مودا ہمارے محلے کا ایک ایسا کردار ہے جو ہر محلے میں ہوتا ہے ۔ داہ یا بارہ جماعتیں پاس اور کبھی کبھی مودا مستقل مزاجی کا مظاہرہ کرے تو بی اے بھی پاس کر لیتا ہے ۔ ہمارا مودا میٹرک پاس تھا ،میٹرک کرنے کے بعد مودا کافی دن فارغ رہا ۔ گلی کی نکڑ پر دودھ دہی کی دکان پر بیٹھ کر آتی جاتی سکول کالج کی لڑکیوں کو گھورنا اور کسی ماڑے گھر کی لڑکی پر ایک آدھ فقرہ کس دینا اس کا معمول تھا ۔ اپنے جیسے ہی دو تین دوسرے محلے کے لڑکے اس کے دوست نما حواری تھے ۔ مودے کا ابا کافی عرصے سے سعودی عرب میں ایک شیخ کا مالی تھا اور اچھے پیسے کما لیتا تھا ۔ چناچہ مودا خوشحال تھا ۔نئی موٹر سائیکل پاس اور جیب میں سو سو کے نوٹ بھرے رہتے
ان دنوں ہمارے محلے میں کسی گاؤں سے آ کر ایک خاندان آباد ہوا ۔ چھوٹا سا گھر انہوں نے کرائے پر لیا ۔ اس خاندان کا سربراہ بھی دوبئی میں ملازم تھا ۔ جمیلہ ان کی اکلوتی بیٹی تھی، گاؤں کے سکول سے اچھے نمبروں میں میٹرک کیا تو چاچے تائے ،لڑکی کا رشتہ مانگنے لگے، بلکہ مانگنے نہیں، بس بتانے آئے ۔
ہمارے معاشرے میں چونکہ چاچے تائے اپنے گھروں میں کم، مگر بھائیوں کے گھروں کے زیادہ بزرگ ہوتے ہیں ۔ اور ہر کام میں ٹانگ اڑانا اور فیصلے کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں ۔ جمیلہ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ۔اس کے تائے نے اپنے میٹرک فیل اور لوفر بیٹے کا رشتہ چھوٹے بھائی کے ساتھ مل کر خود ہی طے کیا اور یہ بھی طے پایا کہ جمیلہ کی ماں کو بتا دیتے ہیں۔
اشرف بھائی کا جب دوبئی سے فون آیا تو اسے بھی بتا دیں گے ۔ تائے کی بیوی نے دبے لفظوں میں کہا بھی کہ جمیلہ کے ابے سے تو پوچھ لو ۔۔۔مگر صوبیدار تائے نے گردن جھٹکی اور اپنے ماتحت سپاہی کو آرڈر دینے کے سے انداز سے شٹ اپ کہہ کر خاموش کر وادیا ۔۔ مردوں کے فیصلے میں عورتیں لچ نہیں تلتیں ، وہ میرا بھائی نہیں بیٹا ہے میں نے اسے باپ بن کر پالا ہے ۔ اس کی جرات ہے جو میرے فیصلے کے خلاف کھڑا ہو ۔
جمیلہ کی ماں نے سنا تو کہا ہم سوچیں گے اور جمیلہ کے ابے سے بھی پوچھیں گے آپ فکر نہ کریں آپ بڑے ہیں جو آپ کی مرضی ہے وہی ہوگا ۔
سمجھ دار عورت تھی اس طرح اس نے صوبیدار صاحب کو وقتی طور پر تو ٹال دیا مگر پریشان ہو گئی ۔
یہ سن کر جمیلہ نے رو رو کر منہ سر سجا لیا ۔ اماں مجھے بکری کی طرح کسی کلے سے باندھنا تھا تو مجھے پڑھایا کیوں تھا ۔ میں آگے پڑھنا چاہتی ہوں ۔ دوسرے دن اس کی ماں نے اس کے ابے کو فون کیا اور صورت حال بتائی ۔ جمیلہ کی خوش قسمتی کہ اس کا باپ تھوڑا سمجھ دار تھا ۔ چنانچہ طے پایا کہ تم لوگ شہر جا کر جمیلہ کو کالج داخل کراؤ ،میں صوبیدار صاحب کو سمجھاتا ہوں ۔
جمیلہ کی ماں دوسرے دن شہر آئی اور اپنے ایک خالا زاد بھائی کی مدد سے انہوں نے ایک مکان تلاش کیا ۔ اس طرح یہ لوگ ہمارے محلے میں آ ئے ۔
جمیلہ گاؤں کے خالص دودھ ملائی کی پلی ہوئی اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی ۔ دھریک کے بوٹے جیسی ہری بھری، چٹا گورا رنگ ،کالی سیاہ آنکھیں ۔
جب وہ محلے کی دوسری لڑکیوں کے ساتھ چنگ چی پر بیٹھ کر کالج جاتی تو آوارہ مزاج ٹھرکی منہ اڈ کر اسے گھورتے ۔ مودا تو پہلے دن ہی عاشق ہو گیا ۔ پہلے دو چار دن تو اس نے محلے سے سن گن لی ۔ جب اسے معلوم ہوا کہ وہ ماں کے ساتھ اکیلی رہتی ہے تو شیر ہو گیا ۔ آتے جاتے سینے پر ہاتھ باندھ کر اسے سلام کرتا ۔ بازاری فقرے کستا ، نوٹ ایک جیب سے نکال کر دوسری میں ٹھونستا ۔ لمبے بالوں کو جھٹکتا ، کسی چول سے شاعر کا گھٹیا سا شعر گنگناتا ۔
کچھ دن تو جمیلہ نے برداشت کیا ۔ گاؤں دیہات کی لڑکی تھی ڈر خوف تو اس کے وجود میں تھا نہیں ۔ مگر جانتی تھی کہ خبر گاؤں تک پہنچی تو خاندان والے اس کا بہانا بنا کر پڑھائی ختم کروا دیں گے، اور جاہل تائے کو موقع مل جائے گا ۔
ادھر مودے کی پیش رفتیاں برابر بڑھ رہی تھیں ۔ چنانچہ اس نے ماں کو بتا دیا ۔
ماں دیہات کی سمجھ دار عورت تھی، لڑائی جھگڑوں کے انجام سے بھی واقف تھی ۔ ایک بندہ گاؤں بھیج دیتی تو مودا موٹر سائیکل سمیت کسی نالے میں پڑا ملتا ۔
اس نے سوچ کر گاؤں اطلاع نہ دی اور خود ہی مودے کو سمجھانے کا فیصلہ کیا ۔
دوسرے دن وہ جمیلہ کے کالج آنے کے وقت گلی کی نکڑ پر آئی ۔ مودا وہاں پہلے سے موجود تھا ۔ اس نے اشارے سے اسے اپنے پاس بلایا اور بتایا کہ وہ جمیلہ کی ماں ہے ۔ پتر ہم گاؤں دیہات کے لوگ ہیں ۔ شہروں میں رہنا اور یہاں کے ریت رواج سے ہم زیادہ واقف نہیں ہیں ۔ پر مجبوری تھی جمیلہ کو کالج میں داخل کروانا تھا اس لیے اس اونترے شہر میں اُ ٹھ آئے۔
ہمارے ہاں گلی محلے کی عزت سب کی عزت ہوتی ہے ۔ میں تمہیں سمجھانے آئی ہوں، پتر ہمارے لیے امتحان کھڑا نہ کرنا ۔ اب اس شہر کے آوارہ لونڈے کو کیا معلوم کہ دیہاتی امتحان کھڑا کرنا کس کو کہتے ہیں ۔ یہ کہہ کر وہ تو گھر چلی آئی مگر مودے کے آوارہ دماغ نے اس کا الٹا مطلب لیا ۔ وہ اسے منت سماجت سمجھ کر اور شیر ہو گیا ۔ عشق اب اس کے دماغ پر بری طرح پنجہ ڈال چکا تھا ۔
دوسرے دن وہ جمیلہ کے پیچھے پیچھے گلی کے اندر تک گھس آیا ۔ اب ماں بیٹی اور پریشان ہوئیں ۔ فیصلہ یہ ہوا کہ جمیلہ کے دادکے والوں کو اطلاع نہیں دی جائے گی اور جمیلہ کی ماں اسے ساتھ لے کر ہفتہ شام کر اپنے میکے وال جاکر انہیں بتائے گی ۔ اس کی ماں کا کوئی بھائی تھا نہیں، وہ بھی جمیلہ کی طرح اکیلی تھی ۔ چاچا گاؤں کا نمبردار تھا ۔
اگلے اتوار کو چوہدری فضل دین نمبر دار نے اپنا حقہ گڑگڑاتے ہوئے یہ قصہ سنا اور آخر میں اٹھ کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا پتر توں ددھ پی کر ستی رہو ۔ تمہارا چاچا جیوندا پیا ہے مر نہیں گیا ۔
اگلے دن جمیلہ کی ماں اور جمیلہ دونوں واپس آئیں۔ ۔ میری ماں کے لیے وہ گاؤں سے ساوی گندلوں والہ ساگ بھی لائیں ، مگر بتایا کچھ نہیں ۔ دوسرے دن جب مودا دکان کے تھڑے سے اتر کر جمیلہ کے پیچھے لپکا تو ایک ہاتھ پیچھے سےاس کی گردن کی طرف بڑھا ۔ مگر ہاتھ پوری طرح پڑا نہیں اس کے گلے میں پڑا ہوا رنگیں مفلر دوسرے ہاتھ آیا اور مودا جھک کر بھاگ نکلا ۔
پیچھے والا بندہ ٹریفک کے درمیان سے بھاگنے کے ہنر سے ناآشنا تھا اس لیے مودا سڑک پار کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔ اتنی دیر میں چکوالی چپل پہنے اور چادر اوڑھے ہوئے ایک پچیس تیس سالہ جوان نے بھی سڑک پار کر لی ۔ یہ دیکھ کر مودے سے ایک غلطی سرزد ہوئی ۔ وہ سڑک پر بھاگنے کی بجائے سڑک کے ساتھ والے کھلے میدان میں بھاگ کھڑا ہوا ۔ا س منظر نے اس دیہاتی نوجوان کے چہرے پر اطمینان بھر دیا ۔
اتنے میں آس پاس والے لوگ بھی متوجہ ہو چکے تھے اور سڑک کنارے اکٹھا ہونا شروع ہوگئے ۔ دیہاتی نوجوان نے اس کے پیچھے بھاگنے کی بجائے ایک منٹ رک کر اپنی دونوں چپلیں اتاریں اور چادر اتار کر ایک طرف پھینک دی ۔ مودا کھلے میدان کے تقریباً درمیان پہنچ چکا تھا ۔ مگر اچانک اسے محسوس ہوا کہ اس کے پیچھے کوئی سیٹی بجاتا انجن دوڑ رہا ہے ۔ پیچھے دوڑنے والا کامران عرف کامی اپنے علاقے کا مانا ہوا کبڈر تھا اچھے خاصے ساہی کامی کے آگے دوڑتے گھبراتے تھے ۔ یہ تو محلے کا کن ٹٹا مودا تھا ۔ گراؤنڈ کی باؤنڈری کے کوئی دس پندرہ گز پہلے ہی کامی نام کی بلا اس کے سر پر پہنچ چکی تھی ۔ کامی نے دوڑتے دوڑتے دایاں ہاتھ مودے کی بغل میں ڈال کر جو اسے پوہانٹی دی تو مودا چلتے ٹرک سے گرے ہوئے سامان کی طرح لڑھکنیاں کھاتا ہوا کوئی پانچ دس گز دور میدان کے کنارے کوڑے کے ڈھیر پر گرا ۔ کامی نے اسے گردن سے پکڑ کر یوں اٹھایا جیسے گندگی میں گری ہوئی کوئی شے اٹھائی جاتی ہے ۔ جب لوگ سڑک پار کر کے ان کے پاس پہنچے تو مودا دھوڑ میں اٹا ہوا مرے ہوئے چوہے کی طرح پڑا تھا ۔ ناک ٹوٹی ہوئی تھی ۔ ہونٹ پھٹے ہوئے تھے ۔ ایک کان لوتھڑا بن کر چپکا ہوا تھا ۔ مگر ہجوم کے پہنچنے سے پہلے کامی نے ایک آخری کام جلدی جلدی نمٹایا ۔ ساتھ پڑا ہوا بڑا سا پتھر اٹھا کر تقریباً بے ہوش مودے کے بائیں پاؤں تلے رکھا اور اپنا ننگا دایاں پاؤں اپنے سینے تک اٹھا کر اس کی پنڈلی پر مارا جیسے ایک فوجی پریڈ کرتے ہوئے زمین پر مارتا ہے ۔ مگر پریڈ والے بوٹ کے زمین پر مارے جانے سے تھوڑی زمین ادھڑتی ہے مگر یہاں تو ایک اونچی چٹاخ سی اواز آئی اور بے ہوش مودے کی منہ سے ایک خوفناک چیخ نکلی ۔ اب اس کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ ایسے پڑی تھی جیسے بے دھیانی میں جنگل بیلے میں چلتے ہوئے پاؤں کے نیچے کوئی خشک شاخ ٹوٹ جاتی ہے ۔ اس اکٹھے تماشائی مجمے سے مودے کے دو دوست اور محلے کے ایک دو بندے کامی کی طرف گالیاں نکالتے ہوئے بڑھے ۔
یہ دیکھ کر ایک پچاس پچپن سال کا دیہاتی آگے بڑھا اپنی چادر کے نیچے نیفے میں ہاتھ ڈالا اور لوگوں نے دیکھا کہ ایک کالا سیاہ چمکتا ہوا موزر ان پر تنا ہوا ہے ۔ یہ دیکھ کر لوگ پیچھے ہٹ گے اور کامی اس بندے کے ساتھ آرام سے چلتا ہوا میدان کے کنارے پہنچا اپنی چپلیں اٹھا کر پہنیں اور چادر جھاڑ کر کندھے پر رکھی اور پاس سے گزرتی ہوئی ایک گاڑی میں بیٹھ کر نظروں سے اوجھل ہو گئے ۔
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں