قصور ساکشی کا نہیں ابتدا مودی نے کی تھی:حفیظ نعمانی

اگر وزیر اعظم مودی پہل نہ کرتے تو کیسے یوگی اور کہاں کے سا کشی کسی کی ہمت نہ ہوتی کہ وہ قبرستان ا ور شمشان کی بات کرتا یا دیوالی اور رمضان کا مقابلہ کرتا۔ وزیر اعظم نے جو کہا وہ صرف ہندوؤں کے ووٹ کے لیے کہا اور ایک وزیر اعظم کے لیے شرم کا مقام ہے کہ وہ اپنے ہی ملک کے دو فرقوں میں نفرت پھیلانے کا جرم کرے۔ اس لیے کہ ان کے خلاف تو 153/Aکے تحت کوئی مقدمہ قائم نہیں کرسکتا۔
قبرستان کے بارے میں ہمیں یاد نہیں کہ 1947کے بعد کسی حکومت نے مسلمانوں کو زمین دی ہو۔ ملک جب آزاد ہوا تو جتنے بھی قبرستان تھے وہ زیادہ تر ان مسلمان زمینداروں اور تعلقہ داروں کے دئے ہوئے تھے جن کی حیثیت تھی یا اکثر زمین داروں نے اپنے خاندانی قبرستان اپنے باغ یا زمین میں بنائے تے۔ اور جب بھی کسی نے قبرستان بنایا تھا تو وہ آبادی سے دور تھا ۔بہت دور اس لیے نہیں تھا کہ جنازہ کو لے کر جانے والے پیدل جاتے تھے اور ان میں ہر عمر کے ہوتے تھے۔
ملک کی آبادی ہر دن بڑھی تو زمین پرمکان بنتے گئے اورقبرستان رفتہ رفتہ شہر کے اندر آگئے۔ جیسے لکھنؤ کا عیش باغ مسپّا قبرستان پیپر مل کالونی اور ڈالی گنج جو سب آبادی سے کافی دور تھے اور اب شہر کے اندر ہیں اور شہر میں ہونے کی وجہ سے جو زمین سو روپے بیگھہ تھی وہ ۷۰ ہزار روپے فٹ اور ۱۵ ہزار روپے فٹ ہوگئی اور بے ایمان بلڈروں نے دلالوں اور غنڈوں کے بل پر زمین پر قبضہ کرکے انہیں فروخت کرنا شروع کردیا۔ مسلمانوں کے مطالبہ کے بعد وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے ایک بہت بڑا اور اچھا کام کیا ہے کہ جتنے بھی بڑے قبرستان صوبہ میں ہیں ان کی حد بندی کرنے کا حکم دے دیا۔
اب اگر وہ بلڈر اور زمین مافیا کے ڈا کو وزیر اعظم کے قریبی یا ان کی پارٹی کی مدد کرنے والے ہیں تو وہ وزیر اعظم کی حیثیت سے بتائیں کہ کیا کسی کی زمین پر زبردستی قبضہ کی وہ ہمت افزائی کریں گے؟ انہیں اگر کہنا تھا تو یہ کہتے کہ جیسے قبرستان کی زمین کے چاروں طرف دیواریں کھنچ رہی ہیں ایسی ہی شمشاد کے گرد دیواریں بنوادی جائیں تو انصاف کی بات تھی۔
ان کا یہ کہنا کہ قبرستان کے لیے زمین دی جارہی ہے تو شمشان کے لیے بھی دی جائے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ایسے وزیر اعظم ہیں جو اپنے ملک کے ۲۰ کروڑ مسلمانوں کے جینے مرنے کے بارے میں بھی نہیں جانتے۔ اور یقین ہے کہ وہ نہیں جانتے ہوں گے۔ اگر جانتے ہوتے تو رمضان اور دیوالی کا موازنہ نہ کرتے۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ وہ دیوالی جو ایک یا دو دن کی ہے اس کا موازنہ مودی رمضان سے کررہے ہیں۔ وہ رمضان جو ۳۰ کا ہوتا ہے اور اس میں بجلی کا کوئی کام نہیں ہے۔
مسلمانوں کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ رمضان میں جتنی روشنی ہوگی اتنے ہی نیکی کے فرشتے آئیں گے۔ نیکی کے فرشتے اس گھر میں سب سے زیادہ آئیں گے جہاں خدا کی عبادت اور اس کی کتاب کی تلاوت ہورہی ہوگی۔ وہ چھپر کا مکان ہو یا اس مکان میں اندھیرا ہو یا ایک چراغ جل رہا ہو یا دس راڈ جل رہے ہوں۔ اس مہینے کی رات میں بس اتنی روشنی کی ضرورت ہے کہ قرآن عظیم پڑھ لیں یا ٹھوکر نہ کھائیں۔ملک کا وزیر اعظم ایک دن کی دیوالی اور ۳۰ دن کے رمضان کو جب برابر کہے گا تو ا س کے چیلے گورکھپورکے یوگی اس جاہل رپورٹر سے کیوں نہ بحث کریں گے کہ جو کہے گا کہ رمضان کے مقابلہ میں دیوالی میں زیادہ بجلی دی گئی اور ممبر پارلیمنٹ یوگی کہیں گے کہ اب آبادی کا حساب لگائے کہ مسلمان سے چار گنے ہندو ہیں تو کتنی بجلی ہونا چاہیے؟ اور یہ بحث یہ مان کر ہورہی ہے کہ دیوالی کی طرح رمضان بھی ایک دو دن کا ہوتا ہے۔ وہ ہندو رپورٹر بھی نہیں جانتا تھا کہ ۳۰ دن رمضان کے بعد عید ایک دن کی ہوتی ہے۔ اب بجلی کا حساب لگاؤ؟
ہندوستان کی ہر خبر پوری دنیا میں جاتی ہے اور پوری دنیا کی ہندوستان میںآتی ہے۔حکومت کے جو ذمہ داران باتوں کو جانتے ہیں کم از کم وہی وزیر ا عظم کو بتادیں کہ رمضان کیا ہوتا ہے۔ عید، بقرعید کیا ہے اور قبرستان کی دیوار اور زمین کا کیا قصہ ہے؟
جو قبرستان خاندانی ہیں اور وہ صوبہ میں ہزاروں نہیں لاکھوں ہوں گے۔ اس لیے کہ قبرستان کا قانون ہے کہ جس قبر کو بنے ہوئے دس برس ہوجاتے ہیں اس میں دوسرے مردہ کو دفن کردیا جاتا ہے اور یہ ہندوستان میں ہی نہیں مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع اور دوسرے تمام سرکاری قبرستانوں کا قاعدہ ہے۔ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ جہاں ہمارے دادا اور باپ دفن ہوں وہاں کوئی دفن نہ ہو تو وہ اپنے باغ یا اپنی زمین کے ایک حصہ کو قبرستان کے لیے وقف کردیتے ہیں۔ خود ہمارے دادا نے اپنے باغ کا ایک حصہ قبرستان بنادیا تھا اور سارا خاندان جو سنبھل میں تھا وہ وہیں دفن ہے اور ہوتا رہے گا۔
ہر صوبہ اور مرکزی حکومت میں ایک وقف کامحکمہ ہے۔ اترپردیش کے سنی اوقاف اور شیعہ اوقاف کے ذمہ دار وں سے معلوم کرلیا جائے کہ اکھلیش یادو نے زمین دی ہے یا وقف کے قبرستانوں کی حد بندی کرائی ہے؟ اگر اکھلیش یادو نے زمین مافیا سے وقف کے قبرستانوں کی زمین کو بچایا ہے تو مودی جی بتائیں کہ اچھا کیا یا برا کیا؟
ہم نہیں جانتے کہ دوسروں کا کیا حال ہے۔ ہم تو خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ سیاسی اختلاف اپنی جگہ مودی جی الیکشن کے منچ پر جب ووٹ مانگنے کھڑے ہوجاتے ہیں تو نہ وہ یہ یاد رکھتے ہیں کہ وہ وزیر اعظم ہیں بلکہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ان کا شمار کس درجہ کے لوگوں میں کیا جائے گا۔وہ بس ایک جواری کی طرح ہر داؤ جیتنا چاہتے ہیں اس کے لیے انہیں دس سیڑھیاں اتر کر زمین پر کھڑے ہونا پڑے یا کھودی ہوئی کھائی میں اترنا پڑے۔ وہ ہر حال میں بازی جیتنا چاہتے ہیں اور اس کے بعد بھی جب ہار جاتے ہیں تو اپنے مخالف کو اروندکجریوال بنادینا چاہتے ہیں۔ کتنا اچھا ہوتا کہ وہ صوبوں کے الیکشن میں اپنی عزت نیلام نہ کرتے اور ۲۰۱۹ء میں ۲۰۱۴ء کی طرح لڑتے۔اس لیے کہ اگر اب یوپی میں ہارے تو دو لڑکوں سے یا ایک دلت خاتون سے ہارنے کی تکلیف انہیں نہ جانے کتنے دن سونے نہیں دے گی۔

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply