• صفحہ اول
  • /
  • خبریں
  • /
  • ناسا میں 35 سال سے خدمات سر انجام دینے والا پاکستانی سائنسدان

ناسا میں 35 سال سے خدمات سر انجام دینے والا پاکستانی سائنسدان

بچپن سے مجھے رات کی تاریکی میں آسمان پر جھلملاتے ان گنت ستارے اور کٹورا سا چاند اپنے سحر میں جکڑتے آئے ہیں، بہت چھوٹی عمر میں آسمان کی ان بے کراں وسعتوں سے بننے والا میرا یہ تعلق بتدریج عمر کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے مضبوط تر ہوتا گیا اور اب یہ میرا جنون بن چکا ہے۔

بسا اوقات فلکیاتی علوم میں اپنی قابلیت کا سکہ بٹھانے والی دنیا بھر کی نامور شخصیات کے بارے میں پڑھتے ہوئے مجھے شدید حیرت ہوئی کہ ٹیلنٹ کی کمی نہ ہونے کے باوجود کیوں آج تک میرا کوئی بھی ہم وطن امریکی خلائی ادارے ‘ناسا’ (جسے دنیا بھر میں خلائی مشنز کے حوالے سے ایک مستند ادارہ سمجھا جاتا ہے) تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔

ایسی شخصیت کی تلاش اور کھوج کے دوران میری ملاقات اسلام آباد میں ڈائریکٹر تھیو ریٹیکل فزکس ڈیپارٹمنٹ، نیشنل سینٹر فار فزکس ڈاکٹر محسن صدیق سے ہوئی، جن کے ذریعے میرا رابطہ پاکستانی انجینئر/ سائنسدان جناب منصور احمد سے ممکن ہوا، جو گذشتہ 35 سال سے ناسا میں مختلف عہدوں پر خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں، اور فی الوقت ڈائریکٹر ایسٹرو فزکس پراجیکٹ ڈویژن کے علاوہ فزکس آف کاسموس اینڈ کوسمک اوریجن پروگرام، گوڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر، میری لینڈ کے پروگرام مینیجر بھی ہیں۔

جناب منصور احمد نے اپنے کیریئر کا بیشتر حصہ ‘ہبل ٹیلی سکوپ پروگرام’ میں مختلف عہدوں پر کام کرتے ہوئے گزارا ہے، جس میں فلائٹ آپریشن مینیجر اور پراجیکٹ مینیجر کے عہدے قابل ذکر ہیں، وہ اگلے برس 2019 میں لانچ کی جانے والی جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کے ڈپٹی پراجیکٹ مینیجر، اور لیزر انٹرر فیرو میٹر اسپیس انٹینا (لیزا) مشن کے پراجیکٹ مینیجر کی حیثیت سے بھی ذمہ داریاں سر انجام دے چکے ہیں، جو ناسا اور یوریپین اسپیس ایجنسی کا مشترکہ منصوبہ تھا۔

جناب منصور احمد سے پشاور میں ان کی ابتدائی زندگی سے لیکر ناسا میں اہم عہدوں تک رسائی اور بتدریج کامیابیوں کا زینہ چڑھنے سے متعلق کچھ سوالات پوچھے گئے، جو آپ کے پیش خدمت ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں سمجھتا ہوں کہ اگر بچوں کو ان کے طبعی رجحان کے مطابق من پسند شعبے میں جانے دیا جائے تو وہ بلاشبہ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے، چاہے وہ انجینئرنگ ہو، میڈیسن، میوزک، کھیل یا کوئی اور شعبہ ہو، اب فلکیات کو ہی لے لیجیے اگرچہ پاکستان میں اس پیشے میں زیادہ ملازمتیں میسر نہیں ہیں، لیکن اگر بچوں کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے ابتداء ہی سے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تو کوئی شک نہیں کہ ہمیں کائنات کے بہت سے مخفی سوالات کے جوابات مل جائیں گے اور پاکستان کے ٹیلنٹ کو عالمی سطح پر مقبولیت حاصل ہوگی، مگر میرا کیس ایسا نہیں تھا، ظاہر ہے میرے والد مجھے نازسنیما میں ٹکٹ کلیکٹر تو نہیں بننے دیتے مگر وہ ایئر فورس میں جانے پر میری حوصلہ افزائی ضرور کرتے۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply