ہرایک کی اپنی عدالت خود ہی منصف

پانامہ کیس کی سماعت زور و شور سے جاری ہے۔ نیا بینچ بنا اور روزانہ کی بنیاد پہ سماعت بھی شروع ہو گئی۔ انصاف ہوتا نظر بھی آ رہا ہے۔ جو سب چھپائے بیٹھے تھے انہیں سب سامنے لانے پہ مجبور کر دیا گیا ہے۔ اور جو بناء دلائل کے خطابت کے زعم میں سزا دلوانے کے چکر میں تھے ان سے بھی کہہ دیا گیا ہے کہ بھئی انصاف کے تقاضوں کے مطابق دلائل دیں نہ کہ اپنی خطابت کی مہارت آزمائیں۔نعرے کہیں دور رہ گئے ہیں اور فیصلہ عدل کے ایوانوں میں پہنچ گیا ہے۔ اور لگتا ہے فیصلہ ہو گا۔ سب کو جس انداز سے سنا جا رہا ہے اس سے کم از کم یہ تاثر تو مضبوط ہو چکا ہے کہ انصاف کا ترازو سب کو حقائق و شوائد کے مطابق تولنے کو تیار ہے۔ اور شاید پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا منظر دیکھنے کو مل رہا ہے کہ کچھ اندازہ نہیں کہ فیصلہ کس کے حق میں آئے گا اور کس کے خلاف۔ مگر لرزہ ہر طرف طاری ہے کہ منصف روزانہ کان کھول رہے ہیں کہ آپ یہ توقع نہ رکھیں کہ ہم بناء دیکھے ، سنے، جانچے فیصلہ کر دیں گے یا ہم سب کچھ سامنے پا کر بھی فیصلہ نہیں دیں گے۔ خوشگوار حیرت ہوئی کہ اس دفعہ تمام فریقین ہی یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ اعلیٰ عدالت جو بھی فیصلہ دے گی ہم قبول کریں گے۔ یہ ظاہر کر رہا ہے کہ پاکستان میں انصاف کی راہداریوں میں سچائی کا غلبہ ہے۔ جس پہ سب کو یقین ہے۔
تمام مثبت اعشاریوں کے باوجود افسوس ناک صورت حال سامنے ہے کہ ایوانِ عدل میں منصفین کے سامنے دلائل ، حقائق رکھنے کے بعد جب راہداری سے خواتین و حضرات باہر تشریف لاتے ہیں تو اپنے تئیں خود فیصلے صادر کرتے نظر آتے ہیں۔ اکثر سنتے آئے تھے کہ جو معاملہ عدالت میں پہنچ جائے اس پہ نہ تو رائے دی جانی چاہیے نہ اُسے عوامی مقامات پہ بحث میں الجھایا جائے کہ اب یہ معاملہ انصاف کے ترازو کے پلڑوں میں ہے۔ مگر قانون بنانے والے خود اس امر کو ایک طرف رکھ کر سماعت کے فوراً بعد ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنا اپنی قابلیت سمجھا شروع ہو گئے ہیں۔ نہ جانے عقل بھنگ پی کر سو چکی ہے جو وہ جنجھوڑ نہیں پا رہی کہ حضور خدارااعلیٰ عدالت کو اپنا فیصلہ سنانے دیں۔ پھر چاہے آپ بیچ چوراہے اپنے فیصلے صادر کریں یا پھر الفاظ کو بناء لباس سامنے لائیں۔ اور حد تو یہ ہے کہ جس پہ الزام ہے وہ پورا خاندان خاموشی کی عملی تصویر بنا بیٹھا ہے اور ہرکارے نہ جانے کیوں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن رہے ہیں۔
ایک دوسرے کی عزتیں نیلام کرنے کے بجائے اگر عوامی نمائندے اس تمام معاملے کو انصاف کے تقاضوں کی تکمیل تک پس پشت ڈال کر خاموشی اختیار کر لیں تو شاید پاکستان میں بسنے والا ہر ذی شعوراس کو اپنے اوپر احسان سمجھے گا۔ بناء تیاری ، بناء ثبوت، بناء جواز، بناء دستاویزات جب جب بھی منصفین نے عوامی نمائندوں کی کلاس لی تب تب ہی انہوں نے اپنا غصہ عوام پر اتارا اور عوام کی سماعتوں کا وہ امتحان لیا کہ کان کے پردے بھی دہائیاں دے رہے ہیں۔ عقل شاید اتنی اندھی ہو چکی ہے کہ ایوان انصاف کے باہر ملائے گئے ہر طرح کے قلابے کسی کام کے نہیں اور فیصلے پر کسی بھی طرح سے اثر انداز نہیں ہو پائیں گے سوائے دونوں فریقین کی جگ ہنسائی کے۔ لگ یہی رہا ہے کہ عوام کو اب اپنی مدد آپ کے تحت روئی کا بندوبست کرنا پڑئے گا کہ جیسے ہی ہر روز سماعت اختتام کو پہنچے یا تو اپنے ٹی وی سیٹ کی آواز بند کر دئے یا اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لیں۔ کیوں کہ جس طرح کے بخیے مرد و زن اکھیڑتے نظر آتے ہیں کچھ بعید نہیں کہ ایک نئی سیاسی ڈکشنری بنانی پڑئے جس کے سر ورق پر جلی حروف میں لکھا جائے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر پاکستانیوں کا پڑھنا منع ہے۔ حیرانگی تو اس بات پہ ہوتی ہے کہ الزام لگانے والے اور الزام کا جواب دینے والے دونوں حضرات اس تمام معاملے سے پہلوتہی برتتے نظر آتے ہیں۔ نہ جانے زعم کیا ہے کہ فیصلے سے پہلے فیصلہ صادر کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں شاید کوئی اچھا لفظ استعمال کرنا ممنوع بن چکا ہے۔ اور یہ خیال اتنا مضبوط ہو گیا ہے کہ جب تک کسی کی شلوار معذرت کے ساتھ پگڑی سر بازار اتاری نہیں جائے گی تب تک آپ اچھے سیاستدان شمار نہیں کیے جائیں گے۔
بہر حال پاکستانی دنیا کی واحد قوم ہیں جو اُمید کے سہارے زندہ ہے۔ اُمید ہے کہ پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ عنقریب ہو جائے گا۔ اُمید قوی ہے کہ صحت تک رسائی ایک عام پاکستانی کی بھی جلد ہو جائے گی۔ یہ بھی اُمید روشن ہے کہ تعلیم پہ ہر پاکستانی کا یکساں حق ہو گا۔ یہ اُمید تو بہت ہی زیادہ مضبوط ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب پاکستان کے حکمران اپنا تن من دھن پاکستان کی فلاح پہ لگا دیں گے۔ تن اور من تو وہ لگا ہی رہے ہیں صرف ایک دھن ہی تو نہیں لگا رہے مگر ہم پاکستانی کسی بھی طرح سے مطمئن ہونے کا نام نہیں لیتے۔ اتنی محنت تو ہمارے سیاستدان کر رہے ہیں وہ بھی اس بھولی عوام کے لیے ۔ روز سماعت کے بعد پریس کانفرنس کا انعقاد جس طرح سے فریقین کر رہے ہیں کیا اس سے کوئی شک رہ جاتا ہے کہ انہیں عوام کی بھلائی کی کتنی پرواہ ہے۔ بھلا اب وہ اپنے مخالفین کی عزتیں بھی نہ اچھالیں تو اور کیا کریں۔
قصہ بس دھن کا ہے، قصہ از مختصرمقصود بس نشست اقتدار، جن کے پاس اقتدار ہے وہ اسے مضبوط کرنے لیے الفاظ کی ایلفی ڈال رہے ہیں۔ اور جن کے پاس فی الوقت اقتدار نہیں ہے وہ ہاتھ میں لفظوں کا ہتھوڑا لیے کرسی کو توڑنے کی فکر میں ہیں۔ حاصل فکر بس اقتدار ہے اسی لیے جیسے ہی کروفر زدہ نمائندے جب عدالت سے باہر آتے ہیں تو فوراً اپنا الگ الگ کہٹرا سجا لیتے ہیں۔ انصاف کا ترازو ہلنے میں تو کچھ وقت باقی ہے مگر نام نہاد عوامی نمائندے اپنی اپنی عدالت اور اپنا اپنا کٹہرا قائم کر کے کم از کم دل کے پھپھولے تو پھوڑ ہی لیتے ہیں۔۔۔

Facebook Comments

سید شاہد عباس
مکتب صحافت کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھنے کی کوشش ہے۔ "الف" کو پڑھ پایا نہیں" ی" پہ نظر ہے۔ www.facebook.com/100lafz www.twitter.com/ssakmashadi

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply