سورہٴ یوسفؑ (۱۲) سے اخذ کئے گئے اسباق۔۔خرم خان

کاش ہم قرآن مجید ترجمے سے پڑھتے ہوتے تو ہم دیکھتے کہ کتنے سبق صرف سورہٴ یوسفؑ سے ہی ہم کو ملتے ہیں۔ جب ہم سورہٴ یوسف  کا مطالعہ غور و تدبر کے ساتھ طالبانہ انداز میں کرتے ہیں تو مندرجہ  ذیل اسباق  اخذ کرتے ہیں۔ یہ اسباق میں نے اپنے فہم کے مطابق مرتب کیے ہیں، کوئی اور شخص شاید اپنے فہم کے مطابق اس فہرست میں اور بھی اضافہ کر سکتا ہے کیونکہ یہ سورة اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتارا ہوا ایک خزانہ ہے جس سے جواہرات نکلتے ہی رہتے ہیں ہم جتنی دفعہ  بھی مطالعہ کریں :

  •  جلن میں بھائی بھائی بھی ایک دوسرے کی  جان کے دشمن ہو جاتے ہیں اور اس میں عمر کی کوئی قید نہیں  ہوتی
  •  بہت دفعہ  لوگوں کا بُغض ایک عمر چلتا ہے جس کی مثال یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کی اِس جملے سے واضح ہوتی ہے:

” بھائیوں نے کہا: اگر یہ چوری کرے تو کچھ تعجب کی بات نہیں ہے، اِس سے پہلے اِس کا ایک بھائی بھی چوری کر چکا ہے۔ مگر یوسف نے اِس کو اپنے دل ہی میں رکھا، اُن پر اِسے ظاہر نہیں کیا، بس (اپنے جی میں) اتنی بات کہہ کر رہ گیا کہ تم لوگ بڑے ہی برے ہو اور جو کچھ تم بیان کر رہے ہو، اللہ اُس کو خوب جانتا ہے۔“ (   ۷۷)

یہ بات ان کے بھائیوں نے تب کہی جب وہ ایک عرصہ دراز بعد ان سے ملے جب وہ مصر حکومت میں خزانہ کے امور کو دیکھتے بھالتے تھے اور ابھی انھوں نے یوسف علیہ السلام کو پہچانا بھی نہیں  تھا کیوں کہ ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں  تھا کہ جس بچے کو جلن کی آگ میں انھوں نے ایک کنویں میں ڈالا تھا وہ آج ان کے سامنے کھڑا ہے ۔

  • دنیا میں بہت کچھ ہو رہا ہوتا ہے مگر ہماری سمجھ میں نہیں  آرہا ہوتا  ، مگر اللہ کی اس پر مکمل گرفت ہوتی ہے۔ ایک بچہ جس کو اندھے کنوئیں میں پھینک دیا گیا، کیسے بازار میں بِکا، پھر جیل میں ناحق ڈالا گیا جہاں وہ کئی سالوں پڑا رہا مگر وہاں سے نکلا تو ملک کے خزانے اس کو دئیے گئے کہ وہ سنبھالے اور وہ مصر میں جہاں چاہے رہے۔ مندرجہ زیل آیت اسی حقیقت کو واضح کر رہی ہے کہ اللہ کیسے ہر چیز کو اپنی گرفت میں رکھتا ہے اور کسی کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے:

” حقیقت یہ ہے کہ میرا پروردگار جو کچھ چاہتا ہے، اُس کے لیے نہایت مخفی راہیں نکال لینے والا ہے“ (  ۱۰۰)

  •  سچ کو سچ ثابت ہونے میں کبھی بہت عرصہ  بھی لگ جاتا ہے یہ اللہ کی اپنی حکمت کا تقاضا  ہے کہ کب وہ سچ کو روشن سورج کی طرح عیاں کردے اور لوگ اگر سر کش اور گھمنڈ میں مبتلا نہیں  ہوں تو اس سچ کے آگے اپنا سر جھکا دیں ۔ جیسے کہ عزیزِ مصر کی بیوی اور دوسری عورتوں کو آخر میں ماننا ہی پڑگیا اور سچ کے آگے سر جھکا دیا کہ یوسف علیہ السلام بے گناہ ، انتہائی امانت دار اور سچے کردار کے مالک تھے۔
  •  امانت میں خیانت کسی طور   بھی نہیں  کی جاسکتی، یہ ہی وہ اخلاق ہے جس کی سب سے زیادہ عکاسی اس سورة میں ہوتی ہے اور یوسف علیہ السلام آخری درجے تک اس کا پیکر بنے رہے یہاں تک کہ  جیل جانا پسند کیا اور جیل سے نکلنے سے پہلے بھی اس بات کو واضح کروایا کہ انھوں نے کبھی بھی خیانت نہیں  کی ،تاکہ اُن کے مالک کو، جس نے ان کورہنے کی جگہ دی تھی، اس بات کی تسلی ہو جائے۔
  •  پیغمبر بھی نفسانی میلانات سے دور نہیں  ہوتے مگر ان کا کردار ایسا ہوتا ہے کہ اس کو مشکل سے مشکل لمحات میں بھی قابو میں رکھ پاتے ہیں ،اللہ کی مدد سے جب اخلاقیات کی ہر صورت پاسداری کی جارہی ہو۔
  •  اور مردوں کو اللہ کا خوف ہو اور باکردار   ہوں تو وہ اپنی جنسی خواہشات پر بھی قابو پاسکتے ہیں جیسے کہ یوسف علیہ السلام نے کر کے دکھایا وہ بھی اُس عمر میں جب جنسی خواہشات سب سے زیادہ زور مارتی ہیں۔
  •  جنسی خواہشات میں ایک عورت بھی آپے سے باہر ہو سکتی ہے، صرف مرد ہی نہیں ،  خاص طور پر جب وہ ایک مالکہ کا درجہ رکھتی ہو اور کسی کا ڈر نہ ہو۔
  •  اسی سورة کی مندرجہ  ذیل آیت اللہ کی  ایک انتہائی اہم ا  سنت بیان کرتی

” ہم اپنی رحمت سے جس کو چاہتے ہیں، نوازتے ہیں اور خوبی اختیار کرنے والوں کا اجر ہم کبھی ضائع نہیں  کرتے  ۔“ ( ۵۶)

اللہ تعالیٰ اس میں ہر شخص کو یہ بتا رہے ہیں کہ وہ کبھی بھی کسی کے اچھے کام کو ضائع نہیں  کرتے۔ ہمیں کبھی بھی مایوس نہیں  ہونا چاہیے کہ اگر کوئی اچھا کام ہم کریں اور اس کا نتیجہ ہم کو فوراً نہیں  ملے تب بھی یہ اطمینان رکھنا چاہیے کہ اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں  کرتا تو ایک نا ایک دن ضرور اس کا اجر ملے گا اور کسی حکمت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس دنیا میں اجر نہیں  دیں گے تو تب آخرت میں لازمی اس کا نتیجہ ضرور دیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london
  • اللہ تعالیٰ یہ پسند نہیں  کرتا کہ کوئی حکمران کا قانون لاگو ہو اور اس کی خلاف ورزی ہو، اسی وجہ سے اللہ نے یوسف علیہ السلام کے چھوٹے  بھائی بن یامین کو روکنے کی تدبیر اس طرح سے کی کہ وہ یوسف علیہ السلام کے پاس رک بھی سکے اور بادشاہ کے قانون کی خلاف ورزی بھی نا ہوئی (ملاحظہ ہو آیت ۷۶)
  •  بندۂ مومن اپنے اللہ کے آگے ہی اپنا غم اور پریشانی کا شکوہ کرتا ہے کیونکہ وہ اس سے ہی ساری آس اور امیدیں وابستہ کرتا ہے کیونکہ یہی بات یعقوب علیہ السلام نے خود فرمائی
  •  اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں  ہونا چاہیے جیسے کہ  یعقوب علیہ السلام کتنے عرصے تک یہ آس لگائے ہوئے تھے کہ ایک نا ایک دن اللہ ان کے پاس یوسف علیہ السلام کو واپس لے ہی آئے گا
  • قرآن کو جو کردار ہر انسان سے مطلوب ہے اس کی بہترین مثال یوسف علیہ السلام میں بھی ملتی ہے۔ آخر میں جب اہل و عیال ایک جگہ مل گئے تو انھوں نے کوئی شکوہ نہیں  کیا، کوئی طعنہ زنی نہیں  کی اپنے بھائیوں سے حالانکہ انتہائی درجے  کا ان کے ساتھ ظلم ہوا بلکہ اس کو یہ کہہ کر ختم کردیا کہ شیطان نے ان کے درمیان فساد ڈالوادیا اور اپنے پروردگار کی تعریف اور شکر ادا کیا
  • اس سورة سے ایک اور انتہائی اہم سبق سامنے آتا ہے کہ ہمیشہ ہم کو عاجزی کا مظاہرہ کرنا چاہیے جیسا کہ یوسف علیہ السلام نے ہمیشہ عاجزی کا مظاہرہ کیا یہاں تک اس وقت بھی جب وہ لوگوں کے سامنے سچےثابت ہوگئے

یہ سورة میں جتنی دفعہ  بھی پڑھوں ، مجھ پر نئے نئے پہلو واضح ہوتے ہیں۔ جو احباب اس پوسٹ کو پڑھ کر کوئی ایسا پہلو ہے جو اس میں نہیں  پاتے براہ مہربانی کمنٹ میں ضرور پیش کریں تاکہ میں اور سیکھ سکوں۔

Facebook Comments

خرم خان
شعبہ سوفٹوئیر انجئینیرنگ سے تعلق ہے میرا۔ مذہب کے فہم کو بڑھانے کے لئے قرآن کا مطالعہ کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ اسلام کے مختلف اہل علم کی رائے اور فہم کو پڑھ اور سن کر اپنا علم بڑھانے کی کوشش کرتا ہوں ۔ مذہب میں تقلیدی رویے کی شدید مذمت کرتا ہوں، اور عقل کے استعمال کو فروغ دیتا ہوں جیسا کہ قرآن کا تقاضہ ہے، اور کسی بھی فرقے سے تعلق نہی رکھتا، صرف مسلمان کہلانا پسند کرتا ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply