فلیٹ ارتھ حقیقت یا افسانہ؟ ۔۔محمد شاہزیب صدیقی/قسط 3

(فلیٹ ارتھرز کے 200 اعتراضات کے جوابات پر مبنی سیریز)
اعتراض 26: اگر زمین سپن کررہی ہوتی تو جہاز کی رفتار پر لازمی اثر پڑتا۔
جواب:جہاز چونکہ زمین کے فریم آف ریفرنس میں موجود ہے لہٰذا زمین کی گردش کے باعث اس کی رفتار پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔جیسے آپ چلتی بس میں گیند اچھالیں تو گیند آپ کے پاس ہی واپس آئے گی نہ کہ دوسرے مسافر کے پاس چلی جائے گی۔

اعتراض27:اگر زمین سپن کررہی ہوتی تو ہوائی جہازوں کی لینڈنگ ناممْکن ہوتی۔
جواب:اعتراض نمبر 26 دیکھیے۔

اعتراض 28:اگر زمین واقعی سپن کررہی تو بادل کیسے اِدھر اُدھر جاتے ہیں اور ہوائیں کیسے چلتی ہیں؟
جواب:یہ سچ ہے کہ آپ، میں، پودے، جانور، عمارتیں، بادل اور ہوائیں سب کچھ زمین کے frame of reference میں move کررہے ہیں، لیکن یہ فرق سمجھنا چاہیے کہ ہوائیں اور بادل زمین کے سپن کرنے کے باعث اِدھر اُدھر نہیں جاتے بلکہ ہوائیں اس وقت چلتی  ہیں جب سورج کی وجہ سے ہوا گرم ہو کر اوپر اٹھتی ہے اور ٹھنڈی ہوا اس کی جگہ لینے اس علاقے میں پہنچ جاتی ہے۔ بادل بھی ہواؤں کی وجہ سے moveہوتےہیں۔ مزے کی بات یہ سب کشش ثقل کی وجہ سے ہے جس کا انکار فلیٹ ارتھرز علی الاعلان کرتےہیں، اگر کشش ثقل موجود نہ ہو تو گرم ہوا اوپر نہیں اٹھے گی، یہاں پر یہ اعتراض اٹھایا جاسکتا ہے کہ کشش ثقل موجود ہے تو گرم ہوا اوپر کیوں اٹھتی ہیں؟ گرم ہوا کے اوپر اٹھنے کی وجہ ہی یہی ہے کہ ٹھنڈی ہوا بھاری ہوتی ہے تو کشش ثقل کے باعث وہ نیچے آجاتی اور گرم ہوا کو اوپر اٹھنا پڑتا ہے ۔ لہٰذا یہ ہوائیں اور بادل تو کشش ثقل کا ثبوت ہیں۔

اعتراض 29:اگر زمین سپن کررہی ہوتی تو اس کا مشاہدہ یا احساس کسی نے تو کیا ہوتا۔
جواب:اس کے مشاہدات کئی سو سالوں سےکئے جارہے ہیں۔ اس کا مشاہدے کرنے کے لئے سب سے بہترین طریقہ Foucault pendulum ہے جو آج بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

اعتراض 30:مختلف بلندیوں پر ہوا کا رخ مختلف ہوتا ہے جس سے ثابت ہوا کہ زمین سپن نہیں کرتی۔
جواب:ہوا کا مختلف بلندیوں پر مختلف سمتوں میں سفر کرنا atmospheric pressure اور درجہ حرارت میں تبدیلی کے باعث ہوتا ہے۔

اعتراض31:ایک پتنگ کا اڑنا بھی زمین کو ساکن ثابت کرتا ہے، زمین سپن کرتی ہوتی تو 1600 کلومیٹرفی گھنٹہ کی رفتار سے ہوا چلتی رہتی۔
جواب : دیکھئے اعتراض نمبر 28۔

اعتراض 32:اگر کشش ثقل نامی جادوئی چیز واقعی موجود ہوتی تو پرندے کیسے اڑتے؟
جواب: پرندے ہلکے جسم کے حامل ہوتے، جس کے لئے انہیں اوپر اٹھنے کے لئے اپنے پروں کو استعمال کرتے ہوئے کم فورس لگانی پڑتی اس کے علاوہ ہوا ان کو اڑنے میں مدد فراہم کرتی ہے ۔ 21ویں صدی میں رہتے ہوئے پرندوں اور ہوائی جہاز کو اڑتا دیکھ کر کشش ثقل کا انکار کردینا انتہائی مضحکہ خیر ہے ۔

اعتراض 33:اگر زمین واقعی گول ہوتی تو کیا وجہ ہے کہ اتنے بڑے سمندر کو اپنے گرد لپیٹ رکھا ہے مگر اس میں موجود مچھلیاں باآسانی تیر سکتی ہیں۔
جواب: یہاں پر فلیٹ ارتھرز جاندار اور بے جان اشیاء کے موازنے کروا کر اپنی “عقلمندی” کا ثبوت فراہم کررہے ہیں لیکن ان حضرات کی تسکین کے لئے ہم فرض کرلیتے ہیں کہ اگر سمندر زندہ ہوتا تو پھر کیا ہوتا۔ہمیں معلوم ہے کہ زمین پرg (گریوٹی کیvalue) 9.8 ہے۔اس کا مطلب ہے کہ ایک چیز جس کا ماس 10 کلو ہے اس پر زمین کی کشش ثقل 98 نیوٹن کی طاقت لگائے گی اسی طرح ایسی چیز جس کا ماس 2 کلو ہوگا اس پر کشش ثقل 20 نیوٹن کی طاقت لگائے گی۔اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے چونکہ مچھلیوں کا ماس انتہائی کم ہے جبکہ سمندر کا ماس انتہائی زیادہ ہے سو کشش ثقل کا اثر سمندر پر زیادہ ہوگا اور مچھلیوں پر کم ہوگا۔

اعتراض 34:بحری جہاز کے سفر کے دوران کبھی زمین کی گولائی کو خاطر میں نہیں لایا جاتا ورنہ اس کے انتہائی خطرناک نتائج برآمد ہوتے۔
جواب:یہاں پر اعتراض کرنے والے جھوٹ کا سہارا لے رہے ہیں، sextant نامی ایک آلہ ہے جس کے ذریعے آپ ستاروں کو دیکھ کر اپنی location معلوم کرسکتے ہیں، بحری جہاز کے سفر کے دوران اسی آلے کی مدد سے اپنے longitudinal اور latitudinal پوائنٹس معلوم کیے جاتے ہیں جوکہ زمین کے گول ہونے کا ثبوت ہے۔

اعتراض 35:زمین کو گول ماننے کی وجہ سے کئی بحری جہازوں سے سنگین غلطیاں بھی ہوئیں۔
جواب:اس اعتراض کی حقیقت اس بات سے واضح ہوجاتی ہے کہ فلیٹ ارتھرز اب تک اس ضمن میں ذکر کیے جانے والے واقعات کے معتبر و مستند حوالے نہیں دے سکے، اعتراض 34 کے جواب میں اس متعلق لکھا جاچکا ہے۔

اعتراض36:مختلف علاقوں کا سفر کرنے والے Captain James Clark Ross نے اپنے سفرنامے میں ایک جگہ لکھا کہ وہ ایک سفر کے دوران زمین کو گول سمجھ کر راستے سے بھٹک گئے۔
جواب: کیپٹن کے اس مضمون اور سفرنامے کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیاجس کے ذریعے اس مضمون کی تفصیل کو پڑھا جاسکے اور نہ ہی انٹرنیٹ پر یہ کہیں سے تفصیلاً مل سکا، لیکن ان کے اس سفر کے متعلق غالب گمان یہی کیا جاسکتا ہےکہ coordinates کو ٹھیک نوٹ نہ کرلینے کی وجہ سے کیپٹن راستے سے بھٹک گئے ہوں گے۔

اعتراض37:لیفٹیننٹ Charles Wikes کا دعویٰ ہے کہ زمین گول سمجھنے کی وجہ سے کئی بار وہ راستے سے بھٹک گئے۔
جواب: مذکورہ لیفٹیننٹ کے متعلق کوئی ریکارڈ، حوالہ کہیں موجود نہیں کہ کون تھے اور کیسے بھٹکے اسی خاطر اعتراض 36 کا جواب دوبارہ ملاحظہ کیجئے ۔

اعتراض 38:Reverend Thomas Miller لکھتے ہیں کہ اکثر جہازوں کو جنوبی کرہ کی جانب navigation کے دوران مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، 1845 ء میں Challengerاور Conqueror نامی جہاز اسی وجہ سے گم ہوگئے تھے۔
جواب:یہاں پر دوبارہ فلیٹ ارتھرز غیرمستند مواد کو استعمال کرتے ہوئے خیالی ناموں اور کہانیوں پر اکتفا کررہے ہیں، 1861ء میں conqueror نامی بحری جہاز navigation error کے باعث ڈُوبا تھا لیکن تمام عملے کو بچا لیا گیا تھا ، اس کے ڈوبنے میں عملے اور کپتان کی غلطی کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔اس کے علاوہ آج سے 170 سال پہلےکی ٹیکنالوجی اور آج کی ٹیکنالوجی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ لہٰذا اُس وقت کے واقعے کو فلیٹ ارتھ کا ثبوت قرار دے دینا عوام کو گمراہ کرنے کے سوا کچھ نہیں ۔

اعتراض39:آسٹریلیا کے بحری بیڑے کی ڈائریکٹری Almanac میں نیلسن اور سڈنی کا فاصلہ سیدھی لکیر کی شکل میں 22 ڈگری کے فرق سے 1550 میل لکھا گیا ہے اس حساب سے زمین کا Circumference نکالا جائےتو پوری زمین سے بڑاآتا ہے، جس سے ثابت ہوا کہ زمین گول نہیں بلکہ سیدھی ہے۔
جواب: فلیٹ ارتھرز یہاں بھی حسبِ روایت بات کو توڑ مڑور کر پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں آسٹریلین بحریہ کی مذکورہ کتاب میں سڈنی سے نیلسن تک کا فاصلہ shortest distance کے طور پر ظاہر نہیں کیا گیا ۔ اگر تحقیق کی جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سڈنی سے نیلسن تک سفر کرنے کے لئے ہمیں جنوب مشرق کی جانب جانا پڑتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہےکہ دونوں ایک ہی latitude پر واقع نہیں ہیں، بلکہ ان کے مابین 19.8 ڈگری کا فرق ہے لہٰذا اس فاصلے سے زمین کا circumference معلوم کرلینا کسی عامل جوگی بابا کا ہی کام معلوم ہوتا ہے۔ اگر زمین کی صحیح گولائی معلوم کرنی ہے تو اس کے لئے ہمیں equator پر موجود صفر ڈگری longitude کے ذریعے فاصلے کو ناپنا پڑے گا۔اس کے علاوہ کہیں اور سے زمین کی صحیح گولائی معلوم نہیں ہوپائے گی ۔

اعتراض 40:چلی سے کیپ ہارن تک کا فاصلہ 143 ڈگری کے ساتھ 10.5 ہزار میل ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہےکہ 360 ڈگری پر زمین 26,430 میل بنتی ہے ، جبکہ equator پر 25 ہزار میل ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین درمیان سے پتلی اور کناروں سے موٹی ہے جو کہ ناممکن ہے سو ثابت ہوا کہ زمین گول نہیں بلکہ سیدھی ہے۔
جواب: بالکل اعتراض 39 کی طرح دوبارہ فلیٹ ارتھرز غلط measurements اور angles لے کر اپنی کم عقلی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ equator کے علاوہ latitude کے کسی پوائنٹ سے بھی زمین کی گولائی کو نہیں ناپا جاسکتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اعتراض41:کیپ آف گُڈ ہوپ اور ملیبرن کے درمیان فاصلے اور اینگل سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کا قطر 25 ہزار میل نہیں بلکہ 25.5 ہزار میل ہے۔
جواب: اعتراض 39 اور 40 والی غلطی دوبارہ دہرائی جارہی ہے۔
(جاری ہے)
قسط نمبر 2 میں موجود اعتراضات کے جوابات پڑھنے کے لئے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجئے
https://www.mukaalma.com/20198

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”فلیٹ ارتھ حقیقت یا افسانہ؟ ۔۔محمد شاہزیب صدیقی/قسط 3

Leave a Reply