عمران خان کہاں کھو گیا

عمران خان کہاں کھو گیا

لمحے ہوتے ہیں جو ہیرو بناتے ہیں اور لمحوں کی ہی گرد میں ہیرو کھو جاتے ہیں۔
برسوں ہوئے، والد کی پوسٹنگ سیالکوٹ میں تھی، عمران خان میچ کھیلنے آئے۔ اپنے والد کی وجہ سے ہم بھی وی آئی پی شمار ہوتے تھے تو وی آئی پی لاونج میں تھے، جب جی کرتا تھا کھلاڑیوں کے پاس جا کر آٹو گراف لے لیتے، نصرت کی قوالی پر جھومتا جاوید میانداد ہو، عمران کے سامنے بچھا جاتا وسیم اکرم یا حسین و جمیل کپتان عمران خان، سب کو پہلی بار تب ہی دیکھا۔ مشکل میچ کو جیتتا ہوا عمران دیکھا اور نوجوانوں کی طرح ہم بچے بھی عمران کے دیوانے ہو گئے۔
ہمارے ایک انکل ہیں انکل جعفری۔ شکار کے اتنے شوقین کہ ان سا شوق کم ہی دیکھا۔ پھر ایک بار عمران ان کے ساتھ شکار کھیلنے آیا، عمران کو اور قریب سے دیکھا۔ دریائے توی پر سردیوں میں نیل گائے کا شکار کھیلتا عمران پسند آیا کہ شکار بہادر کھیلتے ہیں۔
کپتان نے ورلڈ کپ جیتا، سب کو لگا کہ ناممکن ہے، مگر وہ بہادری سے میدان میں اترا اور ڈٹ گیا۔ ہم اسکے سحر میں گرفتار ہو گئے۔ پھر شوکت خانم ہسپتال شروع ہوا تو ہم نے اپنے ہیرو کیلیے نہ جانے کتنی ٹکٹیں بیچیں، ہسپتال ناممکن تھا مگر اللہ نے کپتان کے ارادے اور عوام کی محبت کی لاج رکھی۔ ہم عمران کے عشق میں گرفتار ہو گئے۔
عمران سیاست میں آیا تو ہم نوجوان ہو چکے تھے۔ مگر نہ جانے کیوں اسکی سیاست کبھی بھائی نہیں، مگر پھر بھی وہ پسند رہا۔ کپتان ڈٹا رہا اور پھر ایک دن پاکستان نے بطور سیاستدان بھی اسے اپنایا۔ ہاں بہت سے فیکٹر تھے، لوگ روائیتی سیاست اور کرپٹ سیاستدانوں سے تنگ آ چکے تھے، نوجوان نسل نیا لیڈر چاہتی تھی وغیرہ وغیرہ۔ مگر ایک چیز یاد کیجیے، جب سیکیورٹی کے نام پر سیاستدان باہر آنے جانے سے گھبرایا کرتے تھے اور گھروں میں دبکےرہتے تھے، کپتان سرعام گھومتا تھا، عوام کے ساتھ تھا، عوام میں تھا اور عوام نے اسے اپنا بنا لیا۔ الیکشن ہوا تو کپتان کی سیاست پر تحفظات کے باوجود ہم نے عمران کا ساتھ دیا۔ بہادر کا ساتھ دینا ہی ہماری ریت تھی، ایک بہادر اور عوامی عمران خان ہمارا ہیرو تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

پی ایس ایل کا فائنل فقط کرکٹ کا ایک میچ نہ تھا۔ یہ کرکٹ کی پاکستان واپسی تھی، یہ عوام کا دہشت گردی کے منہ پر طمانچہ تھا، یہ خوف سے آزادی کا اظہار تھا، یہ بہادری کا مظاہرہ تھا۔ پہلے بیان آیا جس میں کپتان نے خوف کا اظہار کیا، بہادر ہیرو کا بت لڑکھڑایا۔ پھر اپنی سیاست یا کسی سیکیورٹی خدشے کی وجہ سے وہ قذافی سٹیڈیم میں موجود نہ تھا۔ جس بھی وجہ سے نہ تھا، ہیرو کا بت اوندھے منہ گر پڑا۔ جب اسے گراؤنڈ میں موجود ہو کر عوام کو یہ احساس دلانا تھا کہ وہ عوام میں سے ہے، عوام کی خوشی میں خوش ہے، پاکستان کی اس فتح میں شریک ہے، دہشت گردی کے خلاف ہے؛ وہ فقط کسی محفوظ جگہ بیٹھا ہوا ٹوئٹر پرکھیل رہا تھا۔ افسوس بیس سال میں کپتان نہ تو اپنے ٹائیگرز کی سیاسی تربیت کر سکا کہ وہ سٹیڈیم میں “گو طالبان گو” کی بجائے “گو نواز گو” کرتے رہے، اور نہ ہی وہ یہ سیکھ سکا کہ لمحے بہادر لیڈر بناتے ہیں اور لمحے ہی ڈرپوک سیاستدان۔
کل کے میچ میں پشاور زلمی ہی نہیں جیتا، پاکستان بھی جیت گیا، خوف اور دہشت گردی ہار گئی، عوام اور پاکستان جیت گئے۔ مگر افسوس عمران خان بھی ہار گیا۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply