔ کسی حد تک درست بھی ہو لیکن اصلاً یہ ایک بودا بہانہ ہے
اور یہ بھی مشترک بات ہے اکثر کہ کسی بھی مذہب پر ایمان رکھنے والا اپنی کسی بھی ناکامی کو قسمت کے حوالے کردینے کو آسان راستہ جاننے لگ جاتا ہے حالانکہ قسمت یا تقدیر کا مقصد ایسا تو قطعاً نہ تھا کجا یہ کہ اپنی ناکامی کو دوسرے کی قسمت پر ڈال دینا ۔
میں نے قرآن میں دیکھا تو یہ بات نظر آئی کہ اللہ جس امرِ یقینی کو بیان کرتا ہے اس کو ماضی کے صیغے میں بیان کرتا ہے جیسا کہ قیامت کا واقع ہونا ۔۔گویا اگر، مگر، شاید، چونکہ، ہوسکتا ہے، ممکن ہے، یہ سب وہ الفاظ ہیں جو اگر 99 فیصد یقین کے صیغے کے ساتھ اکٹھے کرلئے جائیں تو 99 فیصد یقین ڈانواڈول ہو جاتا ہے ۔جو حاصل کرنا ہے اسے محصول (حاصل شدہ) سمجھیں مانیں اور اسی طرح محسوس کرنا شروع کریں، کائنات کا ذرہ ذرہ آپ کے ساتھ آکر کھڑا ہوجائے گا اور ایسے طریق سے راستے کھلیں گے کہ سمجھ میں آنا ممکن نہ ہو گا کہ کیسے سب کچھ ہوگیا۔۔یہ قانونِ قدرت ہے قانونِ مذہب ہے یا نہیں اس سے اس لمحے میں بحث نہیں۔۔ گرچہ میں نے مذہبی حوالہ جات بھی لکھے ہیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ کوئی بھی پرفیکٹ (کامل) نہیں جبکہ میرا ماننا ہے کہ سب اصلاً پرفیکٹ ہیں اور پرفیکٹ ہی تھے۔پرفیکٹ ہونے کا تعلق یقین کامل سے ہے اور اعشاریہ صفر صفر صفر صفر صفر 1 درجے کا شک اور خوف اس یقین کو اس قدر تباہ کردیتا ہے کہ آدمی ایک لمحے میں امپرفیکٹ(غیر کامل) ہوجاتا ہے اس لئے کہ یہ شک اور خوف اسے ہدف سے کہیں دور لا پھینکتا ہے اور کامل یقین کے برخلاف اس صورت میں کائنات کا ذرہ ذرہ اس کو ہدف سے دور کرنے میں لگ جاتا ہے۔ یہ قانونِ قدرت ہے، قانون مذہب ہے یا نہیں اس سے اس لمحے میں بحث نہیں۔۔اس قانون کو قانونِ کشش یا لاء آف اٹریکشن کہتے ہیں۔اس تمام گفتگو پر مذہبی تنقید ممکن ہے لیکن جو لکھا ہے اور اس کی بنیاد ذاتی تجربہ اور مشاہدہ ہے اور وہ یہی ہے جو عرض کردیا۔
واللہ اعلم بالصواب!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply