تاریخ کے آئینے میں

دوسری جنگ عظیم کے بعد جب دنیا کی بندر بانٹ کی گئی تو اسکے اثرات آج تک دنیا میں نظر آتے ہیں۔1945ء میں ایک معاہدہ جسے تاریخ یلٹا معاہدے کے نام سے جانتی ہے وہ دراصل دنیا کی تقسیم اور اجارہ داری کے تسلیم کرنے کا ہی مطمع نظر تھا جس میں روز ویلٹ ، ونسٹن چرچل اور جوزف سٹالن کے درمیان دنیا کے مختلف حصوں پہ اجارہ داری کا فیصلہ کیا گیا تھا ، اسکے مطابق ہی پھر دنیا کے طاقتور حکمران طبقے نے فیصلہ جات کیے اور ہم چونکہ اسی دنیا کے نقشے پہ تھے تو ہم پہ بھی اس بندر بانٹ اور اجارہ داری کے قیام کے اثرات پڑے اور شاید باقی تمام خطوں کے مقابلے میں شدید ترین اثرات پڑے۔ (یہ بات یاد رکھنے کی ہے دوسری جنگ عظیم لڑی ہی منڈیوں اور نوآبادیات پہ اجارہ داری کے لیے گئی تھی) جس محل وقوع پہ ہمارا خطہ موجود تھا اس محل وقوع کی تقسیم کیلئے جو ہتھیار استعمال کیا گیا وہ دراصل 99 فیصد انسانوں کا حساس ترین مسئلہ ہوتا ہے یعنی “مزہب”۔ تاریخ کی کتابوں میں برصغیر کے اندر چلنے والی تحریکوں کو مسخ کر پڑھایا جانا بھی اسی جبر کے تسلسل کا ایک پہلو ہے ورنہ تو جب برطانوی سرکار اس خطے کی بلا شرکت غیرے حکمران تھی تو برصغیر میں بگھت سنگھ جیسے نوجوانوں کی اس خطے کے سرمایہ داروں جاگیر داروں کے خلاف بغاوت اور جدوجہد موجود تھی۔ ایک بگھت سنگھ ہی نہیں اس خطے میں کہیں اور تحریکیں موجود تھیں جن کا اس خطے کی تقسیم سے ہرگز کوئی مقصد پورا نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ اپنے کردار میں اس پورے خطے کو متحد اور دنیا کے نقشے پہ ایک عظیم ریاستوں کے مجموعے کہ طور پہ دیکھتے تھے۔ مگر شومئی قسمت ان تمام تر تحریکوں میں جو اپنے طور پہ خود رو اور عوامی تھیں درست نظریاتی مداخلت کی عدم موجودگی اور تنظیم کے فقدان نے انہیں ملک گیریت سے نا نوازا اور انہی خطوں میں تاریخ برد ہو گئیں جن خطوں سے انکا ابھار ہوا تھا۔ دوسری طرف جو تقسیم کرنے اور تقسیم کے زریعے اپنے مفادات کے حصول کے مطمع نظر کیساتھ عالمی اجارہ داروں کے ساتھ جڑے تھے ان لوگوں کے اپنے کردار جو ان ریاستوں کے قیام کے بعد تاریخ میں ہیں وہ انکی اپنی شخصیات کے تضادات سے بھرے ملتے ہیں۔ جیسے جناب محمد علی جناح جو بذات خود ایک مکمل لبرل اور سیکولر ذہنیت کے مالک تھے اور اوائل سیاست گری میں تقسیم ہند کے بدترین مخالف بھی وہ ایک مذہبی فکر کی ریاست کے بانی ٹھہرے اور دوسرے جناب گاندھی جی کٹر ہندو گاؤ ماتا کے موت سے اشنان کرنے پہ ایمان رکھنے والے متحدہ برصغیر کے حامی اپنی سیکولر ریاست بھارت کے بابائے قوم ہو جاتے ہیں۔ فکری تضادات نے دونوں اطراف میں اپنے رنگ دکھائے اور گاندھی جی کو گولی سے نوازا گیا اور جناح جی کو تبدیلی آب و ہوا کے نام پہ ایک پسماندہ خطے میں لے جا کر آخری ایام میں چھوڑا گیا اور ایمبولینس بھی وہ دی جو عجائبات میں رکھے جانے کے قابل تھی۔ بعض مورخین کے مطابق جناح صاحب کو ٹی بی کا مہلک مرض لاحق تھا اور بعض مورخ یہ کہتے ہیں کہ دراصل جناح صاحب کو سنکھیا زہر دیا جاتا رہا جو سلوپائزنگ میں اپنی مثال آپ ہی ہے۔ برحال ان دونوں ریاستوں کے داخلی انتشار کا بحران تقسیم سے جاری تھا اور آج تک موجود ہے۔
اس خطے میں بسنے والے مختلف مذہبوں سے منسلک انسانوں کی ایک مشترکہ تہذیب و ثقافت تھی جسے دو قومی نظریے کے نام پہ چیر دیا گیا جب کے اس خطے میں بین المذاہب سماج تھا جو ہزاروں سال سے چلا آ رہا تھا پھر برصغیر تقسیم ہوا کیوں تھا؟
جب برطانوئ سرکار کو عالمی جنگ کے بعد اپنا اقتدار برقرار رکھنا ناممکن نظر آنے لگا اور روس میں موجود انقلابی حاصلات کے اثرات اس خطے میں بھی نظر آنے لگے تو انگریز کے پاس سوائے اپنے انخلاء کے اس خطے کا کوئی مستقبل نہیں تھا لہذا اس نے برصغیر سے انخلاء کے طریقہ کار پہ غور کرنا شروع کیا اور اس کے بڑے دماغوں نے اسے مذہبی قومیتوں کی راہ دکھائی اور تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کے تحت اس خطے کو تقسیم کیا گیا۔ (پاکستان بننے کئ بعد 1951ء پنجاب میں جب انتخابات ہوئے وہ متنازعہ رہے اور صرف تیس فیصد ووٹران نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ NWFP میں بهی انتخابات دهندلی کے الزامات میں لپٹے رہے۔ 1953ء میں سندھ کا الیکشن بھی دھاندلی کے الزامات سے مشتہر ہوا۔ 1954ء میں بنگال کے اندر مسلم لیگ کو بنگالی متحدہ قوم پرست فرنٹ کے ہاتھوں شکست ہوئی یہ شاید دو قومی نطریے کی پہلی اعلانیہ نفی تھی۔)
یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ ہزاروں سال سے ایک ساتھ جڑے رہنے والے زیادہ عرصے تک اس عمل کو سمجھ نا پاتے اور یہ تقسیم برقرار رہ پاتی۔ برصغیر اپنے گرم پانیوں کے ساحلوں کی وجہ سے دنیا کی تجارت کے لیے کس قدر اہم ہے اس کی وضاحت کے لیے آج چین کا سی پیک منصوبہ ہی کافی ہے۔
انگریز سرکار نے دو ایسی لکیریں اسے خطے میں کھینچی ہیں جن کے اثرات آج تک رستے ناسور کی صورت موجود ہیں ایک ڈیورنڈ لائن اور دوسری ریڈ کلف کی تقسیم کی ڈیورنڈ لائن نے ثور انقلاب کے اثرات جو مشترکہ پشتون ثقافت کی وجہ سے اس خطے میں تبدیلی لا سکتے تھے روکے اور ریڈکلف نے کہیں قومی مسئلے پیدا کر دیے جن میں سے ایک مسئلہ ہمارا دیش ریاست جموں و کشمیر بھی ہے۔
ثور انقلاب کے کونسے اثرات مرتب ہو رہے تھے؟ اسکے لیے اتنا ہی کافی ہے کے کابل کے شہر کو ایشیا کا پیرس بھی کہا گیا اور ایسی منصوبہ بندی سے اسکی تعمیر ہوئی کے آج تک کابل میں ٹریفک سگنل نہیں ہیں اور کابل دنیا کا پہلا شہر تھا جس میں الیکٹرک سپلائی انڈرگراونڈ ہے ، صحت و تعلیم کی سہولیات اس قدر ترقی یافتہ تھیں کہ دنیا بھر سے طالب علم اپنی علمی پیاس لیے کابل کا رخ کر رہے تھے۔ اور یقینا علم اور سہولت شعور اور بڑھوتری کی راہیں کھولتے ہیں اور یہی اثرات روکنے میں ڈیورنڈ لائن کا اہم رول ہے۔
ریڈ کلف کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں جہاں ہندوستان کا مقامی اور انگریز سرمایہ دار طبقہ کار عمل میں نظر آتا ہے وہاں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا بھی برابر کی شریک تھی کیونکہ کمیون ازم ثقافتوں کے ادغام اور اشتراک کا نظریہ تھا ناکہ افراد کے انتہائی ذاتی فعل کی بنیاد پہ تقسیم کا نظریہ مگر چونکہ اس خطے پہ حضرت سٹالن کے ایک ریاست میں سوشلزم اور حضرت ماوزے تنگ کے قومی جمہوری لانگ مارچ کے اثرات تلے ایک کمیونسٹ پارٹی موجود تھی جس نے تقسیم کو تسلیم کرتے ہوئے خطے کی مشترکہ ثقافت کے قتل میں اپنا حصہ ڈالا۔ کسی نے ماسکو کی سنی اور خاموش رضامندی دی اور کوئی ماوزے تنگ کے مشورے سے چلن چلتا گیا۔ جب تقسیم عمل میں آ گئی تو پھر اسے برقرار رکھنے کو بھی اقدامات ضروری تھے ان اقدامات میں ایک اقدام ہے مسئلہ کشمیر جسے “قادیان کشمیر” کی حیثیت سے خود مختار بنانے کا فارمولہ آیا جس کے لیے چوہدری غلام عباس جیسے راہبروں کے کردار بھی تراشے گئے ، چونکہ اکثریت ختم نبوت کے ایمان والے تھے ان کو قادیان کشمیر قابل قبول نا تھا اس لیے یہ منصوبہ قابل عمل نا ہوا اور کشمیر کی جو عوامی تحریک تھی اسے مزہبی رنگ بھرا گیا اور آج ایک رستا ناسور دنیا کے نقشے پہ انسانیت کا منہ چڑا رہا ہے۔دوران تحریک جہاں ہندو دھرم کے ماننے والے کمزور تھے وہاں وہ مسلم جبر کا شکار ہوئے اور جہاں ہندو دھرم والے مضبوط تھے انہوں نے مسلمانوں کو زیرعتاب کر دیا۔ یہ تو تھی وہ گریٹ گیم جس کی وجہ سے آج تک ہم کشمیری ایک عالمی مسئلے سے ایک ضرب المثل تک بن گئے ہیں۔ اب عہد حاضر میں ترقی پسندوں کا کردار اگر تاریخ کے تسلسل میں رکھ کر دیکھا جائے تو
پہلے مرحلے میں ترقی پسندوں کا کردار سمجھنے کو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا تقسیم کے فارمولے کو تسلیم کر لینا ہی یہ وضاحت دینے کے لیے کافی ہے کہ ترقی پسند سوچ چیزوں کو اپنے اصل میں سمجھنے میں مکمل ناکام ہوئی اور اپنی ناکامی کی توجیح پیش کی جاتی ہے کہ مزہبی بنیادوں پہ اسقدر سماجی و شعوری تخریب کاری کر دی گئی تھی کہ متحدہ ہندوستان کی جدوجہد خون آشام جدوجہد ہوتی مگر کیا 27 لاکھ انسانوں کا قتل عام جو اس تقسیم کے دوران صرف پانچ ماہ میں کیا گیا اس سے زائد خون آشام ہوتی؟ جواب میں ترقی پسندوں کے ہاں گہری خاموشی ملتی ہے۔ وہ جو آزادی کے علم بردار تھے جن کو برطانوی سرکار کی ایماء حاصل تھی ان سے گلہ کیا وہ تو کھلے دشمن تھے مگر اپنی آستین میں لپٹے ہوئے محترموں کے جرائم کا مقدمہ کس عدالت میں پیش کیا جائے۔ تاریخ کی عدالت میں ہم بھی آئیں گئے تم بھی آؤ گئے پہ اتفاق کر لیتے ہیں۔ بعد از تقسیم پاکستانی زیر کنٹرول کشمیرکے اندر جہاں واضح طور پہ دو سیاسی سوچیں ایک جو مزہبی بنیادوں پہ پاکستان سے الحاق اور دوسری جو ایک آزاد خود مختار ریاست کے قیام کے داعی پہ مبنی تھی موجود تھیں۔ جو الحاق یا تکمیل پاکستان کے ایجنڈے کے مالک تھے ان کے کردار پہ تنقید کرنا اور گالم گلوچ کرنے سے ہم نے کونسا ترقی پسندانہ کردار ادا کیا۔ ترقی پسندی صرف قابضین کے خلاف جدوجہد کا نام ہرگز نہیں ہوتا بلکہ ترقی پسندی موجود حاصل شدہ معروض کی زمینی ترقی اور درست تاریخی حقائق کا باشعور انداز سے ایک حکمت عملی کے تحت اگلی نسلوں تک منتقلی کیساتھ اپنی شناخت کی لڑائی لڑنا بھی ہوتا ہے۔ جب ہم بھینس کیمپ (بیس کیمپ) کی طرف نگاہ دوڑاتے ہیں تو ترقی پسندوں کا کردار خود ترقی پسندوں کے ہاں ہی اس قدر متنازعہ ہے کہ وہ آج ستر سال گزر جانے کے بعد بھی کوئی مشترکہ حکمت عملی مرتب کرنے میں بری طرح ناکام نظر آتے ہیں ، شخصی اختلافات اس درجہ ہیں کہ ہر لیڈر خود کو درست اور دوسرے کو غدار اور ایجنٹ ثابت کرنے میں مصروف نظر آتا ہے۔ کوئی درست حکمت عملی نہیں جو خطے کے نوجوانوں کو درست لڑائی سے آگاہ کر سکے۔ سالانہ کروڑوں روپے کے فنڈز کی موجودگی میں بھی کوئی ترقی پسند لٹریچر دینے میں ناکام ترقی پسند اپنی ہر محفل میں ہر مباحثے میں ماضی کی شخصیات کو لیکر قبیلائی تعصبات اور گالم گلوچ تک کا سفر چند لمحات میں طے کر لیتے ہیں۔ دوسری طرف کشمیر میں 2010 کی سنگ بازوں کی تحریک کے زائل ہونے کے بعد شعوری کی بڑھوتری ہمہیں دیکھنے کو ملی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے نام سے جانی جانے والی تاریخ کی واحد منفرد تحریک سامنے آئی جس کی لیڈر شپ میں ہم نے کشمیری اور مسلمان طالب علموں کو دہلی کے نوجوانوں کے ساتھ مصروف عمل دیکھا۔ سوشل میڈیا پہ انکے موقف بڑے واضح اور بے باکانہ تھے ایک غیر مشروط انسانی آزادی کی لڑائی کا ، اپنے پہ قابض ریاست (جو دراصل اپنے بھی شہریوں پہ قابض ہی ہے صرف جبر کے ہتھکنڈے مختلف ہیں) کے خلاف دہلی کے ہندو طالب علموں کیساتھ رنگ ، نسل ، مزہب اور سرحدوں سے بالاتر انسانی آزادی کی لڑائی کا اعلان کرتے ہیں۔ انڈین جنرل ہڑتال میں لاکھوں کشمیری مزدور بھی ہڑتال کا حصہ بنے اور طبقاتی جڑت کا واشگاف اظہار عملی کر رہے ہیں۔ ہمیں امر ناتھ یاترا پہ یاتریوں کی حفاظت کرتے مقامی لوگ نظر آتے ہیں۔ برہان وانی شہید کے حادثے کیساتھ ابھرنے والی موجودہ تحریک جو اسقدر خود رو ہے کے کمسن بچے غلیل لیے بندوقوں کے سامنے کھڑے ہیں۔ خود برھان وانی جن کا تعلق ایک بنیاد پرست ملیٹینٹ دھڑے حزب المجاہدین سے تھا اپنے سوشل میڈیا اکونٹ پہ پنڈت بستیوں کے قیام پہ پوزیشن رکھتا کے ہم خود اپنے پنڈت بھائیوں کو تحفظ دیں گئے مزہب کے نام پہ بستیاں نہیں تعمیر ہونی چاہیے۔ کیا یہ حزب المجاہدین کا آفیشل موقف ہو سکتا ہے؟
انڈین کشمیر میں اگر نوجوانوں کا رخ ملیٹنسی کی طرف جاتا ہے تو وہ ان نوجوانوں کا قصور نہیں ہے، دراصل کشمیر کے ترقی پسندوں کا تاریخی جرم ہے کہ وہ کوئی ایسا سائنٹیفک پلیٹ فارم جو نوجوانوں کو درست منظم کرتے ہوئے ایک انقلابی تنظیم کا کردار ادا کرتا دے ہی نہیں سکے۔ نوجوان جو آزادی کی تڑپ رکھتے ہیں انکی بے لوث قربانیوں پہ اٹھنے والے عوامی ردعمل کی خود رو لہر کو دیکھ کر پاکستانی کنٹرول میں ترقی پسند اس قدر متذبذب ہو جاتے ہیں یہ سوچنا شروع کر دیتے ہیں یہ انڈین پرو ہے یا پاکستانی پرو تحریک؟ سنگ بازوں کی خود رو تحریک بھی درست منظم قیادت کی عدم موجودگی کی بھینٹ چڑھی تھی اور موجودہ تحریک جو سنگ باز تحریک سے کہیں شدید ابھار تھا جو تین ماہ سے زائد عرصہ کرفیو میں خود ساختہ ڈسپلن دکھاتے بھرپور عمل میں نظر آتے ہیں۔ پھر آخر یہ خود رو عوامی تحریکیں آخر زائل کیوں ہوتی ہیں؟ جب درست رہنمائی دینے والی منظم ترقی پسند تنظیم میسر نا آئے تو تحریکیں تھکن کا شکار ہو جاتی ہیں قیادت کا بحران بالاآخر تحریک کے زائل ہونے میں فیصلہ کن تحرک کے طور پہ سامنے آتا ہے۔ موقع پرستوں کے لیے یہی خلا انہیں مزید کاسہ لیسی اور پرو تحریک کا لیبل چسپاں کرنے کا راستہ مہیہ کرتا ہے۔ ترقی پسندوں کو اسں عدم یقین سے باہر نکلنا ہوگا اور عوام کے اندر خود کو کھڑا کرنا ہوگا تاکہ خود رو عوامی تحریکوں میں انکی مسلسل موجودگی سے قیادت کے فقدان کا خلا پر ہو سکے۔ سوال ہمارے سامنے یہ نہیں کہ سردار ابراہیم ، سردار عبدالقیوم ، شیخ عبداللہ ، علی گیلانی یا میر واعظ نے کیا کردار نبھایا۔ سوال یہ ترقی پسندوں نے اپنی ماضی کی سیاسی جدوجہد سے کچھ سیکھا ہے؟ کیا ہم عوامی حمایت حاصل کرنے میں آگے بڑھے ہیں؟ پاکستانی زیر کنٹرول خطے میں جہاں ایک وقت میں ترقی پسندوں کو لوکل گورنمنٹ کے اندر لینڈ سلائیڈ فتح حاصل ہوئی تھی وہاں آج 150 سے 2000 ووٹوں کا ملنا اور ضمانتوں کی ضبطگی ہماری ترقی پسندی کا بھانڈا سرے بازار پھوڑ دیتا ہے۔ اور ہماری چیخیں ایکٹ 74 کے خاتمے کے لیے بلند ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ پھر ایک راہ فرار ہوتی ہے کیونکہ ہر ترقی پسند جانتا ہے کے تبدیلی کا سرچشمہ دراصل عوامی قوت ہے اور کشمیر کے مسئلے کا حل بھی عوامی تحریک ہی کی صورت ممکن ہے۔ مگر عوام سے تو ایکٹ 74 نے ہمیں کاٹ ڈالا ناقابل فہم ہے یہ کہنا کہ الحاق کی شق کا حلف لیا جاتا ہے۔ جب جیب میں شناخت نامہ زیر تسلط ریاست کا اٹھائے ہیں تو اس شق کو وقتی طور پہ تسلیم کرتے ہوئے عوامی مسائل پہ مبنی سیاسی حکمت عملی اپناتے ہوئے وہ مینڈیٹ حاصل کرنا جو ایکٹ 74 اور کشمیر کونسل جیسے سفید ہاتھیوں کے خاتمے کا درست راستہ ہے اپنانا جائے اور بھلے نام نہاد پارلیمانی سیاست ہی سہی اسکے کیساتھ جڑ کر عوامی معیار زندگی کو بدلتے ہوئے شعوری طور پہ عوام کو ایک منظم بغاوت کی طرف لے جایا جائے۔ جب تک ریاست کی تقسیم کا خاتمہ عملی طور پہ ممکن ہوتا اس وقت تک کم از کم حاصل شدہ معروض کے اندر اپنا کردار ادا کرنے کے راستے ہموار کیے جاتے ، نوجوانوں کا شعور بلند کیا جاتا ، قابض نصاب کے مقابلے میں اپنا نصاب مرتب کرتے ہوئے حقیقی معنوں میں آزادی کی لڑائی کو لڑا جاتا ، مگر عوام سے کٹے ترقی پسند اپنی اپنی مسجدوں کے منبروں سے ترقی پسندی کا منجن بیچتے نظر آتے ہیں۔ کوئی مشترکہ مقصد نہیں عالمی انقلاب کے داعی لیون ٹراٹسکی نے لکھا تھا ” جب تک کوئی عظیم مقصد نا ہو تو انسان کہیں نا کہیں کبھی نا کبھی بک جاتا ہے جھک جاتا ہے” اور ہم آج ستر سال بعد بھی برائے نام عظیم مقصد آزادی کے نام نہاد نعروں کے ساتھ بند کمروں اور سوشل میڈیا پہ انقلاب کی لڑائی میں مصروف عمل نظر آتے ہیں۔ جبکہ انقلابی جدوجہد کے لیے معروض پہ موجود ہونا لازم ہے اور تحریک کی سب سے اہم ترین پرت نوجوان ہوتے ہیں انکی درست تربیت کا فریضہ ادا کرنا ترقی پسندوں کا اولین فریضہ ہوتا ہے۔ ہمارے خطے کے نوجوانوں کو ایسا کوئی لٹریچر مہیہ نہیں کیا جا رہا جسکو لیکر ہمارے خطے کے ترقی پسند کوئی فخر حاصل کر سکیں۔
مباحثے کے دوران تحریک کے حوالے سے ایک لفظ “غدر” زیر بحث آیا ، کے کشمیر میں جنگ نہیں غدر ہوا تھا۔ اردو زبان میں “غدر” کا لفظ بد عہدی دھوکہ دہی کے زمرے میں استعمال ہوتا ہے۔ “ہندوستان غدر” ایک ہفتہ وار شمارہ تھا جو ہندوستان غدر پارٹی کی جانب سے سان فرانسسکو میں یوگنتار آشرم کی سرپرستی شائع کیا جاتا تھا۔ اس کا مقصد ہندوستان کی ازادی کی تحریک کے عسکریت پسند اور قوم پرست گروہ کو آگے بڑھانا تھا، خاص طور پر برٹش انڈین آرمی کے ہندوستانی سپاہیوں کو۔ اور کشمیر میں عوامی بغاوت کی زیادہ تر قیادت برٹش انڈین آرمی کے سابق اور حاضر لوگ تھے جو اپنے کمانڈنٹ کے حکم کی تعمیل کروں گا کے خلف سے بد عہدی کرتے ہوئے برٹش کمانڈنٹ کے خلاف باغی بن کہ کھڑے ہوئے تھے غدر ہی ہوا تھا۔ آج ہم تاریخی غدر کے مرتکب ہو رہے ہیں آج کشمیر کے نوجوان منشیات کے آشرم میں سکون حاصل کرتے ہیں اور کشمیری نوجوانوں کے ذہنوں میں جنت کے اناروں کے خواب بوئے جاتے ہیں اسکی وجہ ترقی پسند قوتوں کا درست حکمت عملی سے عاری شخصیات کے گرد گٹھ جوڑ اور الزام تراشیوں پہ مبنی سیاست ہے۔ ترقی پسندوں کے پاس نوجوانوں کو اپنے طرف متوجہ کرنے کے لیے کوئی ایسا نظریہ نہیں جو انہیں ایک منظم جدوجہد میں پروہتے ہوئے حتمی لڑائی سے روشناس کرے۔ اس ساری صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے ترقی پسندوں کو عوامی مسائل پہ مبنی سیاست کی طرف بڑھنا ہوگا اور نوجوانوں کو گزشتہ رہبروں سے نفرتوں کا علاقائیت و قبیلائیت سمیت دیگر تعصبات کا درس دینے کے بجائے اپنا تاریخی فریضہ نبھانا ہوگا اور نوجوانوں کو یہ تربیت دینا ہوگی کے ہماری لڑائی کسی زمینی سرحدی آزادی کے لیے نہیں بلکہ ہماری لڑائی طبقات و استحصال سے پاک سماج کے حصول کی ہے جس میں گورے کو کالے پہ کسی عربی کو کسی عجمی پہ کسی طرح کی کوئی فوقیت حاصل نہیں ہو گی۔ محنت ضرورت کی تکمیل سے مشروط ہوگی نا کہ استحصالی طبقے کے منافع کے لیے کی جائے گی صحت تعلیم روزگار رہائش ریاست کی زمہ داری ہوگی۔ دوسری قوموں سے طبقاتی جڑت بنانی ہوگی ناکہ پاسپورٹ بنوا کر ترقی یافتہ ملکوں یا عرب صحراؤں کو گلزار کرنا زندگی کا مقصد ہو جائے۔ آخر میں تمام دوستوں سے گزارش کروں گا کے اپنی اپنی بساط میں عوامی پرتوں کے اندر جائیے اور وہ عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کریں جو ریاست جموں و کشمیر کے لاکھوں انسانوں کی نجات کا واحد ہتھیار ہوگی۔ بنا عوامی طاقت کے نا روس USSR بن سکتا تھا اور نا ہی ماوزے تنگ چائنیز قوم کا عظیم رہبر۔ اگر رہبری کرنا اور اپنی قومی شناخت اور انسانی آزادی کا حصول مطمع نظر ہے تو پھر اسے عوامی بنیادوں پہ استوار کرنا ہی دراصل ترقی پسندوں کا اصل کردار بنتا ہے۔

Facebook Comments

عاصم اختر
عاصم اختر سیاسی طور پہ ایک مارکسسٹ طبقاتی جدوجہد میری سیاسی پہچان راولاکوٹ آزاد کشمیر میرا آبائی دیس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply