کچھ سنا آپ نے مسٹر پرائم منسٹر؟ ایم ودود ساجد

یہ سطور بی جے پی کے وزیر اعظم کے نام ہیں۔ مجھے مجبوراً موجودہ وزیر اعظم کو بی جے پی کا وزیر اعظم کہنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے اپنے عمل اور اپنے کھلے افکار سے یہ بتادیا ہے کہ وہ اس ملک کے 125 کروڑ عوام کے نہیں بلکہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے لیڈر ہیں۔ پچھلے تقریباً تین سالوں میں ان کے اقدامات سے ایک بار بھی ایسا نہیں لگا کہ وہ 125 کروڑ عوام کی فلاح کیلئے کچھ سوچتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں تو امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی تعریف کرنے کو جی چاہتا ہے۔ میں ابھی امریکی کانگریس ( یعنی امریکہ کی پارلیمنٹ ) میں ٹرمپ کی اولین تقریر سن کر بیٹھا ہوں۔ ٹرمپ کی انتخابی مہم سے لے کر ان کے منتخب ہونے تک اور اس کے بعد انتہائی متنازعہ امیگریشن قانون کے بننے اور اس پر عدالتی پابندی لگنے تک ٹرمپ کی شخصیت کے تعلق سے کچھ بھی تصور قائم ہوا ہو لیکن گزشتہ یکم مارچ کو ٹرمپ نے امریکی کانگریس سے جو خطاب کیا اس نے ان کی مسموم شخصیت کے تصور کو وقتی طور پر ہی سہی، بدل کر رکھ دیا۔ مجھے یہاں ٹرمپ کی یکطرفہ اور غیر مشروط ستائش مقصود نہیں ہے۔ لیکن چونکہ مودی کی طرز پر ہی ٹرمپ کی بھی انتخابی مہم چلائی گئی تھی اور انہی کی طرز پر وہ غیر متوقع طور پر کامیاب بھی ہوئے اس لئے دونوں کے افکار، عمل اور عزائم کا تقابلی تجزیہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
بی جے پی کی خاتون لیڈر شاذیہ علمی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں مسلمانوں کو گالیاں دینے کیلئے منعقد ایک پروگرام میں تقریر کیلئے مدعو نہ کئے جانے پر برافروختہ ہیں لیکن اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد ( اے بی وی پی ) کے غنڈوں کے ذریعہ دہلی یونیورسٹی میں لاء فیکلٹی کی سن رسیدہ خاتون ڈین کی شرمناک بے عزتی پر بی جے پی کو کوئی افسوس نہیں ہے۔ جس پروگرام میں شاذیہ علمی کو تقریر نہ کرنے دینے کی شکایت ہے وہ پروگرام آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والی ایک رضاکار تنظیم نے منعقد کیا تھا۔ اس پروگرام میں بظاہر تو مسلم عورتوں کے حقوق کو عنوان بنایا گیا تھا لیکن فی الواقع طلاق ثلاثہ اور دوسرے امور کے بہانے اسلام اور مسلمانوں کو لعن طعن کرنی تھی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، مسلمانوں کی گھنی آبادی سے گھری ہوئی ایک یونیورسٹی ہے۔ اس کی بنیاد میں اگر ایک طرف مہاتما گاندھی کا پسینہ شامل ہے تو وہیں مولانا محمود حسن اور مولانا محمد علی جوہر کا خون جگر بھی شامل ہے۔لیکن مرکز میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد جامعہ کے ذمہ داروں کا رخ ہی بدل گیا ہے۔ یہاں مختلف مواقع پر شاتم رسول سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین تک کی کتابیں اسٹالوں اور پروگراموں میں نظر آجاتی ہیں۔سوال یہ ہے کہ جب تم آستھا کے نام پر ہم سے رعایت لے لیتے ہو تو ہمارے عقیدہ کا احترام کیوں نہیں کرتے؟ مسلم پرسنل لاء کا مسئلہ خالص مسلمانوں کا اپنا اندرونی مذہبی مسئلہ ہے۔ اس کا عام سماج اور ملکی سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ مگر اس کے باوجود اس کے بہانے سے اسلام اور مسلمانوں کو مطعون کرنے کا کھیل برابر جاری ہے۔
دہلی یونیورسٹی کا واقعہ تو بہت ہی تکلیف دہ ہے۔ کم سے کم مجھ جیسے حساس لوگوں کیلئے، جن کو علم اور استاذ کے احترام کی اہمیت گھول گھول کر پلائی گئی تھی، خاتون استاذ کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ انتہائی پریشان کن ہے۔ جے این یو اور دہلی یونیورسٹی میں آج کل اظہار رائے کی آزادی کو کچلنے کیلئے طلبہ کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اس سے سب واقف ہوں گے۔ آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والی اسٹوڈنٹ تنظیم اے بی وی پی کے لٹھ برداروں نے نجیب کے حق میں آواز اٹھانے والوں کو دہشت گرد قرار دے کر پورا ماحول پراگندہ کردیا ہے۔ ایک ویڈیو نمودار ہوئی ہے جس میں اے بی وی پی کا ایک غنڈہ لا فیکلٹی کی ڈین ایک سن رسیدہ خاتون کو تین پولس افسروں کی موجودگی میں ناقابل بیان انداز اور الفاظ میں ڈرا دھمکا رہا ہے۔ اس ویڈیو میں خاتون پروفیسر کی بے بسی دیکھ کر وہی لوگ مسکرا سکتے ہیں جن کے سینوں میں انسانوں کا نہیں بلکہ آدم خور وحشی جانوروں کا دل ہو۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس ویڈیو کو دن رات چیخنے والے الیکٹرانک میڈیا نے کوئی اہمیت نہیں دی۔ مسلم عورتوں کے حقوق کے بہانے اسلام کو گالیاں دینے والوں کا اصلی چہرہ یہ ہے کہ قانون پڑھانے والی ایک بردبار اور معمر خاتون کو سرعام پولس افسروں کے سامنے ذلیل کیا جارہا ہے۔ اس کا مستقبل برباد کرنے کی کھلی دھمکی دی جارہی ہے لیکن پولس افسران بھیگی بلی بنے کھڑے ہیں۔مسلم ’’ بہنوں ‘‘ کی طلاق کے معاملہ پر ہمدردی دکھانے والے وزیر اعظم تک ایک ہندو خاتون کی بے حرمتی پر خاموش ہیں۔
یوپی کی انتخابی مہم کے دوران نریندر مودی اور امت شاہ کیسے کیسے شرمناک بیانات دے چکے ہیں اسے دوہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔قبرستان، شمشان، رمضان، قصاب اور اب برقعہ والی عورتوں کی چیکنگ جیسے انتہائی اشتعال انگیز اور مسلم دشمن بیانات کی ایک طویل فہرست ہے۔ الیکشن کمیشن نے اس تعلق سے جو مجرمانہ تساہلی برتی ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ لیکن آر ایس ایس کے ایک سینئر لیڈر نے اجین میں کیرالہ کے وزیر اعلی کے خلاف تقریر کرتے ہوئے جس طرح مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا ہے وہ کسی صورت قابل برداشت نہیں ہے۔ ایک جلسہ میں اس لیڈر نے کیرالہ کے وزیر اعلی کا سر کاٹ کر لانے والے کو ایک کروڑ روپیہ دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔ اس نے جوش میں آکر یہ بھی کہہ دیا کہ ( گجرات میں ) 56 مارے تھے، ہم نے 2000 کو قبرستان میں پہنچا دیا۔ ظاہر ہے کہ یہ اشارہ 2002 میں سابر متی ٹرین کے سانحہ میں 56 کارسیوکوں کی موت اور پھر گجرات فسادات میں دوہزار مسلمانوں کے قتل عام کی طرف ہی ہے۔ آر ایس ایس کا یہ لیڈر کھلے عام کیرالہ کے وزیر اعلی کا سر کاٹ کر لانے کی ترغیب دے رہا ہے اور یہ بھی بتارہا ہے کہ گجرات میں مسلمانوں کا جو قتل عام ہوا تھا وہ ایک منظم پلاننگ کا حصہ تھا جسے حکومت اور آر ایس ایس نے مل کر انجام دیا تھا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو آر ایس ایس نے اس کی وضاحت کر دی ہوتی۔ آر ایس ایس کا جو تازہ بیان آیا ہے اس میں صرف کیرالہ کے وزیر اعلی کا سر کاٹ کر لانے کے اعلان کی مذمت کی گئی ہے۔ گجرات کے دوہزار مسلمانوں کے قتل عام کے تعلق سے اس لیڈر نے جو کچھ کہا ہے اس سے بیزاری کا اظہار نہیں کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گجرات قتل عام کو آر ایس ایس کی رضامندی حاصل ہے۔ پھر بھی مسلمانوں کے چند میر جعفر اندریش کمار کی سربراہی میں آر ایس ایس کا مسلم ونگ بناکر ان کے تلوے چاٹ رہے ہیں اور جامعہ جیسی حساس یونیورسٹی میں اسلام کو مطعون کرنے کیلئے پروگرام منعقد کر رہے ہیں؟
امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا کچھ اور ذکر ضروری ہے۔جو لوگ امریکہ کے صدارتی انتخاب کی مہم اور اس کے بعد کے حالات پر نظر رکھے ہوئے تھے انہیں اندازہ ہوگا کہ ٹرمپ سے کسی خیر کی توقع تو دور کسی کلامِ خیر کی بھی امید نہیں کی جاسکتی۔ لیکن انہوں نے امریکی کانگریس میں جو تقریر کی ہے وہ ہمارے ہندوستانی سیاست دانوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔ ٹرمپ کیلئے امریکہ کی اپوزیشن جماعت اسی طرح ہے جس طرح مودی کیلئے سونیا اور راہل کا وجود ہے۔ وزیر اعظم نے ہر موقعہ پر یہ بات ببانگ دہل کہی ہے کہ ہندوستان کو کانگریس سے پاک کرنا ہے۔ انہوں نے تو اپنے غیر ملکی دوروں تک کو اپنی اس خواہش کے اظہار کیلئے استعمال کیا۔ لیکن دوسری طرف ٹرمپ نے اپنی ایک گھنٹے کی تقریر میں اپوزیشن جماعت کا جتنی بار بھی نام لیا مل کر کام کرنے اور امریکہ کی تعمیر نو میں مدد طلب کرنے کیلئے لیا۔ ٹرمپ نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ امریکہ نظریات کی بنیاد پر دو حصوں میں منقسم ہوگیا لیکن میرا عزم ہے کہ اب ہم سب مل کر کام کریں گے۔ ٹرمپ نے بتایا کہ جب سے انہوں نے عہدہ صدارت سنبھالا ہے درجنوں بڑی غیر ملکی کمپنیوں نے کئی سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کئے ہیں اور دسیوں ہزار نوکریوں کی گنجائش نکلنے والی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ہر شہری کے مکمل تحفظ کا حکم جاری کردیا ہے اور نشہ پر مکمل پابندی کا فیصلہ ہوگیا ہے۔ انہوں نے داعش جیسی دہشت گرد جماعت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس نے خود مسلمانوں کا بھی قتل عام کیا ہے۔ انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ ہم مسلم دنیا میں اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کا خاتمہ کریں گے۔ ٹرمپ نے کنساس میں ایک ہندوستانی انجینئر کے قتل پر بھی افسوس ظاہر کیا۔ اپنی ایک گھنٹے کی تقریر میں ٹرمپ نے حفظان صحت، عام سیکیورٹی، بے روزگاری، روزگار کی فراہمی، غربت اور جرائم کے خاتمہ اور ٹیکس نظام میں اصلاح کا اعداد و شمار کی روشنی میں تفصیلی ذکر کیا۔ یہاں تک کہ مزدوروں کی اجرت میں اور فوج کی فلاح و بہبود کے بجٹ میں اضافہ تک پر بات کی۔ مگر آپ بتائیے کہ کب آپ نے ایوان میں اس طرح کی کوئی بات کی؟ یوپی کے الیکشن میں تو آپ کھل کر سامنے آگئے اور جو بھی کہا وہ مسلمانوں کا دل دکھانے کیلئے کہا۔ پھر کیوں تو آپ کو اس ملک کا وزیر اعظم کہیں اور کیوں ٹرمپ کا موازنہ آپ سے کریں؟
ٹرمپ نے کہا کہ مجھے پوری دنیا کی قیادت نہیں کرنی بلکہ مجھے امریکہ کیلئے کام کرنا ہے۔ آپ نے پوری دنیا کے دورے کرلئے مودی صاحب لیکن کیا کسی ایک کمپنی نے بھی سرمایہ کاری کی؟ آپ نے کب دادری کے محمد اخلاق کے بہیمانہ قتل پر افسوس ظاہر کیا؟ آپنے کب یوگی آدتیہ ناتھ، ساکشی مہاراج، سنگیت سوم اور کیلاش وجے ورگیہ جیسے کھلے مسلم دشمنوں کو روکا؟ آپ نے کب بیس کروڑ سے زائد مسلمانوں کے مسائل حل کرانے کی یقین دہانی کرائی؟ آپ نے کب سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا؟ آپ نے امریکہ کی ہندو کوالیشن کی معرفت ٹرمپ کی انتخابی مہم میں ان کا ساتھ محض ان کی کھلی مسلم دشمنی کی وجہ سے دیا لیکن ٹرمپ نے اب جو کچھ کہا وہ تو آپ نے کبھی نہیں کہا۔ٹرمپ کی تقریر کا آخری جملہ سنا آپ نے؟ انہوں نے کہا کہ آخر کار ہم سب ایک ہی خدا کے بنائے ہوئے ہیں لہذا ہم سب کو مل کر کام کرنا چاہئے۔ کیا آپ ایسا کہنے کو تیار ہیں مودی صاحب؟

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply