ٹریفک پولیس اور شہری/قمر رحیم خان

شہر کے پہلے راؤنڈ اباؤٹ میں بائیں طرف ایک پرانی جیپ کئی مہینوں سے کھڑی اپنی بیتی جوانی پر آنسو بہا رہی ہے۔اوّل اوّل تو لوگوں کو اس کا یوں بیچ چوراہے ماتم کرنااچھا نہیں لگا۔مگر دھیرے دھیرے یہ گاؤ ماتا کی حیثیت اختیار کر گئی۔ حتیٰ کہ بڑی گاڑیوں والے جو اس کی تعریف میں چند اشعار اس کی نذر  کر کے  گزرتے تھے، اب خاموش ہوگئے ہیں ۔اب وہ یہاں پر کھڑے رکشے والوں کے قصیدے پڑھتے ہیں۔پھر وہ لوگ بھی ان کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں جو یہ راؤنڈ اباؤٹ ایسے گھومتے ہیں جیسے چاندی بیل ‘‘کِلّے’’پر‘‘ چیکلی’’ کرتا ہے۔ان بیلوں کے لیے کوئی قاعدہ قانون نہیں ہے۔بیچ سڑک میں گاڑی چھوڑ کر غائب ہو جائیں گے۔ کھڑکی سے بلی کی جیسی ناک نکالے ، لالی پاپ چوستے بچے سے پوچھو تو جواب دیتا ہے‘‘پاپا میرے لیے پاپڑ لانے گئے ہیں’’۔معاً خیال آتا ہے ،پاپڑ کی یہ اولاد بڑا ہو کر باپ سے بھی کچھ بڑا بنے گا تو کیا بنے گا؟ مکئی کے ایک کھیت کے کنارے سر پہ ‘‘دراٹیاں ’’ رکھے دو مزدور حیران کھڑے تھے۔مکئی کی فصل کیا تھی،ٹانڈوں کی جلیبیاں بنی ہوئی تھیں اور کھیت بھی خاصے بڑے تھے۔ ہم نے چاروں پاسے گھوم پھر کر  دیکھا ، کوئی سِرا نظر آئے کہ مزدوروں کو اس بکھیڑے سے نمٹنے کی کوئی صلاح دی جا سکے۔ مگر ناکام رہے۔ مالک کھیت سے پوچھا، میاں، یہ چیز کس سے اور کیوں کر بنوائی ہے؟ ہم بوڑھے ہو گئے ، قدرت کا یہ شاہکار پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملا ۔ چہرے پر افسوس ، غصے اور بے بسی کی چادر تنے ، مالک نے جواب دیا، یہ ‘‘باہرلوں’’ (خنزیروں)کا کام ہے۔جانے کہاں سے آئے ہیں۔ ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ان کی چمڑی اتنی موٹی ہے کہ گولی اثر کرتی ہے نہ گالی۔تب سمجھ آئی، اللہ کا عذاب ہے جو سڑکوں پر ہی نہیں کھیتوں پر بھی اُترا ہے۔ لوگ خوامخواہ دوسروں کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

کیا یہ ٹریفک پولیس کا کام ہے کہ وہ شہریوں کو ٹریفک رولز سے آگاہ کرتی پھرے؟اس کاکام ڈرائیونگ لائسنس دینا ہے۔ اس کے بعد‘ شاہ جانے تے راہ جانے’۔ اور جن کے پاس لائسنس نہیں ہے ان کے ‘‘کُنجاڑے ’’ چیک کرنا پولیس کا کام تھوڑی ہے۔حیا بھی کسی بلا کا نام ہے۔ اور ہماری پولیس اتنی بے حیا نہیں ہے۔یا پھر کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ٹریفک کے مسائل سے نمٹنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کی شرم گاہیں ننگی کر کے  انہیں شرم دلائی جائے؟ہمارا اس سے اتفاق نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ ایک دانشورانہ بحث ہے تو بہتر ہے کہ اس پر ایک سیمینار منعقد کروایا جائے۔ہماری ہر گز یہ مرضی نہیں ہے کہ سیمینار کا موضوع ایسا ہو جسے پینا فلیکس پر لکھا دیکھ کر نوجوان لڑکے لڑکیوں کے دل باغ باغ ہو جائیں۔بوڑھوں کو اپنی جوانی کے دن یاد آجائیں اور وہ آہیں بھرتے بھرتے کسی رکشے کے نیچے آجائیں۔لیکن موضوع اتنا ثقیل اور دانشورانہ بھی نہ ہو کہ سیمینار میں قیوم امام ساقی صاحب، قائد کشمیرجناب اظہر کاشر،ریٹائرڈ صدر معلم عبدالقیوم صاحب، برادرم نثار عادل یا عزیزی جاوید کشمیری کے علاوہ کوئی شریک ہی نہ ہو۔اس ضمن میں کئی ایک مناسب موضوعات پر سوچا جا سکتا ہے۔ مثلاً ‘‘ شرم کے مقامات’’۔ دراصل ہمیں پتہ ہونا چاہیے کہ شرم کے کتنے مقامات ہوتے ہیں۔ ہم یہ طے کر بیٹھے ہیں کہ شرم انسانی جسم کے چند ایک مقامات پر ہی لاگو ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر شرم کے تمام تر مقامات پر تبصرے یعنی Discourseوجود میں نہ آیا تو جن مقامات پر آج شرم لاگو ہو رہی ہے، کل ان پر بھی لاگو نہ ہو گی۔تب ایک وقت ایسا آئے گا جب لوگ شرم کے مقامات کی تلاش میں باقاعدہ نکل کھڑے ہو گے۔ مگر وہ انہیں نہیں ملیں گے۔

ابھی کل ہی ایک تعلیمی ادارے میں جانے کا عجیب و غریب اتفاق ہوا۔ گیٹ کے سامنے ، ادارے کے صحن میں ایک خاتون کمر تک لمبے بال پھیلائے دھوپ میں سُکھا رہی تھیں۔ہم واپس بھی ہوگئے مگر بال ابھی تک نہیں سوکھے تھے۔متذکرہ سیمینار میں ایسے لطیف واقعات پر بھی روشنی ڈالی جاسکتی ہے۔ تاکہ تعلیمی ادارے ایسے خوبصورت مزاج لوگوں کے لیے کم ازکم سردیوں میں حاضری ذرا لیٹ کر کے  انہیں گھر پہ بال سکھانے کا موقع فراہم کریں۔ یہ خالص انسانی حقوق کا معاملہ ہے، بہتر ہے کہ اسے کمیشن تک پہنچنے سے پہلے حل کر لیا جائے۔

یہاں پر ایک اور سنگین معاملہ بھی زیر غور آجائے تو مضائقہ نہیں ہے۔ یہ سنگین معاملہ غیر انسانی حقوق کے کمیشن کا قیام ہے۔ ون وے پر الٹی سمت میں گاڑی چلانے والوں، سڑک پر پارکنگ کرنے والوں، ون ویلنگ کرنے والوں کے خلاف جو مری مری سی آوازیں وقتاً فوقتاً اٹھتی رہتی ہیں ان کی شکایت کے لیے یہی کمیشن کام کر سکتا ہے۔کمیشن سے پوچھا جا سکتا ہے کہ ملکی قوانین میں چاندی بیلوں کی ضروریات کی گنجائش کیوں نہیں رکھی گئی ہے۔ اس سقم کا ازالہ مقامی انتظامیہ کو کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اس نقطے کو شہری سمجھنے سے قاصر ہیں۔

لوگوں کا سوال یہ ہے کہ انتظامیہ اور ٹریفک پولیس نے جس قانون کی عملداری کا حلف اٹھایا ہے اس پر عمل درآمد کیوں نہیں کرواتی؟لیکن وہ اس بات کو مکمل نظرانداز کیے ہوئے ہیں کہ جس قانون کا متعلقہ محکموں نے حلف نہیں اٹھایا ، اس پر عمل درآمد کس کی ذمہ داری ہے؟مثلاً جہاں غلط پارکنگ پر جرمانے کاقانون ہے، وہاں اس جرمانے کو معاف کرنے کا قانون بھی تو ہے۔ لہٰذا وہ جرمانہ جسے معاف کرنے کا غیر تحریری قانون موجود ہے اسے کرنے کا کیا فائدہ؟یہی وجہ ہے کہ ٹریفک پولیس ایسے جرمانے کرتی ہے جن کی ادائیگی موقعے پر ہو جاتی ہے لہٰذا معافی کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ ایسی تخلیقی صلاحیتوں کے حامل لوگوں کو نااہلی کا طعنہ دینا جہالت کا شاخسانہ ہے۔ٹریفک پولیس کی اہلیت کا اندازہ جنرل مشرف پوری معیشت کو ڈاکیومنٹ کرنے کے بعد بھی نہیں لگا سکا۔اگر آپ کا خیال ہے کہ بحریہ میں بنی کوٹھی کی مالیت سے اس اہلیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے تویہ خیال خام ہے۔ بحریہ کی کوٹھی اس بچے کے منہ کا لالی پاپ ہے جس کا باپ اس کے لیے پاپڑ لانے گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ٹریفک بلاک ہے، شہر کی سانس رکی ہوئی ہے۔ یہ ٹریفک جام روزانہ کروڑوں روپے کا پٹرول کھا رہا ہے۔لاکھوں لوگ بلڈ پریشر اور دیگر عارضوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ مگر کس سے شکایت کی جائے ؟ ہماری چمڑی اتنی موٹی ہو گئی ہے کہ اس پر لفظ تو کجا گولی اور گالی بھی اثر نہیں کرتی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply