میرا رول ماڈل۔۔اک ناکام انسان

باوا کے نام۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

میرے ذہن میں بچپن کی بہت سی باتیں آج بھی ویسے ہی تازہ ہیں جیسے میں دس بارہ سال کی بچی ہوں جو اس وقت بھی چیزوں کو،ارد گِردموجود لوگو ں اور ان کے رویوں کو بہت غور سے دیکھا کرتی تھی،تب سوچ میں ہلچل مچانے والے بہت سے سوال فوراً زبان پر آکر اپنا تجسس عیاں کر جاتے تھے،کچھ سوالوں کے جواب بھی مل جاتے تھے جن سے تشفی نہ ہو پاتی تو وہی سوال لے کر کسی اورکے سامنے معصوم سا منہ بنا کر کھڑی ہو جاتی۔ تب سمجھ نہ تھی کہ کچھ سوالوں کے تسلّی بخش جواب کبھی نہیں مل پاتے۔باتیں یاد آ آ کر اپنے ہونے کا احساس دلاتی رہتی ہیں ۔کچھ ذہن پر نقش ہو کر رہ جاتی ہیں۔۔۔۔ گو حقیقت پر مبنی بڑا پرانا واقعہ ہے لیکن اماں باوا کو جب بھی فرصت سے دیکھوں تو ذہن میں تازہ ہو جاتا ہے بالکل جیسے کسی زخم پر آیا کُھرنڈ چِھلنے سے درد تازہ ہوجائے۔۔جیسے ابھی کل کی ہی بات ہو۔۔۔۔
اس وقت ہم اپنے ذاتی گھر میں رہتے تھے (میری نظر میں ہر وہ گھر ذاتی ہے جس میں آپ اپنے والدین کے ساتھ رہتے ہوں سو اس وقت یہ کرائے کا گھر بھی ذاتی ہی ہے)۔۔خیر برسوں پہلے کی بات ہے اس روز گھر میں پکانے کے لیئے دال کا ایک دانہ تک نہ تھااور نہ ہی باوا کی جیب میں کوئی پیسہ۔۔اماں باوا کو فکر کہ بچوں کو بھوک لگے گی تو کھانا کہاں سے آئے گا۔۔اتنے میں کچھ قریبی رشتہ دار آگئے پریشانی مزید بڑھ گئی۔اماں نے کانو ں میں جو سونے کے ٹاپس پہنے ہوئے تھے وہ لے کر ہمسائے میں خالا کے پاس گئیں اور گروی رکھوا کر پیسے لے آئیں،خالا نے بہت اصرار کیا کہ آپ ایسے ہی پیسے لے جائیں لیکن اماں نہ مانیں۔۔مہمان خوب سَیر ہو کر گئے اور ہم نے بھی اس روز بہت مزے دار کھانا کھایا۔۔۔اماں بھوکی رہیں!!
کچھ روز بعد سُننے کو مِلا یہ لوگ غلط بیانی کرتے ہیں کہ حالات ٹھیک نہیں،ہمیں تو خوب اہتمام سے کھانا کِھلایا۔اب یہ اللہ کا کرم کہ ہمارے گھر سے بُرے سے بُرے حالات میں بھی مہمان کبھی ناراض یا بھوکا نہیں گیا۔
ہم اُن بچوں میں سے تھے جو منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں لیکن ستم ظریفی کہ وقت سدا ایک سا نہیں رہتا،اس کی عادت بھی آدمی سی ہے۔۔
آگے پیچھے دِنوں میں حالات بہتر بھی ہوتے لیکن عید شبرات ہمیشہ اپنے ساتھ بے شمار فکریں اور پریشانیاں لاتی۔ بہت کم عمری میں عیاں ہونے والی حقیقتیں جوان ہونے سے پہلے بوڑھا کر دیتی ہیں۔باوا کو بعض اوقات ہماری بے ضرر خواہشیں پوری کرنے کے لیئے بھی قرض لینا پڑ جاتا،عید پرکپڑے بنانا بھی بہت بڑا مسئلہ تھا۔باوا اماں سے کہتے آپ بچوں کو ان کی پسند کے کپڑے خرید دیں میری خیر ہے۔۔دو ہی جوڑوں میں باوا نے جانے کتنی عیدیں گزاریں،جنہیں اماں ہر بار کلف لگا کر نیا کر دیتیں۔
میں نے سخت سے سخت تر حا لات میں بھی کبھی اپنے باوا کے ماتھے پرایک شکن تک نہیں دیکھی۔ایک بار کسی نے کہا افضال صاحب آپ کامیاب انسان نہیں ہیں آپ نے کچھ جمع نہیں کِیا آج تک۔۔باوا نے جواب دیا۔۔جمع کرکے بھی تو یہیں چھوڑ جانا ہے میری بیوی اور یہ چھے بچے ہی میری کُل کائنات ہیں۔
ایک بار باوا نے کسی جاننے والے کی گواہی دی۔وہ شخص بعد میں مُکر گیا جُرمانے کے طور پر چالیس ہزار روپے باوا کو ادا کرنے پڑے اُس زمانے میں چالیس ہزار بڑی رقم ہوتی تھی۔اسی سلسلے میں ایک دن مجسٹریٹ کے پاس بیٹھے باتوں کے دوران کسی بات پر ہنس پڑے تو مجسٹریٹ صاحب بولے افضال صاحب آپ عجیب آدمی ہیں یار اتنی پریشانی میں بھی ہنس رہے ہیں۔۔باوا نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔۔جناب میں رو پڑتا ہوں جُرمانہ آپ ادا کر دیں۔اس بات کودو دہائیاں گزریں لیکن کچھ چیزیں ابھی تک نہیں بدلی۔۔جن میں سرِ فہرست باوا کے چہرے کی نرم میٹھی سی مسکراہٹ ہے!!!
بڑھاپا بڑی آزمائش ہے اور پریشان حال لوگوں کے لیئے تو اور بھی زیادہ۔۔ان کے چہروں پر پڑی تنگی،پریشانی کی لکیریں میری زندگی کا سبق ہیں کہ حالات کتنے ہی سخت کیوں نہ ہوں کشادگی آکر رہتی ہے بُرے دن بالآخر اچھے دِنوں سے ہاتھ مِلا لیتے ہیں۔
اگرچہ وہ دنیا کی نظروں میں ایک ناکام انسان سہی لیکن میرے باوا میرے رول ماڈل ہیں!

Facebook Comments

اسما مغل
خیالوں کے سمندر سے چُن کر نکالے گئے یہ کچھ الفاظ ہی میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”میرا رول ماڈل۔۔اک ناکام انسان

Leave a Reply