• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ہم جنس پرستی اور پاکستانی تعلیمی اداروں کا علمی و تحقیقی جائزہ/ آخری حصّہ نہم۔۔ڈاکٹر محمد علی جنید

ہم جنس پرستی اور پاکستانی تعلیمی اداروں کا علمی و تحقیقی جائزہ/ آخری حصّہ نہم۔۔ڈاکٹر محمد علی جنید

کہنے کو یہ سیکولر اور لبرل افراد ہم جنس پرستی  کے محافظ  بنتے پھرتے ہیں مگر  اس کے ساتھ  یہ طبقہ مذہبی رجحان کے حامل افراد پر ہم جنسیت کے الزامات بھی عائد کرتے پھرتے ہیں یہاں انکے فکری قلب سے تضاد و دوغلی معیاری مفافقت پیدا ہوتی ہے،کہ جس شہ کو تم غیر اقداری خیر جان کر  فرد کا ذاتی معاملہ گردانتے ہو،اور جسکی خیر کا تعین کرنے کا حق فرد واحد کو عطا کرتے پھرتے ہو  تمہاری وہ ویلیو نیوٹرل اپروچ جب مولوی کو دیکھتی ہے تو  وہ، مولوی کے بطن میں جاکر انکی رو  سے غیر اقداری سے اقداری ہوجاتی ہے۔

حالانکہ  خود اس متاثرہ  مولوی کی رو سے یہ ہم جنسیت ایک منفی اور غیر اخلاقی قسم کا  رجحان ہوتا ہے،ناکہ  کوئی آزاد ویلیو نیوٹرل اقدار نامہ ہوتا ہے،یہاں مولوی کا ضمیر کسی نیوٹریل ہونے  کو نہیں مانتا ہے مگر اسکا رجس ِ قلب اس سے جو  گناہ صدور کر والیتا ہے وہ درون خانہ خود  اسکی جانب سے خود ذاتی  طور پر  گناہ  ایک گناہ ہی تسلیم کیا جاتا ہے،اور یہاں وہ  بس اس آسرے میں رہتا ہے کہ اسکا گناہ چھپا رہاسکا رجس ِ قلب اس سے گناہ صدور کرلوالیتا ہے و دیکھتی ہے تو ماہرین سے التماسیگا اور  ساتھ اسکے سفلی  دل میں  اللہ کی رحمت اسکے عذاب پر غالب ہوجاتی ہے،مگر وہ یہاں اللہ کے  احکامات کو جذبات و گناہ میں بہہ کر فراموش کردیتا ہے۔اغلام باز سدومی  مولوی ایک گناہ گار فرد ہوتا  ہے ،اسے اس امر کا بخوبی ادراک  ہوتاہے کہ اس نے بہت بڑا گناہ سرانجام دیا ہے،مگر ایک لبرل فرد یہاں انسانی حقوق ،افادیت ،اور فردیت کو شریعت پر غالب جانکر ہم جنس پرستی کو جایز تسلیم کرتا ہے۔اسکی لغت میں جو شہ جایز جانی جاتی ہے وہ شہ اسکی رو سے صرف ایک آزاد خیال، کثیر ثقافتی،لبرل،اعتدال پسند  انسان کے لئے  جایز  ہوتی ہے، یہ آزادی  یہاں مولوی کے لئے جائز نہیں  ہوتی ہے کیونکہ مولوی اسکی دنیا کی رو سے ایک اجنبی کردار کا نام  ہوتا ہے،جسکا جسد ظاہر میں مولوی اور باطن میں منافق شیطان کا ہوتا ہے۔ر د کروانے پر بضد رہتی  ہیں۔

یہاں وہ علمی جسد پہن  کر اپنے اور مولوی کے ورلڈ ویو کی تقسیم بندی کرتا نظر آتا ہے ،مولوی کو مولوی کے فریم ورک سے گناہ گار قرار دیتا ہے،اسکے اداروں کو استحصالی گردانتا ہے،جبکہ اپنے فریم ورک کو اپنے لئے محفوظ کرلیتا ہے، جبکہ اپنی برتری کی خوش فہمی کے شکار مولوی کے پاس یہاں دفاع کے لئے کچھ ہوتا ہی نہیں ہے  اور خود الٹے اسکے دعوے اور نصائح اسکے گلے کا طوق بن جاتے ہیں،اور اسکا شرعی ڈھانچہ خود اس پر حد لگانے کا مطالبہ کرتا  نظر آتا ہے یہاں پھر لبرل مسٹر اور مسز پلٹ کر انسانی حقوق کو کھینچ کر مولوی کو بچانے کے لئے دلایل دینا شروع کردیتے ہیں کیونکہ رسواذدہ  اور بدنام مولوی اب بدنام ہوکر،ایسا نام کرجاتا ہے کہ وہ  کچھ دیر کے لئے سہی بحرحال ایک جدید ماڈرن فرد بن جاتا ہے اور فرد ہی انسانی حقوق کا اصل معبود ہوتا  ہے جبھی اول مسٹر مولوی کو اخلاقی طور پر بدنام و تباہ کرتا ہے،پھر جب مولوی ڈوب جاتا ہے تو وہ مولوی کی کھال اتارکر اس میں بشر و انسان نکال لیتا ہے۔یہاں مفتی عزیر ،مفتی قوی و نقوی اسکی تنقید کا ہدف بنتے ہیں حلانکہ مولوی کا فریم ورک انھیں سطح ذمین پر آنے سے قبل ہی طلاق دے چکے ہوتے ہیں۔

ایک بات جو سب فراموش کرجاتے ہیں وہ یہ ہیں کہ لبرل میڈیا اور آرڈر مولوی پر خٖفیہ نگاہ جمائے بیٹھا ہوتا ہے،جیسے ہی وہ کچھ شیطانیت دکھاتا ہے،مولوی کا اِنر ڈیمن اسکے انرمومن کو کمزور کرکے ڈسنے لگتا ہے،اسکا ایمان گھٹتا جاتا ہے،چناچہ اچانک لبرل آرڈر متخالف نظام اور فریم ورک کے وکیل مولوی کو مفتی عزیر کی طرح گلے سے دبوچ لیتا ہے،اس پر تنقیدی فایرنگ شروع کردیتا ہے،عامتہ الناس سمجھنے لگتی ہے کہ یہ مولوی واحد ایسا نہیں کررہا ہے بلکہ سب ایسا کرتے ہیں۔

حلانکہ صرف ایک دو سالانہ کیسز سے کل نظام کو مورضِ الزام قرار دینا اخلاقی و قانونی چھوڑیں فلسفیانہ منطقیت کی رو سے بھی جایز نہیں ہے۔یہ میڈیا اور نظام سردار بچے ،اوطاقی بچے ،چھوٹے(شعیب منصوری خدا کے لئے والا بچہ) کو توجہ کے قابل نہیں سمجھتے ہیں اور اتنا تغافل برتتے ہیں کہ جاوید اقبال جیسا درندہ سو بچے تیزاب کی نظر کردیتا ہے تو جب جاگتے ہیں،یہ لوگ غیر مذہبی لبرل کالجوں اور جامعات میں ایسے آئے دن ہونے والے واقعات سے نظریں پھیر کر اسے بچوں کی غلطی قرار دیتے پھرتے ہیں،کیونکہ بچوں سے یہ سب جذباتی ،لذتی ریشنلیٹٰی کے سبب وقع پذیر ہوا ہوتا ہے اور ان خیروں سے انکی رو سے خیر ہی پیدا ہوتی ہے۔

پاکستان کے بوایز اینڈ گرلز ،اسکولز اور کالجز سے مخلوط تعلیمی اداروں سے ہاسٹلز تک فارغ وقتوں میں ہم جنس پرستی کرنے والے ڈھونڈے جاسکتے ہیں،میں نے خود جامعہ کراچی میں ایسے رجحانات انتھائی قلیل ترین سہی مگر  کچھ نا کچھ بحرحال دیکھے ہیں۔اگر میں ایسے پانچ کیسز کو سامنے رکھوں جو بیس سال میں میرے سامنے آئے  تو عجیب بات سامنے آتی ہے،ان کیسز میں ملوث زیادہ تر لڑکیاں نظر آتی ہیں،یہ لڑکیاں عموما دو کی جوڑی میں دوسروں سے الگ تھلگ بیٹھی،باتیں کرتیں،دکھتی ہیں،ان میں اسموکنگ اور نشہ کے رجحانات بھی اکثر ملتے ہیں ان میں سے اکثر ایک کالا دوسرا صاف رنگت کا حامل ہوتا ہے،جبکہ ایک مردانہ نما دوسرا زنانہ نما ملتا ہے،ایک عامل ہوتا ہے دوسرا معمول ہوتا ہے۔جن گھرانوں میں عورتوں میں بیجا سختی اور قیدکا رواج ہوتا ہے ،لڑکی کی شادی کی عمر نکلنے لگتی ہےوہاں یہ رجحان  لحاف کی بیگم جان کی طرح ابھرتا چھلکتا نظر آتا ہے۔نبی اکرمؐ نے عورتوں کو ایک دوسرے کےسامنے برہنہ ہونے سے منع کیا ہے،ایک عورت کو دوسری عورت کا جنسی حال و حلیہ اپنے مرد کے سامنے کھینچنے سے منع کیا ہے تاکہ مرد دوسری عورت کی بابت کچھ جان نا پائے،اور پرایویسی بنی رہے  مگر  سچ یہ ہے کہ ہماری عورتوں نے ایسی باتوں کو سرے سے توجہ  ہی نہیں دی ہے،انکو پیارے نبیؐ کی پیاری ہدایتیں پسند نہیں ہیں بس نعتیں پڑھ پڑھ کر خود کو دینی بہنیں  قرا

ہاسٹلوں میں جو کچھ  ہوتا ہے وہ تو ا اسکینڈلز  پر مبنی یم۔ایم۔ایس وغیرہ سے کافی واضح ہوجاتا  ہے،میں دو واقعات بیان کرتا ہوں ایک  شعبہ کے ایک سابقہ چیر میں نے ایک دفعہ اپنے ایک کلرک کا سامنا کراکر مجھ سے  فرمایا رات ایونگ ختم ہونے پر ہم گرلز ٹوایلٹ بند کرنے کے لئے اسے بھیجا تو  دو لڑکیاں وہاں باہم رومانوی طور پر  مشغول ملیں جب انکو بولا باہر آو تالہ لگانا ہے تو ان دونوں نے اس بیچارے کو دھکا دے کر بھگادیا۔

اسی طرح ایک دفعہ ایک  سیکیورٹی گارڈ نے بیان کیا کہ دو لڑکیوں کو ایک ڈیپارٹمنٹ کے  ٹوایلٹ میں پکڑا گیا  کیونکہ انکی کسی لڑکی نے شکایت کردی تھی۔انکے پاس سے ڈلڈو برامد ہوا،لڑکیوں کے اہل خانہ بلائے گئے،تو ایک لڑکی کی ماں نے بیٹٰی کی دوست کا  دیکھا تو  چیخ پڑی کہ اچھا  یہ حرافہ! ہے؟ اب میں بولوں کیوں بار بار  یہ کم بخت ! میری بیٹی سے ملنے آتی تھی اور  دونوں اسٹڈی کے نام پر کمرہ بند ہوجایا کرتی تھی،قصہ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ ان میں سے ایک لڑکی نے مطالبہ کیا اسکا مغضوب کردہ ڈلڈو واپس کیا جائے  کیونکہ یہ کافی مھنگا ہے۔مگر مجھے یہ آخری بیان کافی حد تک  الحاق ذدہ  جھوٹا لگتا ہے۔

جامعات میں اگر چہ اساتذہ کا رجحان عموما جنس مخالف کی طرف سو فیصد دیکھا گیا ہے ، ہم جنس پرستی ان میں ڈھونڈھنے کو بھی نہیں ملتی ہے ،مگر کبھی کبھار کچھ ایسے واقعات کسی مخصوص استاد کی بابت بھی سننے میں آجاتے ہیں جو ایسے رجحانات رکھتا ہے،ایک صاحب  کے بارے میں تو کئی طلبا نے قسم کھا کر یہ بھتان طرازی کی ہے،جن میں سےچند ایک سے میں اس الزام کی سرے سے انکی سنجیدگی اور متانت کے سبب توقع نہیں کررہا تھا۔

جبھی ہم جنس پرستی کو یا جنسی استحصال کو صرف چرچ،مدرسہ،دیر،اور پاٹ شالہ سے نتھی نہیں کیا جائے ، کیونکہ اس قسم کے رجحانات مذہبی حدود و قیود سے قانون تک کسی کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں ،جس طرح پنکھا خالق کی مقرر کردہ جبلت کے خلاف الٹا چل سکتا ہے،کوا کالے سے بیماری کے سبب گورا ہوسکتا ہے،نیک بد ہوسکتا ہے ،بد نیک بن سکتا ہے ساری زندگی کا جنتی موت سے قبل ایک غلطی سے گناہ گار و کافر ہوسکتا ہے،ایک لبرل استاد ڈھٹائی سے اپنی شاگردہ سے جنسی تعلقات استوار کرسکتا ہے عین اسی طرح ظاہری مولوی ظاہری باطنی مولوی کے برخلاف اغلامی مولوی بھی بن سکتا ہے،باقی ہر ڈاڑہی والا عالم فاضل مولوی نہیں ہوتا ہے،اسی طرح ہر بدکار مولوی ملازم کل عالم فاضل مولوی جمعیت کا نمایندہ نہیں ہوتا ہے۔

یہاں فرق زاویہ نگاہ کا بھی آتا ہے،ورنا قدرت کے انصاف اور شریعت کے قانون کی نگاہ میں سزا کا نظام اندھا ہوتا  ہوتا ہے اسکی مولوی اور غیر مولوی کسی سے ساجھے داری اور رشتہ داری نہیں ہوتی ہے اسکی نگاہ میں دونوں اول ملزم اور جرم ثابت ہونے پر مجرم بن جاتے ہیں۔چناچہ جنسی مسایل کی آماجگاہ صرف مدارس کو قرار نہیں دیا جاسکتا ہے،اس وبا ،بیماری،گناہ اور جنیوم ڈفیکشن کا کوئی بھی فرد واحد شکار ہوسکتا ہے۔

ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارا  لبرل آرڈر جنسی سانحات کو مخالف نظام کو تباہ کرنے اسکی شخصیت کشی کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے،اور خود کے گھروں کی خبر چھپا کر رکھتا ہے،اور اگر خبر چھانپ بھی دی جاتی ہے تو اسکی سرخی بھت مدہم اور غیر جلی رکھتا ہے،جبھی سوشل ساینس کے ماہرین سے التماس ہے،وہ اپنے علوم اور ان سے متعلقہ تحقیقات کو کو یک طرفہ عناد کے لئے استعمال مت کریں رسل کی طرح مخالف کا علمی،منطقی طور پر رد کراکریں۔

پاکستان ٹرانس جینڈر ایکٹ ۲۰۱۸ کی بابت کچھ باتیں:

بحث ختم کرنے سے قبل میں اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری محسوس کرتا ہوں کہ پاکستان ٹرانس جینڈر ایکٹ ۲۰۱۸ کی طرف اشارہ کرتا چلوں اس ایکٹ کے پیش کردہ بل میں یہ حقوق عطا کرنے کے نام  پر جو مندرجات ذکر کئے گئے ہیں وہ قران و سنت کی  مجموعی جوہری روح کے خلاف نظر آتے  ہیں ،بلکل ایسے جیسے اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا عالمی چارٹر (۱۹۴۸) مذہب مخالف جذبات ،احکامات اور تصورات سے لبریز نظر آتا ہے کیونکہ اسکی بنیادی خالقہ:مسز ویلٹ نے اس میں امریکی فیڈرلسٹ پیپر کی جوہریت کو اختصار کے ساتھ سمو کر عالمی حکومتوں سے منظور کروالیا تھا، میں نے اس امر پر اپنے پی۔ایچ۔ڈٰی کے مقالے میں ایک مفروضہ کے ضمن میں اختتامیہ میں بحث کی ہے اور اسکا اسلام مخالف ہونا ثابت کیا ہے۔

اور اس چارٹر کی دفعات کا مغربی فکر اور شریعت کا باہمی تقابلہ کرکے جایزہ پیش کیا ہے، چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس ضمن میں جنگ عظٰم دویم کےبعد بننے والے عالمی سیاسی آرڈر نے ایک مضبوط راہ فراہم کی تھی۔ کیونکہ موجودہ ٹرانس جینڈر  ایکٹ:۲۰۱۸ اس ہم جنسی پر مبنی بحث کے تناظر میں  فطرت  و قدرت پر فرد کی من چاہی آزادی کی برتری کا تعین کرتا نظر آتا ہے، میں  نے  اسی تحریری سلسلہ کی سابقہ تحریروں میں جس تخلیقی جبلت کاری کے فلسفہ پر منطقی بنیادوں پر روشنی ڈالی تھی،  یہاں  نا مانتے اور تسلیم کرتے ہوئے قانون سازوں نے پوسٹ ماڈرنیٹی کے مشھور مصنف و ناقد رونالڈ بارتھ کے فکری  تصور مصنف کی موت(ڈیتھ آف آتھر ) کو درون خانہ تسلیم کر لیا ہے ۔

جسے میں اس ہم جنسیت کی بحث کی رو سے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے درد و کرب کے ساتھ اس  بحث میں خالق  کی موت سے تشبیھ دے سکتا ہوں،جس پر میں سابقہ تحریر میں گفتگو کرچکا ہوں اور بھت حد تک جسکا موئید مشھور جرمن مفکر نیشچے تھا ،چناچہ یہاں مخلوق (کریشن ) کے وجود،انفرادیت اور حقوق  کو تسلیم کرلیا گیا ہے اور خالق کو بس مسلمان فرقے کے خدا کے طور پر  اسے قرار دار مقاصد میں بٹھا دیا گیا ہے،مگر اسی خدا کے جو احکامات  قران و سنت میں واضح طور پر  ملتے ہیں انکی  کھلے عام دہجیاں بکھیر دی گئیں ہیں ۔

جیسا کہ میں سابقہ سطور میں بیان کرچکا ہوں کہ  قران  و شریعت  جنسی نقطہ نظر سے فطری طور پر صرف مرد و عورت کی جنسوں کو تسلیم کرتے ہیں ،اور انھیں باہم ایک دوسرے کا زوج قرار دیتے ہیں،جبکہ خواجہ سرا کی بابت فقہا کرام نے وسعت سے زمانہ قدیم میں بحث کی ہے اور  انکے میلانات  و ،رجحانات کے برخلاف انکی جنسی اعضا کہ ہیت و کیفیت ،اور وجود کے تناظر میں معاینہ کے ساتھ انھیں ورثت کے ضمن میں یا تو مرد کی وراثت سے حصہ دلوایا گیا ہے یا عورت کی وراثت سے حصہ دلوایا گیا ہے ، یہ محقق بات ہے کہ یہ خواجہ سرا پاکستان میں مردانہ ہم جنس پرستی کے  بنیادی رکن ہیں ، اور چند روپوں کی خاطر ناچ گانے سے لیکر جنس فروشی کے کاروبار میں مگن نظر آتے ہیں،معاشرہ انھیں شاید اس دکھواے کے خدمت خلق کے نام پر دینے کے لئے کچھ خاص آمادہ نہیں ہے ،اپنی تنقید سے مزاح تک ان لوگوں کو ہجوم میں غٰیر محفوظ تسلیم کروالیا ہے یہاں یہ ایکٹ انھیں بلا تحقیق انکی مرضی اور اعترافِ جنس کی بنیاد پر انکو  یہ حق دیتا ہے کہ وہ نادرا کے شناختی کارڈ میں خود کو  مخنث ظاہر کریں،مرد ظاہر کریں یا عورت ظاہر کریں یوں  انکی باہمی شادی سے ہم جنسی شادیوں کا ایک  ایک درون خانہ راستہ بھی یہ ایکٹ دکھاتا نظر آتا ہے ،یہ ایکٹ کسی کو بھی چاہے مرد ہو یا عورت ہو یہ راہ دکھاتا ہے کہ وہ خود کو چاہے وہ حقیقی مرد یا عورت کیوں نا ہوں  مخنث کے ذمرے میں خود کو شامل کرواسکتے ہیں اور ،اسکے لئے کسی جانچ پڑتال کے نظام  کا وجود عنقا نظر آتا ہے،چونکہ اس تحریر کا اصل موضوع یہ نہیں ہے ،اس ایکٹ کا کلی جایزہ لینا ایک الگ تحریر کا مطالبہ کرتا ہے ، بھارتی آئین بھی ہم جنس پرستی کو  نا پسند کرتا نظر آتا ہے،مگر بابا امبید کر کے تحریر کردہ آئین  کی اس روح کو جدید سپریم کورٹ انسانی حقوق کے فلسفہ کی روشنی میں اب رد کرنے لگی ہے۔

عین ویسے  ہی  پاکستان کا آئین بہ حیثیتِ مجموعی اس امر کا فیصلہ کرنے سے قاصر ہے کہ اسکی جوہری روح کس دبستان فکر سے تعلق رکھتی ہے، یہ مذہب و الحاد کا ایک عجیب  ملغوبہ یا کھچڑی نظر آتا ہے، اس آئین کی مجموعی روح امریکہ ،فرانس ،بھارت اور برطانوی پارلیمانی طریقہ حکومت کی غیر تحریری آئینی روح کے ایسے امتزاج سے لبریز نظر آتی  ہے جس میں صاف مغربی طریقہ انتخاب اور حقوق چھلکتے نطر آتے ہیں۔اب اسکو اسلامانے کے  لئے جو الحاقات و آمیزشیں بروئے کار لا کر اسے اسلامی قرار دیا گیا ہے ۔

ان میں اول تو قراردار مقاصد کو بطور تمہید (پری ایمبل) شامل کرلیا گیا،پھر اس  میں موجود اضافہ جات و ضمیمہ جات میں  مسلم سربراہ مملکت ،و حکومت کے حلف نامے ،ختم نبوت کے اقرار نامے شامل کئے گئے ہیں ،اس آئین کی رو سے وفاقی شریعت کورٹ(باب:۳:الف:آئین ۱۹۷۳: حصہ :۷:آرٹیکل:۲۰۳) اور اسلامی نظریاتی کونسل کے آئینی ادارے(آرٹیکل:۲۲۸:چھ ذیلی دفعات) اسلامی لوازمات کی پیوند کاری کی گئی ہے اس  ضمن میں پیوند ِ اسلام کو مغربی آئینی  وجود میں جڑ دیا گیا ہے ۔

پھر یہ کہہ دیا گیا  ہےکہ صدر اور وزیر اعظم کا سربراہ مملکت و حکومت ہونا لازمی ہے،یہ لبرل و آزاد خیال روش کے حامل برطانیہ کے سربراہ مملکت کے رسمی و غیر اختیاری سربراہ سے متاثر شدہ دفعات کا ماحاصل  ہے جسکی رو سے وہ کیتھولک عیسائی فرقہ سے تعلق نہیں رکھ سکتا ہے،یہ انکی صدیوں سے مروجہ رسم کا اظھار  ہے جسکی پیروی عرصہ دراز سے کی جارہی ہے،جبکہ یہی ملکہ یا بادشاہ ہم دیکھتے ہیں کہ چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ ٹیوڈر بادشادہ ہنری ہشتم کے دور سے چلے آرہے ہیں،۱۶۸۸ کے انقلابِ عظیم(گلوریس ریولیشن) نے اس امر کو اور زیادہ  مستحکم کردیا تھا،چناچہ ہمارے آئین کے سیکولر ڈھانچے میں ملا برادری کو بل سازی میں شامل کرکے ان امور کی پیوند کاری سے مطمین کیا گیا تھا،پھر ایک فنی اصول یہ قایم کیا گیا جو لوگوں کو دل بھلانے تک خوش کرنے کے قابل تھا کہ :اس ریاست میں کوئی بھی قانون شریعت(قران و سنت) کے مخالف بنایا نہیں جائیگا۔(آرٹیکل:۲۲۷:۱)،مگر پاکستان کا ہر بندہ جسے معمولی عقل سلیم حاصل ہے ،اس عقدہ کو روز مرہ کی حیات کی روشنی میں حل کرسکتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ پاکستانی ریاست میں شریعت لکھت پڑھت تک کتابوں ،مدرسوں اور نصایح میں  ضرور موجود ہے مگر عایلی قوانین سے،کورٹ میرج تک،دوسری شادی کی اجازت سے غیر بالغوں کے نکاح تک،دوسری شادی کے لئے پہلی بیوی سے اجازت تک،سودی نرخ کے تعین کے حکم سے شراب کے پرمٹ تک،سب کچھ شریعت کے مخالف نظر آتا ہے۔یہاں ہر فرد اپنی جگہ نبی،ولی اور پیغمبر بنا پھرتا ہے،کفر ،شرک و بدعات سے لیکر الحاد تک سب ساتھ ساتھ کھانا کھاتے نظر آتے ہیں،کل دنیا سے زیادہ عاشق رسول اور گستاخ رسول یہیں ملتے ہیں ،ایک اندازے کے مطابق ۱۹۹۰ سے ۲۰۲۱ کے سری لنکن مینیجر کی سیالکوٹ میں وحشیانہ بربریت پر مبنی لاش سوزی و قتل و غارت گری تک  یہ  ہجوم و افراد ۶۷ افراد کو توہینِ رسالت کے الزام میں  ہلاک کرچکے ہیں(روزنامہ:ایکسپریس:کراچی:۵۔دسمبر۔۲۰۲۱)۔

خٰیر میں زیادہ فضول باتین کرنے کی بجائے  بس اتنا ہی عرض کرونگا کہ جنس انسان کی حیات کا اذلی و فطری حصہ ہے،خالق نے تخلیقی جبلت میں دو جنسوں کے باہمی جنسی تعلقات و روابط کو پنہاں کیا تھا یہی حقیقی تخلیقی جبلت و شرست کا ماحاصل تھا،جنسی ،کجرویاں،انحرافات، ہم جنسی رویہ جات  درحقیقیت تخلیقی نفوذ پذیر اذلی جبلت کے خلاف اظھارات  ،میلانات و رجحانات  ہوتے ہیں،انکو کسی صورت میں فطری اور جبلی قرار نہیں دیا جاسکتا ہے،جبلت و شعور میں خامی استتثنائی اظھارات ہوتے  ہیں جو اکثریتی جبلتوں کے برخلاف کچھ افراد و گروہ میں  کبھی کبھار نمودار ہوتے ہیں، اور کچھ میں نمو پاتے ہیں  مگر سائینسدانوں کا انکا  عین اذلی و جبلی ہونے کا خیال ظاہر کرنا انکا غیر ثابت شدہ قیاسی مفروضے کے ماسوا کچھ نہیں ہے، کیونکہ ہمیشہ  اللہ کی تقدیر شدہ قدرت نے انبیا کرام کے ذریعہ شریعت کی ترویج و تبلیغ کے ذریعہ نھی المنکر اور انحرافات کو روکنے کی کوشش تبلیغ،تذکیر اور تعلیم کے ذریعہ  کی ہے ،عین ایسے جیسے جدید الحادی معاشروں جیسے روس و چین نے ہم جنس پرستی کو سماج شکن سمجھ کر غیر آئینی قرار دیا تھا،جبھی اگر ایسے انحرافات کسی فرد و افراد کے گروہ سے صدور پذیر ہوتے ہیں تو اس خامی کو نا تو مسٹر سے نتھی کرکے ان پر الزام لگایا جاسکتا ہے اور نا مولوی پر  تھونپ کر نظر چرائی جاسکتی ہے،جو قصور کرتا ہے ،قصور و گناہ اسی کے کسب کا نتیجہ ہوتا ہے،کیونکہ شریعت و فطری قانون کسی جرم کو مذہبی ،غیر مذہبی ،کالے و گورے ،امیر و غریب کی آنکھ سے نہیں دیکھتے ہیں ،انکی آنکھ یہ دیکھتی ہے کون مرتکبِجرم  ہے اور کون نہیں ہے اب وہ چاہے مسٹر و یا مولوی ہو،گناہ کا صدور دونوں سے ممکن ہے اور دونوں پر ثابت ہے،جبھی انصاف یہ ہے کہ سب اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر تنقید نگاری کا فریضہ سرانجام دیں تو زیادہ عمدہ ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ختم شد

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply