• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • افغانستان طالبان اور عالمی سیاست (حصّہ اوّل)۔۔۔ڈاکٹر محمد علی جنید

افغانستان طالبان اور عالمی سیاست (حصّہ اوّل)۔۔۔ڈاکٹر محمد علی جنید

افغانستان طالبان اور عالمی سیاست (حصّہ اوّل)/خراسان کا علاقہ :ایک نادر بحث:

خراسان،اور وسطی ایشیا کے علاقہ جات زمانہ قدیم سے ہم جانچتے ہیں کہ وسطی ایشیا سے ایشیا اور وہاں سے  یورپ ہجرت کرکے جانے والوں کے لئے ایک ابتدائی ہجرتی راہداری کی حیثیت کے حامل رہے ہیں، چنانچہ  زمانہ قدیم سے وسطی ایشیا سے ہجرت کرنے والوں کے خانہ بدوش قافلے مختلف سفری،رہائشی اور سکونت کی منازل اختیار کرتے رہے ہیں  لہذا ،کوئی وسطی ایشیا سے شمال مغربی علاقوں میں رہائش پذیر ہوگیا، تو کسی نے پنجاب میں سکونت اختیار کرلی ،کوئی  پنجاب سے وسطی ہندوستان تک ہجرت کرکے وہاں  کے  ماحول کو اپنے ماحول سے متاثر کرکے یا تو مقامی  کو ہوگیا  یا مقامیت کو خود میں سمو لیا۔

جیسے ویدک دور اور مابعد ہم دیکھتے ہیں قیاساً آریائی قبائل میں سے   کوئی  یا تو ایران و ترکی کو بطور راہدادی اختیار کرتا ہوا یورپ نکل گیا۔یا پھر  کچھ نے تبت و کاشغر سے راہ پاکر گلگت و بلتستان کے علاقوں میں سکونت اختیار کرلی،یعنی ایک طرح سے  ہماری کُل دنیا ایک دارالحجرت رہی  ہے، یہاں فرق صرف اتنا  رہا ہے کہ کسی کی ہجرت زمانہ قدیم سے جدید تک کسی علاقے میں طویل قیام کے سبب مقامی باشندگی میں بدل چکی ہے ، اور کسی کی آمدِ ثانیہ  قدیم سکونت والوں سے جدید ہونے کے سبب انھیں مہاجر بنواگئی ہے اور کسی  کی سکونت  عارضی،وقتی اور ضرورت پر مبنی ہونے کے سبب ہپی قسم کی خانہ بدوشوں  میں تبدیل ہوگئی ہے۔

ان مہاجر آریائی قبال کی اگر تاریخی نسل و بدنی جانچ پڑتال کرکے دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ عرصہ دراز گزرنے کے باوجود انکی رنگتوں ،ناک نقشہ اور قد و کاٹھ میں آج بھی ایک یکساں مشابہت و یکسانیت کو دیکھنے کو ملتی ہے،مذہب ،رسم و رواج،جغرافیائی تبدیلی ،طرز و اطوار،رسوم و رواج کی تبدیلی نے اگر چہ ان نسلی فروعات میں ارتقا کے ساتھ کچھ تبدیلیاں ضرور پیدا کی ہیں ،مگر اسکے باوجود ان سب کو اگر ایک سفید کمرے میں یکساں لباس کے ساتھ خوراک کی میز کے سامنے بٹھادیا جائے،اور انکے لبوں کو کچھ لمحات کے لئے سی دیا جائے ان کی رخساری اور جسمانی ہیتوں کی مشابہتوں  پر غور و فکر  کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جغرافیائی تبدیلی کے سبب رونما ہونے والی رنگتی تبدیلیوں کے باجود تحقیقی جہد  انکو ایک ہی اصول کی فرع ثابت کردینگی۔

خراسان کا علاقہ زمانہ قدیم سے معرکہ آرائی،سارشوں،بدامنی ،نراجیت،تباہ حالیوں اور انقلابات سےلبریز رہا ہے،ساسانی حکومت کے اقتدار سے لیکر بنو امیہ تک،عباسیوں سے صفویوں تک،نادر شاہ ابدالی سے طالبان تک خراسان نراجیت کی لہر میں ڈوبتا ابھرتا رہا ہے۔ابو مسلم خراسانی کی بنو امیہ کے خلاف بغاوت کا معاملہ ہو یا خوارج کی باتیں ہوں،داعش ہو یا طالبان ،مہدی کا تصور ہو،ہر بات میں خراسان نظر آتا ہے۔

ساسانی عہد میں خراسان کا صوبہ خراسان موجودہ ایرانی خراسان اور افغانی خراساں پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔زمانہ قدیم میں کوئی ایران و افغانستان نامی ملک موجود نہیں تھے،فارسی اور عراقی میسوپوٹامائی علاقہ جات ساسانی سلطنت کا حصہ تھے،جبکہ ساسانی حکومت اس دور میں موجودہ افغانستان کے کئی علاقہ جات پر قابض تھی جن میں خراسان سے لیکر کابل تک کے علاقے شامل تھے۔کچھ علاقہ اس دوران منتشر چھوٹی چھوٹی قوتوں کے زیرِ سایہ تھے۔مسلمانوں نے جب ساسانی حکومت  کو ختم کیا تو اس سے متعلقہ مختلف علاقےبھی انہوں نے خلافت کی حدود ِ سلطنت میں شامل کردیے  تھے۔

یعنی زمانہ قدیم سے موجودہ افغانستان کے علاقے بیرونی حملہ آوروں کے مفتوح علاقے رہے ہیں،ہمیشہ کوئی نا کوئی حملہ آور یہاں پر قابض رہا ہے،جو یا تو آریائی تھے،یا ترک و فارس نسلوں  سے تعلق رکھتے حکمران ہوا کرتے تھے۔

اور اگر ان منتشر حملہ آوروں کے زیر سایہ علاقوں کو مجتمع کرکے افغانستان نامی موجودہ ریاست کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ یہ علاقہ اوّل تو ایک طاقتوں کے درمیان حد فاضل کے علاقے (بفر اسٹیٹ) رہے ہیں،دوسرا یہ کہ علاقے کوئی بھی حملہ آور خاندان اور سلطنت طویل عرصہ تک اپنے زیرِ قیادت نہیں رکھ سکا ہے۔یعنی یہ کہ اس خطے میں محاز آرائی دو طرح سے دیکھنے کو ملی اوّل مقامی افراد اور بیرونی حملہ آوروں کے درمیاں ،دوئم مقامی ایک زبانی ایک نسلی قبائل و سلطنتوں کے درمیاں یا پھر یک زمانی،یک علاقائی مگر مختلف نسلوں کے درمیان۔

لفظ افغان کی بابت ایک لسانی قیاس آرائی؟

لفظ افغان کی بابت ماہرین لغت و نسل اور علم بشریت کے درمیاں تنازع موجود رہا ہے ایک خیالِ غالب یہ ہے کہ لفظ افغان کی اصل سنسکرت بھاشا کے الفاظ آواسکان اور آساکان ہیں،آواسکان کے معنی گھوڑ سوار اور انکی پرورش و تربیت کرنے والے کے بتائے جاتے ہیں ،واضح رہے کہ بہت سے ماہرین بشریات کے مطابق پشتون اور وسطی ایشیا کے آریائی ایک ہی نسل سے قدیمی تعلق رکھتے جنگجو خانہ بدوش قبائل سے تعلق رکھتے ہیں،اور دونوں ہی کے ہاں گھوڑے سے محبت و الفت پائی جاتی ہے ،اسے شجاع و بہادر لوگوں کی سواری جانا جاتا تھا۔اور ستان سے مراد فارسی ادب میں زمین کے ہیں یعنی افغانستان سے مراد پشتونوں کی سرزمیں لی جاتی ہے،افغان لفظ کی معرفتی تخصیص معروف معنوں میں پشتون قوم کی طرف نسبت سے پہچانی جاتی ہے،یہ الگ بات ہے کہ  جدید ریاستوں کے جغرافیائی ناموں اور علاقوں نے اسے نسل کم علاقائی نوعیت کا حامل زیادہ بنادیا ہے۔

خراسان میں جغرافیائی مسائل و وسائل:

یعنی یہ کہ یہ علاقہ زمانہ قدیم سے تاحال بہت حد تک ایک  سیاسی ،جغرافیائی اور معاشی تناظر میں ایک غیر مستحکم نظمیہ اور اقدار سے محروم علاقہ رہا ہے،یہاں ہر دور میں نظریہ جبر وقوت ہی غالب سیاسی فلسفہ کے طور پر بروئے کار لایا جاتا رہا ہے۔

جب ہی  یہ کہنا تو شاید درست ہوگا کہ افغانستان اقوام کا قبرستان ہے ،مگر اس قبرستان میں مقامی اقوام ہی زیادہ تر دفن ہوتی نظر آتی ہیں یہاں پر موجود اقوام اور علاقہ جات کی مسلسل اور باہمی محاذ آرائی کی  بنیادی وجوہات میں  غالب طور پر سیاسی اور معاشی وجوہات زیادہ تر کارفرما نظر آتی ہیں  چنانچہ  زراعت کی قلیل التعدادی اور عدم وسعت،پہاڑی زندگی کی مشکلات،غالب علاقوں میں بنجر و بیابان پہاڑی علاقے اور سطح مستوی  و مرتفع  کا سنگلاخ و غیر زرعی  ہونا،پانی کا کمیاب ہونا  یہاں زندگی گزارنا  مزید مشکل بنادیتی ہیں۔بھیڑ بکریوں پر مشتمل خانہ بدوشی حیات نے یہاں اکثر و بیشتر خوراک کے بحران کو جنم دیا ہے،کچھ پھلوں،خشک میوہ جات،جانوروں کی کھالوں،گھر کے بنے قالینوں پر مشتمل معیشت نے یہاں کی آبادی کو نا صرف شمال مغربی ہندوستانی علاقوں کی طرف ہجرت کرنے  کے لئے مجبور کیا ہے،بلکہ زندگی کے تسلسل اور جہد البقا کی خاطر باہمی محاذ  آرائی کے لیے بھی مجبور کیا ہے،اس دوران اسکی راہداری کی اہمیت اسکی  ایک خاص صفت بن کر نمودار ہوتی رہی ہے۔جب ہی ہندوستان جانے والے قافلوں،لشکروں اور مہاجرین کو مختصر مگر مشکل سفر کے  لئے ان علاقوں سے گزر کر آنا پڑتا تھا۔

منشیات سے متعلقہ اصولی زراعت جس میں پوست کاشی یا افیم کاشتی کے نام زیادہ نمایاں ہیں کی اہمیت منشیات کی دنیا میں بہت زیادہ ہے ،چونکہ اسکی قیمت اور طلب منافع کے تناظر میں عام اجناس اور زراعت سے زیادہ ہے،اور اس قسم کی کاشت کاری کے لئے دیگر روز مرہ کی اجناس اور زراعت کی مانند زیادہ زمین،پانی اورمحنت کی بھی ضرورت نہیں پڑتی ہے جب ہی افغانوں کا اس پر بہت دارومداررہا  ہے،اور اس کی پیداوار کے سماج،مذہب اور ریاست پر کیا اثرات مرتب ہونگے اس بحث سے ہم دیکھتے ہیں کہ مذہبی اور غیر مذہبی افراد کو کچھ لینا دینا نہیں ہے،اس کی حلت کے جواز کے لئے انہوں نے کئی حیلے گھڑے ہوئے ہیں۔

خراسانِ قدیم:

ہم جہاں تک خراسان  کے علاقے کی بحث کا تعلق ہے تو اس کو سمجھنے سے قبل یہ جان لینا چاہیے   نہ  تو زمانہ قدیم میں علم سیاسیات کی جغرافیائی اور سیاسی تصوراتی یا عینی نقطہ نظر کی حامل آئیڈیالسٹ قسم کی اصطلاحیں معروف تھیں اور نہ  موجودہ جدید ریاست کا تصور موجود تھا۔ بلکہ وہ دور نسلی بادشاہتوں اور سیاسی خانوادوں کے نام  موسوم تھا،چنانچہ اس دور میں کوئی گریٹر افغانستان نامی ملک موجود نہیں تھا،ہاں پشتو زبان اور اسکو بولنے والی اقوام ضرور موجود تھیں،جو خود قیاساً  زمانہ قبل از تاریخ میں خوارک و رہائش کے سلسلے میں ہجرت کرتی ہوئی یہاں آباد ہوگئی تھیں،جنہوں نے بعد ازاں نسلی ارتقا،جغرافیائی اشتراک،وحدت ،زبان ،ثقافت اور مذہبی اشتراک سے  قوم کی شکل اختیار کرلی تھی۔یہاں پر ہن و کشان نے  بھی کچھ مورخین کی رو سے کافی وقت گزارا تھا،بدھ مت بھی ان جیسوں کے توسط سے یہاں پھیل چکا تھا جیسا کہ بامیان کے بدھا کے ہجری پہاڑی مجسمہ   کی موجودگی سے عیاں ہوتا ہے۔

لہذا کل خراسان کا علاقہ  موجودہ ایرانی اور افغانی علاقوں سے وسیع تر علاقہ ہوا کرتا  تھا بلکہ اس کُل علاقے کو اگر چہ خراسان کے صوبہ کے نام  سے موسوم ضرور کیا گیا ہے مگر  یہاں کئی علاقوں میں مقامی سلطنتوں کی موجودگی کا بھی سراغ ملتا ہے،جیسے بلخ کا علاقہ اسکے بادشاہ وغیرہ۔اسی طرح ترک نسل کے خلجی،غوری اور غزنوی خاندانوں سے لیکر نادر شاہی وائسرائے احمد شاہ ابدالی یعنی خان بابا تک  بھی یہاں قابض رہے ہیں،عین اسی طرح مغل بھی کابل اور اس سے متعلقہ علاقوں پر قابض رہ چکے ہیں بلکہ  بابر وہیں کابل  سے ہندوستان فتح کرنے یہاں آیا تھا۔مگر جدید پشتون نسلی افغان ریاست کی ابتداء  احمد شاہ ابدالی سے منسوب کی جاتی ہے۔

خراسان کو سورج نکلنے کی سر زمیں یا مشرقی صوبہ جات کی سرزمیں بھی کہا جاتا ہے اسکے ساتھ ساتھ اسے خراسانِ کبیر بھی کہا جاتا ہے۔قدیم خراسان کبیر سابقہ ایرانی خراسان سے بہت وسیع  علاقہ سمجھا جاتا تھا جس میں شمال مشرقی ایران  و افغانستان کے علاقہ جات،اور جنوبی وسطی ایشیا کے علاقے شامل تھے۔یہ اتنا وسیع تھا کہ خراسان کبیر کے علاقے  آج اس وقت بالترتیب تین ریاستوں ایران،افغانستان اور ترکمانستان میں شامل ہیں ،بلکہ کچھ علاقے  مزید بچ جاتے ہیں۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی موجودہ جغرافیائی حدود جن ممالک سے جاملتی ہیں وہ کچھ یوں ہیں۔نیشاپور کا علاقہ جو ایران میں شامل ہے،ہرات و بلخ جو افغانستان میں موجود ہیں اور مرو کا علاقہ جو ترکمانستان میں موجود ہے۔یعنی یہ صوبہ اپنی انتہا میں مغرب،شمال اور مشرقی حدود تک وسیع تھا۔اور اسکی حدود وسطی ایشیا میں آمو دریا تک کو جا بھگوتی تھیں۔

خراسان سے سیاہ جھنڈے نکلنے والی روایت کی حقیقت اور دجال:

جہاں تک خراسان سے کالے جھنڈے لیکر نکلنے والی روایت کا تعلق ہے ، اسے مرفوع حدیث تسلیم کرنے کا معاملہ ہے تو اس پر کلام و نقد موجود ہے ،اگر چہ ذاکرین ،واعظین نے اسکو سنا سنا کر دلوں کو گرمانے کا سامان  سامعین کو فراہم کرنے کی مسلسل کوشش کی ہے  چنانچہ  اسنادی طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ  اسکے زیادہ تر ترک یا تو منقطع ہیں یا پھر ضعیف و موضوع  قسم کے  حامل ہیں، تاریخی محققین جیسے مبشر نذیر اور ڈاکٹر پولی دادا  کا کہنا ہے  ابو مسلم خراسانی اور عباسی داعیوں نے بنو امیہ کے خلاف بغاوت کے جواز کے لئے اس روایت کو شاید گھڑا تھا ،کیونکہ انکا علم و عمامہ سیاہ رنگت کا حامل تھا۔

ہمارے ہاں مہدی یا دجال کے ضمن میں بڑی غلط فہمیاں اور علمی معرکہ آرائیاں پائی جاتی ہیں،جب بھی کوئی عالمی سانحہ رونما ہوتا ہے یو ٹیوب  مختلف   اقسام کی دجال سے متعلق ویڈیوز سے بھر جاتا ہے ہر ایک اپنے محبوب مذہبی رہنما کے بیان کی قطع و برید کرکے انکے قد و قامت کو بلند کرنے میدان میں اتر آتا ہے،کہیں اوریا مقبول جان کچھ کہتا ملتا ہے،کہیں طارق جمیل کچھ کہتا ملتا ہے،کہیں ابو لبابہ منصور صاحب کی دجال پر کتب زیر بحث آتی ہیں تو کہیں اسرار احمد کچھ کہتے ملتے ہیں ،حقیقت میں یہ سب  باتیں ،تقریریں اور آرا  ء انفرادیت کے ماسوا کچھ نہیں ہیں ، ان افراد کی بس قیاس آرائی ،ذاتی موقف اور قصّہ باز ی ہے۔

ہم نے جتنا  بھی   اس قسم کی روایتوں کے دیکھے  اور پرکھے ہیں سب میں کوئی نا کوئی پوشیدہ علت خرابی پیدا کر دیتی ہے کہیں ،ثقہ راوی کی عدم صراحت ِ سمع کے سبب روایت کمزور پڑجاتی ہے ،کہیں کوئی کذاب راوی دیکھنے کو ملتا ہے،اور جب کہیں سنداً کچھ کام کی چیز ملتی ہے تو معلوم پڑتا ہے کہ روایت موقوفاً صحابی پر جاکر ختم ہوجاتی ہے،جیسے ثوبانؓ والی روایت جسکی سند نسبتاً حسن درجہ کی حامل روایت ہے۔

اصل میں دجال کا معاملہ  جیسا  کہ وہ حدیث میں ذکر کیا گیا ہے ،وہ غیب کے امور سے تعلق رکھتی باتیں ہیں اللہ کے نبی نے اسکی نشانیاں تو بڑی واضح طور پر بیان کردی ہیں ،مگر اسکا عہد و زمان بیان نہیں کیا ہے ،بلکہ میری تحقیق کی رو سے سن و تاریخ کے لحاظ سے کوئی بھی صحیح روایت نبی اکرمؐ سے ثابت ہی نہیں ہے،جب ہی یوٹیوب کو لوگوں نے دجال  کے ذریعے ویوور شپ اور کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔

کچھ جدید الخیال خام مفکریں دجال کی تشریح و توضیح نظام کے تناظر میں کرتے ہیں مگر یقین جانیں یہ بس قیاس آرائیاں ہیں،احادیث صحیحہ کے مجمل جامع اور مستند ذرائع میں ایسا کچھ ثابت نہیں ہے بس تاویل ہی تاویل کی جارہی ہے۔

چنانچہ ذیل کی روایت جو بیان کی جاتی ہے حجت کے قابل نہیں ہے،جیسا کہ روایت میں بیاں کیا گیا ہے کہ قول نبویؐ ہے کہ :

’’جب تم دیکھو کہ خراسان سے سیاہ جھنڈے نکل آئے ہیں تو اس لشکر میں شامل ہوجاؤچاہے تمہیں اس کے لئے برف پر گھسٹ کر کیوں ہی نا جانا پڑے ،اس لشکر میں اللہ کے آخری  خلیفہ مہدی ہونگے۔‘‘

( ابن ماجہ :۴۰۸۴۔۔حاکم:۸۴۳۲۔)

اس کی سند میں اوّل تو امام سفیان ثوریؒ ثقہ راوی نے سماعت کی صراحت نہیں فرمائی ہے،یعنی وہ براہ راست عن فرما رہے ہیں،جیسا کہ محدثین میں انکا مدلس ہونا اور تدلیس کرنا ایک معروف بات جاتی جاتی ہے،مدلس کی روایت کی حجت کے لئے شواہد کی ضرورت ہوتی ہے، جو انقطع،علت و  نکر سے خالی ہو ۔جبکہ مسند احمد اور بہیقی کی روایت میں علی بن زید بن جدعان کے سبب ضعف پایا جاتا ہے،قاضی شریک کی تدلیس اسے مزید عیب دار بنادیتی ہے۔

ثوبانؓ والی روایت موقوفاحسن ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply