دهشتگردی اور طبقاتی تقسیم

سورج شام سے ہی کہیں چھپ گیا ہے۔ آسمان گہرا کالا ہوچکا۔ ستارے بادلوں کے گھیرے میں ہیں۔ گھر کے برآمدے میں بادلوں اور ستاروں کے درمیان آنکھ مچولی سے لطف اندوز ہو رہا ہوں۔ ایسے میں میری پانچ سالہ بیٹی کی مانوس آواز سماعتوں سے ٹکرائی: بابا چندا ماموں دیکھ رہے ہیں۔

آنکھوں میں نمی سی ہے۔ کہا بیٹا، نفرت کے دیس سے محبت کے دیس چلے جانے والوں کو دیکھ رہا ہوں اور اپنی بے بسی کا ماتم کر رہا ہوں۔

بیٹی نے کہا: بابا جانی دادو بھی تو ادھر رہتی ہیں۔ یہ نفرت کا دیس کیا ہوتا ہے اور محبت کا دیس کیا ہوتا ہے؟

میرے پاس اس معصوم کے معصوم سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔ اسے اپنی گود میں لیا۔ شفقت سے اس کے ماتھے کا بوسہ لیا۔ اسے سمجھانے لگا کہ بیٹا محبت کا دیس وه ہوتا ہے جہاں سب پیار و محبت سے رہتے ہیں۔ کسی سے نفرت نہیں کرتے۔ کسی کو مذہب کے نام پہ یا اختلاف پہ گالی نہیں دیتے۔

اس کے معصوم ﺫہن میں ابھرا سوال اس کی زبان تک آن پہنچا: بابا یہ لوگ نفرت کیوں کرتے ہیں؟

میرا ٹھنڈا جسم یکدم ساکت سا ہوگیا۔ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔

میں ایک زنده لاش کی طرح خاموش آسمان کو تکتا رہا۔ اس کا سوال میرے سینے میں اٹک سا گیا۔ میرا سانس لینا محال ہوگیا۔ میرا ٹھنڈی آه سنی جاسکتی تھی۔ اتنے میں بیگم کی آواز کانوں سے ٹکرائی: کھانا تیار ہے۔ اور بستر بھی لگا دیا ہے۔

نمناک آنکھوں سے چارپائی سے اٹھا۔ بیٹی کو اپنے کندھوں پہ اٹھایا۔ حسب عادت اپنے بازوؤں میں دبایا۔ وه بھی میرے کندھوں پہ کھیلنے لگی۔ کھانا میرے سامنے تھا اور میں زنده لاش بنا اس سوال کا جواب تلاش کرنے لگا کہ لوگ نفرت کیوں کرتے ہیں۔

بھوک جیسے کوسوں دور تھی۔ بیگم سے کہا بھوک نہیں ہے۔
جواب ملا: جب کھانا نہیں کھانا ہوتا تو پہلے بتا دیا کریں۔

نیم مرده حالت میں ٹی وی کا ریموٹ اٹھایا۔ اس کشمکش میں تھا کہ کون سے ٹی وی چینل پہ بیٹھے میڈیا تماش بینوں کو لڑتا دیکھوں اور حسب روایت اپنی داد سے انھیں نوازوں کہ کیسے آج انھوں نے ایک دوسرے کی پگڑی اچھال کے ریٹنگ بڑھائی۔ ویسے آج کل اتنی نفرت اور دوریاں پھیلا دی گئی ہیں کہ اب محب وطن اور غداری کا فیصلہ بھی ٹی وی چینل دیکھ کے کیا جاتا ہے کہ آپ کس سوچ کے ساتھ ہیں۔ اگر آپ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ سوچ رکھنے والے ٹی وی چینل دیکھتے ہیں تو آپ محب وطن ہیں۔ اگر آپ جمہوریت کے نام نہاد علمبرداروں کی سوچ رکھنے والوں کے ساتھ ہیں تو عین ممکن ہے فیسبکی مجاہدوں کے فتوے کی زد میں آجائیں۔ جہاں اس قدر تنگ نظری ہو وہاں میں اس معصوم بچی کو کیا جواب دیتا کہ نفرت کیوں کرتے ہیں؟

ایسے میں ٹی وی چینل پہ بریکنگ نیوز کا ٹکر چلا کہ سیہون شریف لال شہباز قلندر کے مزار مبارک پہ دھماکے کی اطلاعات ہیں۔ بے ساختہ منہ سے نکلا یاالله خیر۔

نیم مرده جسم سے جیسے جان نکل سی گئی ہو۔ ایک زنده لاش بنے ٹی وی چینل بدلنے لگا۔ دل میں یہی خیال کہ الله کرے خبر غلط ہو۔ پر انسانی جانوں کے ضیاع کی تعداد بڑھتی گئی۔
معصوم ابیہا کا سوال پھر میرے ﺫہن میں کسی تیر کی طرح پیوست ہوتا گیا۔ نیند جیسے کوسوں دور۔
بستر پہ نظر پڑی تو ابیہا نیند کی وادی میں کہیں بے سدھ گم پڑی تھی۔ فرطِ جذبات سے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگا۔ بار بار وہی سوال ایک تصویر بن کے میری آنکھوں کے سامنے آکھڑا ہوتا کہ لوگ نفرت کیوں کرتے ہیں؟؟ ابھی تو لاہور کے شھید ہوے ڈی آئی جی احمد مبین اور ایس ایس پی زاہد گوندل کا کفن بھی میلا نہیں ہوا۔ ابھی تو آواران میں شھید ہوے کیپٹن طلحہ اور اس کے تین ساتھیوں کی رسومات بھی ادا نہیں ہوئیں کہ یہ درندے جو خود کو مذہب کا ٹھیکیدار کہتے ہیں سیہون شریف کے نہتے بے گناہوں پہ پھٹ پڑے۔ آخر یہ کون سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے علمبردار ہیں؟ یہ کون سے اسلام کے ماننے والے ہیں؟ یہ کون سی شریعت کو فالو کرتے ہیں؟ ان کا محمد عربی ص سے کیا رشتہ ہے جو دنیا کے لیے رحمته اللعالمین بن کے آئے؟ جس نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے پیارے چچا کا کلیجہ چبا جانے والی ہنده کو معاف فرما دیا۔ جس نے اسلام کے سب سے بڑے دشمن ابوسفیان کے گھر کو دارالامن قرار دیا۔ جس نے طائف میں پتھر کھاکے بھی اہل طاہف کو بددعا نہ دی۔ جب اللہ کا عرش ہل گیا ملائکہ بھاگتے بھاگتے آمنہ کے دریتیم کی بارگاه میں آئے کہ اللہ کہتے ہیں بہت صبر ہوگیا۔ اگر آپ حکم دیں تو اہل طائف کو آسمان سے لے جاکر پھینک دیں تاکہ آنے والی نسلوں تک نشان عبرت بن جائیں۔ رحیم و شفیق آقا کی آنکھوں سے آنسو آئے۔ فرمایا نہیں نہیں یہ مجھے نہیں پہچانتے۔ ہو سکتا ہے ان کی نسلوں میں سے کوئی مجھے پہچان لے۔ اگر آج طائف والے مٹ گئے تو میرے حبیب اللہ ہونے اور عیسیٰ و موسیٰ کے نبی ہونے میں کیا فرق ره جاتا جنھوں نے نافرمانوں کے لیے بددعا کی۔ میں تو رحمت اللعالمین بنا کے بھیجا گیا ہوں۔

سوال کا جواب تلاش کرتے کرتے نہ جانے کب نیند نے اپنی آغوش میں آلیا۔ صبح ہوئی تو پھر وہی سوال کسی آسیب کی طرح میرا پیچھا کر رہا تھا کہ لوگ نفرت کیوں کرتے ہیں؟

ٹی وی اور اخبار پڑھنے کی سکت نہ تھی۔ بوجھل قدموں سے گھر سے باہر نکلا۔ ایک دوست کے پاس پہنچا اس تلاش میں کہ لوگ نفرت کیوں کرتے ہیں؟
اردگرد نظر دوڑائی۔ سوچوں میں گم خیال آٹھ سالہ ببلو کی طرف گیا۔ اٹھا۔ موٹر سائیکل پہ اپنے دوست ببلو کے پاس آن پہنچا۔ آٹھ سالہ نفرت و محبت سے بے نیاز ببلو کسی اٹھائے قریبی کھیت میں پانی لگا رہا تھا۔ میلے کچیلے کپڑوں اور غربت و بے بسی کی تصویر بنا ببلو میری بیٹی کے سوال کا جواب تھا۔

جب معاشروں میں طبقاتی تفریق جنم لیتی ہے، جب امیر اور غریب کے درمیان خلیج بڑھتی ہے، تو یہ خلیج نفرت کو جنم دیتی ہے۔ جب معاشرے میں انصاف ناپید ہوجائے، جب کمزور کے لیے قانون اور ہو اور طاقت ور کے لیے قانون اور ضابطے الگ ہوں تو پھر معاشرے میں نفرت جنم لیتی ہے۔

گزشتہ دنوں عالمی ادارے کی ایک رپورٹ پڑھی جس کے مطابق دنیا میں پچاس کروڑ سے زائد انسان خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جن کی اوسطاً آمدن دو ڈالر روزانہ ہے اور اتنے ہی تقریباً رات بھوکے سوتے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف صرف سعودی عرب میں سالانہ بیس لاکھ ٹن کھانا ضائع کردیا جاتا ہے۔ ایسی ہی کچھ صورتِ حال پاکستان میں ہے جہاں پانچ کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اس موجودہ نفرت کے ﺫمہ دار منبر رسول پہ بیٹھ کے نفرتیں پھیلاتے علما بھی ضرور ہیں۔ انھیں کسی طور بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پر اس کے ﺫمہ دار کہیں نہ کہیں ہم بھی ہیں، یہ معاشرہ بھی، حب الوطنی والے بھی اور جمہوریت کے چیمپئین بھی۔ ایسے میں کہ جب پاکستان میں دو کروڑ بچوں نے آج تک سکول کا منہ نہیں دیکھا جب کہ ہماری اشرافیہ کے بچے بیکن ہاوس اور آکسفورڈ کا سلیبس پڑھتے ہوں، جب عدالتوں میں انصاف بکتا ہو، اعلیٰ عدلیہ میں بیٹھے مسخرے جج اخباروں کی خبر پہ جگتیں لگاتے ہوں اور ان میں پکوڑے کھانے کا حکم صادر کرتے ہوں، جب ایک چوری کے مقدمہ میں نسلیں ختم ہوجانے لگیں، جب کرپٹ جرنیلوں کو مقدس ہستیاں سمجھا جانے لگے،
جب مسیحا درندے اور قصائی بن جائیں، جب جمہوریت کے علمبرداروں کے ہسپتالوں میں قصور کی زہره ایڑھیاں رگڑتی مرجائے، جب سندھ کا بھٹو تو زنده ہو پر تھر میں بھوک اور پیاس سے بلکتے سسکتے بچے ایڑیاں رگرتے مریں، جب بلوچستان میں چھہ ہزار بوگس سکول ہوں پچاس پچاس کلومیٹر تک کوئی ہسپتال یا ڈسپنسری نہ ہو، جب ریاستی اداروں پہ تنقید کرنے والے کو تو اٹھا کے غائب کر دیا جائے لیکن مسجد کے منبروں اور سوشل میڈیا کے ﺫریعہ مذہب کے نام پہ نفرت پھیلانے والے آزاد ہوں،
جب ستر سال بعد بھی فاٹا والوں کو حق نہ ملے، تب معاشرے میں بڑھتی طبقاتی تفریق اور طاقت ور اور کمزور کے درمیان بڑھتی خلیج نفرت کو ہی جنم دیتی ہے۔

میں اب کس منہ سے ننھی معصوم ابیہا کو بتاؤں کہ یہ سب کچھ ہم اسلام اور محمد عربی ص کو ماننے والے مذہب کے نام پہ کرتے ہیں۔ ایسے میں اس سوال کا جواب پوچھتے ہیں مولا علی سے۔ امام علی نے فرمایا کفر کا نظام چل سکتا ہے ظلم کا نہیں۔ کاش اتنے سے جواب کی دنیا ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو سمجھ آجائے تو دنیا اور پاکستان سے نفرت ختم ہوجائے۔ جب تک دنیا اور معاشرے میں طبقاتی تقسیم ختم نہیں ہوتی، اشرافیہ اور عوام میں بڑھتی خلیج کم نہیں ہوتی، دنیا سے نفرت اور دہشت گردی ختم نہیں ہوسکتی۔ امن سے رہنے والوں کو عوام کو بھی امن دینا ہوگا۔ محلات میں رہنے والوں کو غریب کو بھی روٹی کپڑا اور مکان دینا ہوگا ورنہ اس آگ میں غریب کی جھونپڑی بھی جلے گی اور ان کے محلات بھی جلیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اے سخی تیرا سیہون سدا وسدا رہوے
پاکستان زنده باد
عوام زنده باد

Facebook Comments

فرحان اعجاز
فرحان اعجاز جھنگ پنجاب پاکستان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply