کامریڈ اسٹالین ، پرولتاری مزاحمت کا استعارہ- 1

(5مارچ2017،کامریڈ اسٹالین کے 64ویں یومِ وفات پر )
5مارچ 1953،عیادت کے لیے آنے والوں کا تانتا بندھا ہو اہے ۔پولٹ بیورو کے ارکان کامریڈ اسٹالین کے سرہانے کھڑے ہیں جس پر بار بار نیم بے ہوشی کی کیفیت طاری ہو رہی ہے ۔وہ گاہے ہوش میں آتا ہے لیکن کچھ بول نہیں پاتا ۔ اسے یک بیک ہوش آتا ہے اور وہ آنکھیں کھول کر ارد گرد موجود شناسا چہرؤں پر ایک نظر ڈالتا ہے، پھر دھیرے سے سامنے دیوار کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ سب کی نگائیں دیوار کی جانب اٹھتی ہیں جس پر ایک تصویر ٹنگی ہے ۔ تصویر میں ایک چھوٹی سی بچی ایک میمنے کو سینگ کے ذریعے دودھ پلا رہی ہے ۔کامریڈ اسٹالین انگلی سے اپنی جانب اشارہ کرتا ہے اور پھر اس کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہو جاتی ہیں ۔یہ تھے کامریڈ اسٹالین کے آخری لمحات جسے وہاں موجود افراد نے بعد ازاں بیان کیاکہ وہ کس طرح سکرات کے عالم میں بھی بذلہ سنجی کا مظاہرہ کرتا ہے ۔
5مارچ کامریڈ اسٹالین کی جدائی کا دن ۔وہ دن جب نہ صرف بالشویک پارٹی بلکہ عالمی کمیونسٹ تحریک اپنے ایک جانباز رہنما سے محروم ہوئی ۔ وہ دن جب نہ صرف محنت کار سوویت عوام بلکہ دنیا بھر کے محنت کش اپنے شفیق استاد سے محروم ہوئے ۔ وہ جوکامریڈ لینن کا قابل فخر شاگرد اور لینن ازم کا عملی نمائندہ تھا ۔21دسمبر1879کو روس کے شہر گوری کے ایک مزدور خاندان میں پیدا ہونے والے بچے کا نام جوزف ویساریا نووچ جگاشولی رکھا گیا ۔یہ اور بات کہ انقلابی جدوجہد کے دوران باکو کے تیل کی صنعت کے مزدوروں میں وہ ’’کامریڈ کوبا ‘‘ کے نام سے معروف ہوا ۔ کوبا ، جارجیا کے عوام کا تاریخی ہیرو جس نے اُن کے حقوق کی جنگ لڑی تھی ۔ویسے بھی تاتاری کسانوں کی روایتی بہادری ،جوش وولولہ اور اولوالعزمی کامریڈ اسٹالین نے ورثے میں پائی تھی ۔ اس کا دادا جارجیا میں جاگیرداروں کی غلامی کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے شہید ہوا تھا ۔
کامریڈ اسٹالین نے ایک ایسے ماحول میں پرورش پائی جہاں چاروں طرف بھوک و افلاس اور بیماری ولاچاری رقص زن تھی۔زار شاہی کے روس کا چپہ چپہ محنت کشوں کی بدحالی وتباہی کا مظہر تھااور اس کی فضائیں مزدور کسانوں کی دلخراش آہوں اور سسکیوں سے بوجھل تھیں ۔اس کے چاروں طرف مدقوق جسموں اور زرد چہروں کا سمندر تھا جن کے لہو سے جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کے لیے بہاریں کشید ہوتی تھیں ۔جنھیں روسی کلیسا کی آسمانی سند تک حاصل تھیں۔ وہ ان مناظر کو عمر بھر اپنے حافظے سے تو نہ کھرچ سکا البتہ اس نظام کو روس میں بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا ۔
سن 1888میں نوسالہ اس یتیم بچے کو اس کی محنت کش ماں نے گوری کے ایک مشن اسکول میں داخل کیا جہاں سے 1894میں فارغ ہوکر وہ طفلس کے ’’ آرتھا ڈاکسی سیمی ناری‘‘ نامی مذہبی ادارے میں داخل ہو ا۔محنت کش ماں اہلِ ثروت کے کپڑے اور برتن دھو کر اس کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھی تاکہ وہ پادری بن سکے۔لیکن اس کے کاندھے صلیب کا بوجھ اُٹھانے کے لیے نہیں تھے بنے بلکہ اس کے افق پر محنت کشوں کا بوجھ تھا۔ اسے مابعدالطبعیات کا نہیں بلکہ جدلیات کا عالم بننا ہے۔ اس کا شمار کالج کے ذہین ترین طلباء میں ہوتا تھا، غیر معمولی یاداشت اور ہر کلاس میں پوزیشن حاصل کرنا اس کا طرہ امتیاز تھا ۔اسے مطالعے کا بے پناہ شوق تھا ۔ جیب خرچ کے لیے تھوڑی بہت ملنے والی رقم سے وہ دیگر ضروریات کا گلا گھونٹ کر کتابیں کرائے پر حاصل کرتا تھا۔ اسی مطالعے کی عادت نے اسے روس سمیت یورپ کے معروف لکھاریوں کی تحریروں سے روشناس کیا ۔یہیں وہ مارکس اور ڈارون سے بھی آشنا ہوا ۔ اس زمانے میں وہ جارجیائی زبان میں انقلابی شاعری بھی کرنے لگا ۔’’ ممنوع کتابیں‘‘ پڑھنے کی پاداش میں کئی بار کالج انتظامیہ نے اسے سزائیں دیں ۔1898میں جب ’’ روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی‘‘کا قیام عمل میں آیا تو اس 19سالہ نوجوان نے اس میں شمولیت اختیار کر لی ۔مئی 1899میں انقلابی سرگرمیوں کی پاداش میں اسے کالج سے نکال دیا گیا ۔1900میں اسے طفلس کے لیے پارٹی کا صدر منتخب کر لیا گیا ۔یکم مئی 1901 کو زار شاہی کی پابندی اور جبر وتشدد کے باوجود طفلس کے ہزاروں محنت کشوں نے کامریڈ اسٹالین کی قیادت میں سڑکوں پر یکم مئی کا جلوس نکالا۔اس موقع پر زار کی پولیس سے تصادم میں14مزدور زخمی اور 15گرفتار ہوئے ۔ کامریڈ لینن نے ’’ اسکرا ‘‘ میں اسٹالین کی خدمات کو سراہاتے ہوئے اسے کاکیشیا میں تاریخی اہمیت کا واقعہ قرار دیا ۔ اس کے بعد باطوم کی مزدور تحریک میں اسٹالین کی زیر زمین سرگرمیوں کا آغاز ہوا ۔اپریل 1902میں کامریڈ اسٹالین کو زار کی پولیس نے گرفتار کر لیا اور ڈیڑھ سال کا عرصہ اس نے ’’ کتائیس ‘‘ کی بدنام زمانہ جیل میں گزارا ۔ بے پناہ تشدد اور مظالم کے باوجود پولیس اس سے پارٹی کے خفیہ پریس اور ساتھیوں کے ٹھکانے اگلوانے میں ناکام رہی ۔ جولائی 1903میں جب پارٹی دو دھڑوں بالشویک اور منشویک میں تقسیم ہوئی تو اسٹالین نے لینن کے بالشویک نقطہ نظر کا ساتھ دیا ۔نومبر 1903کی سرما میں اسٹالین کوتین سال کے لیے سائبریا جلاوطن کر دیا گیا جہاں سے جنوری1904میں فرار ہو کراس نے باطوم اور پھر طفلس کا رخ کیااور تیل کی صنعت کے مزدوروں کو منظم کرنے لگا ۔انہی مزدوروں نے اسٹالین کی رہنمائی میں 13 دسمبر 1904 تا 31 دسمبر 1904 وہ تاریخی ہڑتال کی جس کے نتیجے میں پہلی بار روس میں اجتماعی سودا کاری کا معاہدہ ہوا ۔ یوں کامریڈ اسٹالین کو بجا طور پر روسی ٹریڈ یونین تحریک کا معمار کہا جاسکتا ہے ۔
دسمبر1905میں ’’ روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی‘‘کی پہلی کُل روسی کانفرنس میں کامریڈ لینن نے پہلی ملاقات میں اس 26سالہ نوجوان انقلابی کی انتھک جدوجہد ،غیر فانی عزم و حوصلے ،غیر معمولی سیاسی سرگرمیوں اور زار شاہی کی قید وبند کا پامردی سے نہ صرف مقابلہ کرنے بلکہ سائبیریا کے خطرناک ترین مقام کی جلاوطنی سے فرار پر اسے ’’حیران کُن جارجین‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ تم واقعی مردِ آہن یعنی اسٹالین ہو۔ اس نے زندگی بھر اس نام کی لاج رکھی ۔ 9 جنوری 1905 کو جب روسی انقلاب کو خون میں نہلایا گیا تو کاکیشیا میں ہونے والی ہڑتالوں اور بغاوتوں کی قیادت اسٹالین نے ہی کی ۔جون 1907 میں دوبارہ باکو میں انقلابی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور مارچ 1908 میں پھر گرفتار ہوا ۔1907سے 1917 کے عرصے میں اسے 7بار گرفتار اور 6 بار جلا وطن کیا گیا ۔ کامریڈ اسٹالین کے زیر ادارت چار بالشویک اخبار ’ نئی زندگی، نیا زمانہ ، ہماری زندگی ، وقت ‘ نکلتے تھے ۔ 5 مئی 1912 کو کامریڈ لینن کی ہدایت پر اسٹالین کے زیر ادارت مشہور بالشویک انقلابی اخبار ’’ پرودا ‘‘ بمعی صداقت نکالا گیا جس کے دیباچے میں کامریڈ اسٹالین نے لکھا کہ ’’ ہمارے خیال میں مضبوط اور لڑاکا تنظیم نزع کے بغیر ممکن نہیں ۔ سوچوں کی ہم آہنگی صرف قبرستان میں ہی حاصل ہو سکتی ہے ۔ محنت کشوں کی مختلف پرتوں میں کافی چیزیں اتحاد پیدا کرتی ہیں انھیں تقسیم کرنے کی بجائے کافی زیادہ چیزیں انھیں متحد کرتی ہیں ۔‘‘ صرف یہی نہیں بلکہ نظریاتی و علمی محاذ پر اسٹالین نے منشویکوں، سوشلسٹ انقلابیوں ،اور مہاروسی قوم پرستوں کا بھی پردہ چاک کیا ۔ اسٹالین نے انارکزم کو فکری محاذ پر شکست دینے کے لیے کروپوتکن کے خلاف اپنے مشہور مقالات قلم بند کیے جو ’’لینن ازم اور انارکزم‘‘ کے نام سے شایع ہوئے ۔ جنوری 1913 میں اسٹالین نے قومی سوال پر اپنا مشہور ڈرافٹ ’’ قوم اور قومیتیں ‘‘ تحریر کیا جسے قومی سوال پر آج تک بنیادی ماخذ کی حیثیت حاصل ہے ۔جب کہ ان کی شہرہ آفاق کتابوں اساسِ لینن ازم،لینن ازم کے مسائل اور تاریخی وجدلی مادیت کو لینن ازم میں کلاسیک کا درجہ حاصل ہے ۔کامریڈ اسٹالین کا کیا ہوا نظریاتی اور علمی کام 14جلدوں پر مشتمل ہے ۔اکتوبر 1917میں پیٹرو گراڈمیں آخری معرکے کے لیے جب بالشویک پارٹی نے مسلح بغاوت کا فیصلہ کیا تو اس کی ذمہ داری اسٹالین کو ہی سونپی گئی تھی۔عظیم اکتوبر انقلاب کی کامیابی کے بعد کامریڈ اسٹالین قومی امور کے کمیسار مقرر ہوئے ۔جب اس انقلاب پر خانہ جنگی اور بیرونی مداخلت مسلط کی گئی تو اسے فرو کرنے میں تاریخی کردار ادا کیا جسے پر اسے ’’ہیرو آف دی ریڈ فلیگ ‘‘کے اعزاز سے نوازا گیا ۔ 3 اپریل 1922کو کامریڈ لینن کی تجویز پر کامریڈ اسٹالین کو پارٹی کا جنرل سیکریٹری چنا گیا اور 30دسمبر 1922 کو وہ سرخ اتحادِ شوروی وجود میں آیا جو دنیا بھر میں سوویت یونین کے نام سے معروف ہوا ۔
21 جنوری 1924 کو لینن کی رحلت کے بعد یہ کامریڈ اسٹالین ہی تھے جنھوں نے پارٹی کے اندر ابھرنے والے ٹٹ پونجیے رحجانات کے خلاف بالشو ازم کا پرچم بلند رکھا ۔ یہ وہی رحجانات تھے جن کے متعلق جرمنی کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے ( بریست معاہدہ ) کے موقع پر لینن نے مرکزی کمیٹی کے دو ارکان کے بارے میں کہا تھا کہ ’’ بخارن اور ٹراٹسکی نے دراصل جرمن سامراجیوں کی مدد کی اور جرمنی میں انقلاب کی ترقی کے راستے میں رخنہ انداز ہوئے ۔‘‘( لینن ،مجموعہ تصانیف ،جلد 22، صفحہ 37)
6مارچ 1918کو پارٹی کانگریس میں بریست معاہدے کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے لینن نے کہا کہ ’’ پارٹی کے اندر ایک انتہا پسند مخالف گروپ قائم ہونے کے باعث ہماری پارٹی جس شدید بحران سے گزر رہی ہے ، روسی انقلاب کو اس سے زیادہ شدید بحران کا کبھی مقابلہ نہیں کرنا پڑا ۔‘‘ ( لینن ،مجموعہ تصانیف ،جلد 7، صفحہ 293)
کامریڈ اسٹالین کی قیادت میں ایک طرف تو ان انقلاب دشمن رحجانات اور سازشوں کا قلع قمع کیا گیا تو دوسری جانب زار شاہی کے پچھڑے ہوئے روس کو محض تین دہائیوں میں ایک جدید صنعتی ملک بنا دیا گیا ۔ سامراجی ممالک نے جو ترقی چار، پانچ صدیوں تک ایشیاء ، افریقہ اور جنوبی امریکا کے وسائل کی لوٹ مار، قتل عام، انسانی غلامی اور قبضہ گیری کے ذریعے کی اس کے سامنے سوویت یونین کی اجتماعی محنت کی بنیاد پر اس ترقی کی انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
دوسری عالمگیر جنگ میں فاشزم کو تہہ تیغ کرنا بھی کامریڈ اسٹالین کی قیادت میں ہی ممکن ہو سکا ۔ اسٹالین گراڈ کی ناقابل فراموش لڑائی کا شمارجنگی تاریخ کے چند ایک بڑے کارناموں میں ہوتا ہے جو جولائی 1942کے وسط میں شروع ہوئی اور دسمبر کے آخر میں ختم ہوئی ۔ اس جنگ میں سرخ فوج سوشلسٹ مادر وطن کے ایک ایک انچ کے لیے جس بے جگری سے لڑی اس نے دنیا کو حیران کر دیا ۔اس زمانے میں 90سالہ سوویت شاعر کامریڈ جمبول جابر کے اشعار سوویت یونین کے طول وعرض میں گونجنے لگے اور اسی زمانے میں ہمارے ممتاز انقلابی شاعر مخدوم محی الدین نے اسے اردو کا پیراہن عطا کیا اور برصغیر کے کروڑوں باشندوں نے سنا
برق پا وہ مرا رہوار کہاں ہے لانا
تشنہء خوں مری تلوار کہاں ہے لانا
میرے نغمے تو وہاں گونجیں گے
ہے مرا قافلہ سالار جہاں استالین
اسٹالین گراڈ کے محاذ پر نازیوں کو منہ کی کھانی پڑی۔ ان کے 260 ڈویژن فوج کے مقابل سرخ فوج کے محض 59 ڈویژن تھے جو فاتح رہے ۔90 ہزار جرمن فوجی قیدی بنائے گئے جن میں 24جنرل شامل تھے ۔ کم ہی لوگ جانتے ہوں گے کہ اس جنگ میں اسٹالین کے بیٹے یاکوو کو بھی نازیوں نے قید کر لیا تھا اور اس کے بدلے اپنے جنرلوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا جسے اسٹالین نے مسترد کر دیا اور نازیوں نے اسے عقوبت خانے میں اذیتیں دے کر قتل کر دیا۔ سوویت یونین کے پونے تین کروڑ نفوس اس جنگ میں کام آئے تھے ۔ لیکن دنیا نے9مئی 1945کا وہ منظر بھی دیکھا جب جرمن نسل پرستی کی علامت سواستیکا ، درانتی اور ہتھوڑے سے مزین سرخ پرچم کے سامنے سرنگوں تھا ۔ فاشزم کی کبر ورعونت کی علامت جرمن پارلیمنٹ ’ریشتاغ‘ پر ایک سوویت سپاہی نے سرخ پرچم لہرا کر فسطائیت کی موت کا اعلان کیا ۔ سچ تو یہ ہے کہ یورپ و امریکا کے سفید فام لبرل نسل پرستوں نے اس منظر کو آج تک فراموش نہیں کیا ۔ انھیں آج بھی یہ تکلیف ہوتی ہے کہ ’مشرق کا رنگدار باشندہ‘ اسٹالین آ کر مغرب کو آزاد کراتا ہے ۔ اسٹالین کا یہ جرم ان کے نزدیک ناقابلِ معافی ہے ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اس کے جلو میں مشرقی یورپ سے لے کر چین ، کوریا،ویت نام اور منگولیا تک میں سرخ سویرا طلوع ہوتا ہے اور دنیا کی نئی بندر بانٹ کا سامراجی منصوبہ ناکام ہوتا ہے ۔ ساحر لدھیانوی نے اسی فتخ کے جذبوں سے سرشار ہو کر کہا تھا
برتر اقوام کے مغرور خداؤں سے کہو
آخری بار ذرا اپنا ترانہ دھرئیں
اور پھر اپنی سیاست پہ پشیماں ہو کر
اپنے ناکام ارادوں کا کفن لے آئیں
جاری ہے

Facebook Comments

مشتاق علی شان
کامریڈ مشتاق علی شان مارکس کی ان تعلیمات کو بھولے نہیں جو آج بھی پسماندہ طبقات کیلیے باعث نجات ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply