سیاست عورت اور گالیاں!!!

سیاست عورت اور گالیاں!!!
مراد سعید اور جاوید لطیف کے جھگڑے میں جس طرح مسلم لیگ ’’ن‘‘ نے عورتوں کے بارے میں اپنے روایتی کردار کا مظاہرہ کیا ہے وہ انتہائی شرم ناک ہے۔ آج پاکستان کی اکثریت کو میڈیا تک رسائی حاصل ہے اور کوئی بھی واقعہ فورا ہی ان تک پہنچ جاتا ہے۔ ماضی کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ چاہے کوئی سی بھی مسلم لیگ ہو، آج کی عورت کے بارے میں ان کی رائے انتہائی خراب رہی ہے۔ 1988 میں پیپلز پارٹی کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد کے قیام سے لے کر آج تک ہر مسلم لیگی نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی مخالفت میں پڑھی لکھی اور دبنگ عورت کو اشاروں اشاروں میں نشانہ بنانے اور اس کی توہین کرنے پر ملکہ حاصل کر رکھی ہے۔ 1988 اور 1990 کے عام انتخابات میں جب آئی جے آئی کا انتخابی نشان سائیکل تھا تو انتہائی واہیات اشاروں اور تشبیہات سے محترمہ نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے کردار کونشانہ بنایا گیا۔ لاہور میں جہازوں کے زریعے فحش پوسٹر گرائے گئے۔ جلسوں میں فرزند ضیاالحق، شیر راولپنڈی اور اسلام کے محافظ بٹ صاحب نے وہ وہ کچھ کہا کہ جسے دوہرانا بھی گناہ ہے۔ کتنی عجیب بات تھی کی جب ساری دینا بے نظیر بھٹو کو کسی اسلامی ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم کا اعزاز حاصل ہونے پر خوش تھی عین اسی وقت پاکستان کی ’’مردانگی‘‘ پر قہر ٹوٹ رہا تھا۔ یہ وہ پدر شاہی سوچ ہی تھی جس نے اس وقت کے مرد آہین جرنل حمید گل کو یہ ٹاسک دیا گیا کہ ارض پاک کو ترقی پسندی کی بیماری سے نجات دلوائی جائے۔ ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ کہیں ضیاالحق کی11 سالہ محنت رائیگاں نا چلی جائے۔ اس وقت اس نیک کام کیلئے مسلم لیگ، نیشنل پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کا انتخاب کیا گیا۔ اسلام، مردانہ ذہنیت اور جاگیر دارانہ نظام کا یہ مرکب (اسلامی جمہوری اتحاد) 1990 کے انتخابات میں ترقی پسندی کے خلاف ایک مہلک ہتھار ثابت ہوا۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1988 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے 94 اور آئی جے آئی نے صرف 56 نشتیں حاصل کیں۔ اتحاد کی زیادہ تر سیٹیں پنجاب سے آئیں تو مسلم لیگ کی بھاگ دوڑ بھی نواز شریف کے ہاتھ آگئی۔ پھر پیپلز پارٹی پر کرپشن کا آسیب در آیا۔ اس بات کا فائدہ اور1990 میں یہ نتیجہ الٹ ہو گیا۔ آئی جے آئی نے106 اور پیپلز ڈیموکریٹک الائنس نے قومی اسمبلی کی صرف44 سیٹیں ملیں۔ یہ ہی وہ انتخابات تھے جس کے نتیجے میں ملک کو نواز شریف کی شکل میں ایک نیا وزیر اعظم ملا۔
مسلم لیگ نے اسلام کی سربلندی اور مردانہ انا کی تسکین کا یہ سلسلہ 1993 اور 1997 کے انتخابات میں بھی جاری رکھا۔ 1999 میں جرنل مشرف کے خلاف بیگم کلثوم نواز شریف کی جدوجہد مسلم لیگ (ن) کا ایک منفرد باب ہے۔ اس وقت جب سب مسلم لیگی مردوں کی انا بھنگ پی کر سو گئی تھی یا بھی ٹوپی اور برقعہ پہن کر بھر اقتدار میں شامل ہو گئی تھی، بیگم کلثوم نواز اور محترمہ تہمینہ دولتانہ نے پارٹی کا علم بلند کیا۔ لیکن بعدکی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ان دو خواتین کی جدوجہد کے صفحات بھی مسلم لیگ کی کتاب سے اس طرح ہی سفید ہو گئے جیسے پا نامہ کیس میں کچھ ورق خالی نظر آئے ہیں۔ اس طرح مسلم لیگ نے اپنی خواتین کو سیاست سے الگ کر کے پھر سیاسی مخالفین کی عورتوں کو تختہ مشق بنا لیا۔
پی ٹی آئی کی مقبولیت پر پھراس کے خلاف اسی آزمودہ نسخہ کیمیا کا استعمال شروع کر دیا گیا۔ عمران خان کی زاتی زندگی، اس کے مغربی رہن سہن کو ایسے ہی نشانہ بنایا گیا جیسے کبھی بے نظیر بھٹو کو بنایا جاتا تھا۔ دو سال سے ایان علی کا کیس بھی سب کے سامنے ہے کہ کس طرح اس کی نسوانیت کا اشتہار لگایا گیا۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس گھٹیا سوچ کا اظہار ہمارے لوگوں میں، مسجد کے ممبر سے، مدرسے کی تعلیم میں، میڈیا کی رپورٹنگ میں، پولیس اور عدلیہ کی کارروائی میں اور ایک دوسری بڑی سیاسی جماعت پی ٹی آئی میں بھی اسی طرح پایا جاتا ہے۔ ظاہری طور پر ماڈرن نظر آنے والی پی ٹی آئی کی سوچ کسی طور پر بھی مسلم لیگی گھٹیا سوچ سے کم نہیں۔ اسی جماعت کے کارکن سوشل میڈیا پر بلاول بھٹو کا جس طرح مذاق اڑاتے ہیں وہ بھی مردانہ انا پرستی اور پدر شاہی نظام کا ہی مظہر ہے۔ حنا ربانی کھر اور مریم بی بی کو بھی اکثر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس وقت بی بی مریم نواز بھی انتخابی سیاست میں آنے کیلئے بے تاب ہیں۔ ایسے میں ان کی پارٹی کی سوچ اگر نہیں بدلتی تو پھر ان کے ساتھ پی ٹی آئی بھی کچھ ایسا ہی سلوک کرتے ہوے نظر آ رہی ہے جو مسلم لیگ ماضی میں بے نظیر بھٹو کے ساتھ کیا کرتی تھی۔ ہو سکتا ہے کل اس کا نشانہ بی بی آصفہ اور بی بی بختاور بھی بن جایئں۔کرپشن کے داغوں کے بعد اب ن لیگ کے پاکی دامن پر عورتوں کی بے حرمتی کرنے کا داغ بھی اب نمایاں ہو گیا ہے۔
میری ترقی پسند سیاسی راہنماوں، خواتین پارلیمنٹیرین، اور چند درد مند اور عقل مند صحافیوں سے دست بدستہ گزارش ہے کہ وہ ملکی سیاست میں عورت کو گالی دینے والوں کو نشان عبرت بنا یئں۔ جاوید لطیف کی قومی اسمبلی کی رکینیت فوری طور پر ختم کر کے ایک مثبت پیغام دیا جا سکتا ہے۔ لیکن نواز شریف سے اس جرات مندانہ فیصلے کی توقع کرنا ایسے ہی ہے جیسے پنجاب پولیس سے یہ توقع کر لی جائے کہ وہ اب سے رشوت نہیں لے گی۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ کوئی انہونی ہو جائے۔ بظاہر نیم دلانہ مذمت کر کے بات رفع دفع کر دی جائے گی۔ اورکچھ عرصہ بعد ہم سب اس مسلے کو بھول جائین گے جیسے طیبہ کیس کو بھول گئے ہیں

Facebook Comments

عبیداللہ چوہدری
ابلاغیات میں ماسٹر کرنے کے بعد کئی اردو اخباروں میں بطور سب اڈیٹر اور روپوٹر کے طور پر کام کیا۔ گزشتہ18سال سے سوشل سیکٹر سے وابستگی ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply