اک اور کلی مرجھا گئی میرے گلشن کی،باغباں کہاں؟۔۔عبداللہ قمر

رات 12 بجے کے آس پاس کا وقت تھا ، میں حسبِ معمول مطالعہ وغیرہ کر کے سونے کی تیاری کر رہا تھا کہ  مجھے وٹس ایپ پر ایک پیغام موصول ہوا، وہ پیغام ایک معروف سوشل میڈیا ٹیم کے ہیڈ پرسن  کی جانب سے تھا۔ پیغام یہ تھا کہ  پنجاب کے ضلع قصور کی ایک ننھی کلی زینب امین کو پہلے اغوا کیا گیا پھر  زیادتی کا نشانہ بنا کر  اس قتل کر دیا گیا ہے۔قتل کرنے کے بعد  وہ درندے اس پھول سی بچی کو  کچرے کے  ڈھیر پر پھینک گئے ہیں اور آج پانچ دنوں کے بعد اس کی لاش ملی ہے،ساتھ ہی اُس سات سالہ معصوم زینب کی تصاویر اور ہیش ٹیگ تھا۔ اور دل کو چیر جانے والی  بات یہ تھی کہ زینب کے والدین  عمرہ کی غرض سے سعودیہ ہیں۔اس خبر کا ملنا تھا کہ میری آنکھوں سے نیند تو جیسے غائب ہو گئی اور عجیب اضطراب کی کیفیت پیدا ہو گئی۔اس خبر نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا ۔

بہر کیف دیکھتے ہی دیکھتے پورے سوشل میڈیا پر یہ بات ہر سو پھیل گئی ۔ ہر شخص یہی بات کر رہا تھا۔خیر جیسے تیسے رات گزری ، اگلا دن آیا زینب کے والدین بھی واپس آگئے۔ ہر طرف   مظاہرے شروع ہو گئے مختلف جماعتیں،طلبا تنظمیں میدان میں آ گئیں۔اس دلخراش واقعہ کے بعد  شہر بھر میں شٹر ڈاون ہڑتال ہوگئی اور غم و غصے سے بھرے ہوئے مظاہرین نے  ڈی پی او اور ڈی سی آفس کا گھیراؤ کر لیااور پولیس نے ان پر فائر کھول دیا۔ پولیس کی فائرنگ سے دو افراد کی جان چلی گئی۔ تاہم میں اس  بات پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتا کیونکہ میں سکیورٹی کے معاملات اور ملٹری آپریشن کے متعلق زیادہ معلومات نہیں رکھتا۔ شاید یہ میری نااہلی ہے۔

بہر حال مشتعل مظاہرین کا  ایک ہی مطالبہ تھا کہ” زینب کو انصاف دو”۔ اب یہ بات سمجھ سے بالاتر تھی کہ انصاف کا مطالبہ کیا کس جا رہا ہے۔ پولیس سے؟ جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جب پولیس  ملوث نہ ہو پاکستان کے اند ر کوئی جرم کیا ہیرا پھیری بھی نہیں ہو سکتی۔ ان سیاستدانوں سے ؟؟  جو صرف اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں یا پھر  اپنی سیاست چمکا رہے ہیں۔  یہ ایک تسلیم شدہ بات ہے کہ مقامی لوگوں کے نقصان مداوا  اور زخموں پر مرحم وہاں کا مقامی سیاستدان، کونسلر ، سر پنچ یا جرگہ سسٹم وغیرہ ہوتا ہے۔ لیکن زینب کے گھر والوں پر کیا قیامت ٹوٹی ہو گی  جب  فیصل آباد کی ظالم شخصیت رانا  ثناء اللہ نے یہ بیان دیا کہ  اس سارے معاملے میں قصور وار وہ سات سالہ بچی خود ہے جو کسی انجان کے ساتھ گئی۔پھر موصوف کہتے ہیں کہ اس والدین اس کے ذمہ دار ہیں۔ پھر کہتے ہیں  یہ عوام بھی قصور وار ہیں کہ جو  راہگیروں کو راہبر بنا دیتے ہیں۔ رانا ثناء اللہ صاحب شاید یہ بات بھول رہے  ہیں  کہ ان جیسے نکمے ، نااہل   شخص کو بھی اسی عوام نے راہبر بنا ڈالا ہے،جن کا آپ خون چوس رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

زینب کے ساتھ پیش آنے والے درندگی کے اس واقعہ پر مختلف علماء، طلبا تنظیموں کے راہنماؤں ،اداکاروں  اور کھلاڑیوں کی جانب سے  شدید ردِّ عمل سامنے آیا۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ  نے بھی اس انسانیت سوز  واقعہ پر   شدید الفاظ میں   مذمت  کی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ابھی تک  تو یہ معاملہ میڈیا پر بھی موجود ہے، ہمارے معاشرے  میں بھی ہر زبان زدِ عام ہے۔ لیکن چند دنوں بعد نہ تو ہماری نجی محفلوں میں اس بات کا تذکرہ ہو گا اور نہ ہی میڈیا پر تبصرہ ہو گا، بس یہ کیس فائلوں تلے دب کر رہ جائے گا۔ہمارا شروع سے وطیرہ رہا ہے۔ بچی کے ساتھ زیادتی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ لیکن اب خوابِ غفلت سے جاگنا چاہیے  اور  من حیث القوم ہمیں یہ بات سمجھنی ہو گی کہ یہ معاملات کیوں پیش آ رہے ہیں اور ان کا حل کیا ہے۔اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ  کیا حکومت کی جانب سے یہ مذمتی بیانات کافی ہیں؟ کیا اس سے ذمہ داریاں پوری ہو جاتی ہیں؟ یا کچھ عملی اقداما ت بھی حکومت کے حصے  میں آتے ہیں۔ہمیں واپس اپنی بنیاد کی طرف لوٹنا ہو گا۔ کیونکہ  جب تک ہم ان جابر درندوں کو اسلام اور قرآن کے مطابق سزائیں نہیں دیں گے تب  تک یہ اسی طرح ہمارے سر  چڑھ کر بولیں گے۔ اگر ہم چاہتے ہیں ہمارے بچے محفوظ رہیں اور ایک پر امن معاشرہ  قائم ہو تو ہمیں اسلام کو عملاً قبول کرنا ہو گا۔وگرنہ ہمارے گلشن کی کلیاں اسی طرح مرجھاتی رہیں گی۔

Facebook Comments

Abdullah Qamar
Political Writer-Speaker-SM activist-Blogger-Traveler-Student of Islamic Studies(Eng) at IOU-Interested in International Political and strategic issues.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply