انتخاب

انتخاب
طاہر یاسین طاہر
کیا لکھا جائے اور کیا نہیں؟کیسے لکھا جائے اور کیونکر؟ قدرے آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔گہرے موضوعات ہمیشہ وقت مانگتے ہیں البتہ سطحی نہیں۔گاہے موضوعات ساون کی جھڑی بن کے اترتے ہیں،تو کبھی اخبار نویس دور کی کوڑیاں لا کر اپنے حصے کا کام بادل نخواستہ کرتا ہے۔اخبار نویس کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اسے قریب قریب تمام موضوعات پہ ہی لکھنا پڑتا ہے۔اس لیے کئی موضوعات اور حالات حاضرہ پہ اس کی رائے حتمی نہیں ہوتی البتہ حتمی رائے کے قریب تر تو ضرور ہی ہوتی ہے۔سارے دانش ور کالم نگار نہیں ہوتے البتہ ہر کالم نگار تو خود کو لازمی دانش ور سمجھتا ہے۔جدید” دانشی رویے” کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ ہر چیز میں سے کیڑے نکالے جائیں۔”جدید دانش “اپنی کامرانی کے لیے اس بات کو ضروری سمجھتی ہے کہ تنقید لازمی لکھی جائے۔موضوع کے سر پیر کا علم ہو یا نہ ہو۔کچھ تو اپنی تحریر کی ابتدا ہی صدر ہاوس،وزیر اعظم سیکرٹریٹ یا اپوزیشن لیڈر کے گریبان سے کرتے ہیں۔مذہبی رہنماوں اور ریاستی اداروں کو لتاڑنا بھی ایک اہم اور واجب حصہ سمجھ لیا گیا ہے۔
یہ انتخاب دانستہ کیا جاتا ہے۔انفرادیت برقرار رکھنے کے لیے۔اس کا منفی اثر مگر یہ ہوتا ہے کہ سارے” جدید دانشی “یونہی انفرادیت کے چکر میں ایک دوسرے کے قریب ہو جاتے ہیں۔اس غیر ارادی قرب کی مشترک چیز البتہ سب میں ایک سی ہے۔معاملے کی مختلف جہات پر غور و فکر کرنے کے بجائے سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے بہاو میں خود کو بہا دینا۔ یوں تحقیق و جستجو کا فقدان لازمی ایک پھیکی اور بےمزا و بے نتیجہ تحریر کی صورت سامنے آتا ہے۔ نئے لکھنے والوں کا ایک المیہ یہ ہے کہ وہ کتاب پڑھنے کو جرم سمجھتے ہیں۔وہ یہی سمجھتے ہیں کہ یا تو کلی طور کسی معاملے کے حق میں لکھنا ہے یا پھر کلی طور مخالفت میں۔موضوع کا انتخاب کرتے ہی ذہنی رحجان مہمیز کرتا ہے کہ اسے یوں لکھا جائے۔آخرکیوں؟ اس لیے کہ مطالعہ کی عادت نہیں۔ غور و فکر کو خدا حافظ کہا جا چکا ہے۔مثلا ً پی ایس ایل،دہشت گردی،دہشت گردوں کے سہولت کار،افغانستان سے ہونے والے حملے اور پاک افغان سرحد کی بندش۔فاٹا کا کے پی کے میں ضم کرنے کا حکومتی فیصلہ۔
یہ وہ گرما گرم موضوعات ہیں،یا تو ان کے مکمل حق میں لکھا جاتا رہا یا مکمل مخالفت میں۔ سوائے چند یک کے جنھوں نے زمینی حقائق کو مدنظر رکھا۔پی ایس ایل تو خیر تازہ معاملہ تھا جو الحمد اللہ بخیریت نمٹ گیا۔ اصل معاملہ دہشت گردی ہے اور بے شک اخبار نویس و تجزیہ کار اس دہشت گردی کے خلاف نئے ریاستی بیانیے کی پرورش کرنے میں کامران نہیں ہو سکے۔ محدودے چند البتہ ایسے ہیں جن کی شروع دن سے دہشت گردی کے بارے رائے ایک سی رہی اور انھوں نے اس عفریت کے پالنے والوں کو قابو کرنے کی بات کی۔بیشتر وقت کی دھار دیکھ دیکھ کر لکھتے رہے۔ مثلاً کئی ایک نے لکھا ،کالعدم تحریک طالبان اور اس نوع کی دیگر دہشت گرد تنظیموں کو رعایت دے کر ان سے مذاکرات کیے جائیں۔ ملا فضل اللہ جو کہ پاکستان کا مطلوب دہشت گرد ہے اس کی نرم دلی اور اس کے حق میں صفحات سیاہ کیے جاتے رہے۔یہاں تک کہ اے پی ایس پشاور کا غم ناک واقعہ پیش آ گیا۔اب ان لکھنے والوں یا ان کے پیروکاروں کا انتخاب مختلف تھا۔پہلے ان کا انتخاب دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے لیے ریاست کو قائل کرنے کی “قلم کمائی “تھی ،اب انھوں نے پینترا بدلا اور مظلوم کے ساتھی بن گئے۔ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ ٹی وی واخبارات میں بیشتر تجزیہ کار بڑی مہارت سے نام نہاد” عالمی اسلامی خلافت” کے قیام کے لیے ذہن سازی کر رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کی یہ قسم منجھے ہوئے تجزیہ کار ہیں جن کی پیروی ،نئے لکھنے والے بنا تحقیق و جستجو کرتے ہوئے معتدل راستے سے بھٹکتے چلے گئے۔یہ ان کا دانستہ انتخاب ہے جس کی قیمت وہ خود بھی چکا رہے ہیں اور سماج بھی۔ اخبار نویس کی ایک مجبوری زود نویسی ہے۔مانا کہ زود نویسی میں تحقیق و جستجو کا پہلو لازمی متاثر ہوتا ہے۔مگر یہ کیسی مجبوری کہ تجزیہ کار اپنے موضوع کے اجلے پہلووں سے بھی انصاف نہ کر سکے؟اس میں بڑا قصور قاری کا بھی ہے۔ وہی اپنے لکھاری کو بڑا بھی بناتا ہے اور گم نام بھی کر دیتا ہے۔قاری کی ترجیحات اگر تجزیہ کار یا اخبار نویس طے کرتا ہے تو یقین جانیئے کہ اخبار نویس کی نفسیات سے قاری بھی کھیل جاتا ہے۔اگر قاری اپنے لکھنے والے کا انتخاب کرنے کے بعد اس کی جانب سے رقم کردہ تاریخی واقعات اور تجزیہ کاری کی صلاحیت پر سوال اٹھاتا رہے تو لکھنے والااپنے لیے سطحی موضوع کے بجائے گہرے موضوعات کا انتخاب کرے گا۔گہرے موضوعات کا انتخاب لازمی طور لکھاری کو مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ اپنا رشتہ کتاب سے مضبوط تر کر دے۔یوں سماج میں ایک منطقی اور فلسفیانہ سوچ پروان چڑھتی ہے ،جو خواہ مخواہ کے تقلیدی رویوں کو رد کرتی ہے۔زندہ و بیدار سماج اپنے دماغ کے لیے گہرے موضوعات اور صاف ستھرے لکھنے والوں کا انتخاب کرتے ہیں۔تاریخ کے اوراق میں شہ کے مصاحب البتہ قصائد خوان ہی لکھے جاتے ہیں جبکہ تجزیہ کار اس سے ایک بلند شے کا نام ہے جو زمینی حقائق سے ہم آہنگ ،اور لسانی،جنسی،مذہبی و مسلکی تعصبات سے بالاتر ہو کر اپنے قلم کے راہوار کو ایڑ لگاتا ہے۔آخر الذکر ہی منزل مراد پاتا ہے اور یکسوئی سے محنت کرتے ہوئے اپنے لیے بیدار مغز قارئین کا حلقہ بھی پیدا کر لیتا ہے۔بس موضوع کے انتخاب میں احتیاط اور اندھی تقلید سے گریز لازم ہے۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply