یوم کشمیر۔۔شفقت لاشاری

لیجئے حضور آج پانچ فروری یوم یکجہتی کشمیر ہے ملک بھر میں عام تعطیل ہے۔ دفاتر اور تعلیمی اداروں سے فراغت کے باعث مجاہدین سوشل میڈیا پرمکمل یکسوئی سے فیس بک پر کشمیر آزاد کرانے کی بھرپور کوشش میں لگ چکے ہیں۔میڈیا خبر یں دے رہا ہے ملک بھر میں یوم یکجہتئ کشمیر منایا جارہا ہے ملک کے مختلف شہروں میں کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے ریلیاں نکالی جارہی ہیں ریلیوں میں خطاب کرنے والوں کا کہنا تھا مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کیا جائے۔
زور و شور سے یہ مطالبہ کرنے والے شعلہ بیاں مقررین سے اگر پوچھا جائے حضور آپ نے اقوام متحدہ کی قرارداد پڑھی ہے تو اکثریت کا جواب نفی میں ہوگا اگر انہوں یہ قرار داد پڑھنے کی زحمت کی ہوتی تو یہ بچگانہ مطالبہ قطعا” نہ کرتے کیونکہ اقوام متحدہ میں پاس ہونے والی قرار داد کشمیر کا پہلا نکتہ ہی ہمارے لیے قابل قبول نہیں۔
مذکورہ قرار داد کے مطابق پہلے مرحلے میں پاکستان اپنے تمام مسلح و غیر مسلح شہری کشمیر (بشمول آزاد کشمیر) سے نکالے گا۔ دوسرے مرحلے میں انڈیا اپنی افواج کشمیر میں اس حد تک کم کر دے گا کہ باقی ماندہ فوج امن و امان قائم رکھ سکے۔ ان اقدامات سے اقوام متحدہ مطمئن ہو کر تیسرے مرحلے میں رائے شماری کروائے گی جس میں کشمیری پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کریں گے۔
یقینا” ہمارے لیے یہ قابل قبول نہیں ہے کہ کشمیریوں کو بھارتی رحم و کرم پر چھوڑا جائے اور نہ ہی اس بات کی گارنٹی ہے کہ امن و امان کیلئے موجود بھارتی فوج رائے شماری پر اثرانداز نہیں ہوگی۔
سچ پوچھیئے تو یہ قرار داد غیر حقیقی اور غیر موثر ہے جس پر عمل درآمد ہونا ناممکن ہے۔ کشمیر کا مقدمہ لڑنے کیلئے ہمیں ریاست حیدرآباد اور ریاست جونا گڑھ کا مقدمہ بھی ساتھ ہی لڑنا ہوگا۔ ان دو ہندو اکثریتی ریاستوں کے مسلمان راجاوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا مگر بھارت نے ان پر قبضہ کر لیا تھا، گویا اگر تقسیم کے وقت ریاستوں کا الحاق راجاوں کی مرضی سے ہونا تھا تو بھارت کو ریاست حیدرآباد اور جوناگڑھ پہ قبضہ ختم کرنا چاہیئے اور اگر عوام کی اکثریت کی بنیاد پہ الحاق ہونا تھا تو بھارت کو مقبوضہ کشمیر پہ ناجائز قبضہ ختم کرنا ہوگا۔ تاکہ کشمیری جس کرب میں مبتلا ہیں وہ ختم ہو اور انھیں آزادی کی سانس لینے کا موقع ملے۔ اس کرب کا احساس گزشتہ سال اگست میں کشمیر جنت نظیر کی سیاحت کے دوران ہوا۔ دریائے کیرن کے ایک طرف بھارتی علاقہ کیرن ہے جبکہ دوسری طرف پاکستانی کیرن ہے، دونوں طرف کی افواج آتشیں اسلحہ لے کر پہاڑوں میں بیٹھی ہیں یہاں ایک بزرگ نے بتایا کہ اگر آپ نے دریا میں پاوں ہی رکھا تو آپ کسی اندھی گولی کا شکار بن سکتے ہیں، سو فٹ کی چوڑائی کے دریا کے اس پار موجود نوجوانوں کو والی بال کھیلتا دیکھ کر اپنائیت کا احساس ہوا، بزرگ نے بتایا ہماری اس طرف قدیمی رشتہ داریاں ہیں بارڈر کی لکیر نے ہمیں دور ضرور کر دیا مگر ہمارے دل آج بھی ایک ساتھ دھڑکتے ہیں، ہم ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہیں ابھی ناامید نہیں ہوئے یقینا” ایک نہ ایک دن بندوقوں کے بادل چھٹیں گے، بارود کی بو ختم ہو گی اور دریا کے اس پار بھی آزادی کی صبح طلوع ہوگی۔

Facebook Comments

شفقت لاشاری
طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply