سوشل میڈیا پر پابندی اور ایک عاجزانہ درخواست

سوشل میڈیا پر پابندی اور میری گزارش

Advertisements
julia rana solicitors london

موسیٰ علیہ السلام جب کوہ طور پر تشریف لے گئے تو سامری نے قوم کو صرف عبادةاللہ سے نہیں نکالا بلکہ انہیں عبادة الأصنام کے شغل میں بھی لگا دیا تھا.اس واقعے سے ایک نکتہ سمجھ میں آتا ہے۔کسی کو آپ معاملے سے باز رکھنا چاہیں تو اسکے متبادل کام میں انہیں مصروف کردیں. آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے…
اب آتے ہیں مدعے پر.
ملک بھر میں توہین رسالت کے موضوع پر ہر مسلمان اپنی سوچ اور سمجھ کے مطابق گفتگو کر رہا ہے. عدالت میں ججز ریمارکس دے رہے ہیں. تو حکومت بھی ایکشن کے موڈ میں ہے. عوام دکھی دل سے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا اظہار کررہی ہے.سنجیدہ ساتھیوں نے تو عملی طور پر فیس بک کی انتظامیہ سے بھی درخواست کی لیکن جواب ندادر….
خیر جب سے جج صاحب کے پاکستان میں سوشل میڈیا بند کرنے کےریمارکس آئے ہیں.تو سنجیدہ مزاج لوگ بھی تقسیم ہوگئے ہیں. میں نہیں جانتا اسکے نتیجہ سے متعلق ان کے قیاسات کس حد تک درست ہیں.اور اگر سوشل میڈیا بند کیا گیا تو نوجوان نسل کس حد تک خود کو عملی طور پر اسکے لئے آمادہ کر پائے گی۔
لیکن..
اگر ایسی صورت حال میں حکومت واقعی سوشل میڈیا پر بین لگانے میں سنجیدہ ہے تو اسے مندرجہ ترکیب پر عمل کرنا چاہیے.
حکومت ایک فیس بک کے معیار پر ایک سوشل ایپ بنائے اور ان عشاق رسول کو فیس بک چھوڑنے کی دعوت دے. ان کو اس نئی ایپ میں فیس بک جیسی سہولت فراہم کرکے مصروف کر دے۔ایپ بنانا ہمارے لئے چنداں مشکل نہیں.. یاد رہے ہاٹ میل بھی میسور(انڈیا) کے باشندے کی ایجاد تھی. جسے بعد میں اس سے خریدا گیا تھا۔
اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا ممکن بھی ہے.؟
جی ہاں… آپ اپنے بزنس پارٹنر چائنہ ہی کو لے لیں. انہوں نے اپنا سوشل میڈیا نیٹ ورک بنا رکھا ہے۔ وہاں فیس بک کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو فیس بک پر تھائی، جیپنیز، برمیز لڑکیاں تو ملیں گی لیکن چائنہ میں رہنے والی لڑکی بہت کم ہی ملے گی۔

Facebook Comments

ثناءاللہ
چترال، خیبر پختون خواہ سے تعلق ہے... پڑھنے اور لکھنے کا شوق ہے... کچھ نیا سیکھنے کی جستجو...

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply