“شدّت پسند” پشتون ؟جعفرعبّاس مرزا

16 جنوری کو کراچی سے ایک گولی زدہ لاش ملی۔ لاش کی شناخت نسیم اللہ محسود جو نقیب اللہ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا ، سے ہوئی ۔ جس کو بظاہر پولیس مقابلے میں ماردیا گیا۔ نقیب کا تعلق شمالی وزیرستان سے تھا جو 2008میں کراچی آیا جب اس کے علاقے میں فوجی آپریشن ہوا۔

کہا جاتا ہے کہ وہ سہراب گوٹھ میں واقع ایک کپڑے کی دکان کا ملک تھا اور ماڈ لنگ کا بھی  شوق   رکھتا تھا۔9 جنوری، سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد جو کہ  Counter Terrorism Department کے بتائے جاتے ہیں ،انہوں نے نقیب کو اس کی دکان سے اٹھایا اور کچھ روز بعد اس کی لاش بمعہ بندوق پھینک دی تاکہ ایسا لگے کہ پولیس مقابلے میں مارا گیا۔

خیر  حسب معمول جب راؤ انوار نے ان کے اس قتل پر شور دیکھا تو انہوں نے ایک سفید صفحے پر نقیب کے حوالے سے ثبوت فراہم کیے جو تقریباً  ناقابل تصدیق ہیں۔ ہمیشہ کی طرح  مرنے  والوں  کو  راؤ  انوار نے طالبان سے جوڑ  دیا اور نقیب کو جنگی ٹریننگ بھی کروادی تاکہ نقیب کی معصومیت اور بے گناہی کا کوئی سوال ہی نہ پیدا ہو. یہاں اصولی طور پہ تو سوال یہ بنتا ہے کہ جب اسے CTD نے اٹھایا تو اسے تو ان کی تحویل میں ہونا چاہیے ، یہ اچانک سے پولیس مقابلے کی ضرورت کیسے پیش آ گئی؟

خیر میں یہاں مقابلے کی باریکیوں کے بجائے ان عوامل کا جائزہ لوں گا جہاں ایک منظم انداز میں ریاستی بیانیہ پشتونوں کےخلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔جو لوگ شہر کراچی میں رہتے ہیں اور راؤ انوار نامی وردی میں چھپے قاتل سے واقف ہیں تو انھیں یہ پتا ہوگا کہ راؤ انوار کی پوری کامیابی ان کے جھوٹے پولیس مقابلوں پر انحصار کرتی ہے۔ بلا شبہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں اور نہ ہی پشتون ریاستی مظالم کا پہلی دفعہ نشانہ بنے ہیں۔ میرا  زور  اس مضمون میں اس بات پر   ہے کہ نقیب کا قتل ایک مخصوص بیانیے کا نتیجہ ہے جو پشتونوں کے خلاف چلا آرہا ہے۔ جو پاکستانی ریاست نے پہلے برطانوی  غاصبوں سے میراث میں لیا پھر امریکی سامراج کے زیرِ  سائے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اس کو بڑھاوا دیا۔

معاملہ طویل اور پیچیدہ ہے پر بات ہونا بھی ضروری ہے۔۔دہشتگردی کے خلاف جنگ کا بیانیہ اتنا سیدھا اور آسان نہیں جیسے سامراجی قوتیں ہمیں سمجھانا چاہتی ہیں۔ طلال اسد اپنی کتاب On Suicide Bombing میں دہشتگردی کے ڈسکورس کو کچھ اس طریقےسے خلاصہ کرتے ہیں کہ یہ جنگ ایک تہذیب (مغربی/لبرل) کی دوسری تہذیب (غیر مغربی/مذہبی) کے خلاف ہے. ولیم کونوغ اپنی کتاب (The Myth of Religious Violence) میں دعویٰ  کرتے ہیں کہ یورپ میں سولہویں صدی میں لڑی جانے والی جنگوں کی بنیاد مذہب نہیں تھا۔ان کا ماننا ہے کہ مذہب کو غیر منطقی قرار دے کر مغرب نے غیر مغربی و مذہبی معاشروں کو جاہل، پرتشدد اور غیر جدید ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

دہشتگردی کا discourse کسی شخص یا قوم کو پہلے “غیر/دوسرا (Other)” بنا دینا ہے اور پھر اسے غیر انسانی درجے پر فائز کردینا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ اس کا مقصد کسی میں سے اُس کے انسان ہونے کا عنصر نکال دینا ہے،یعنی کسی کو غیریت اور دشمنی کے اس درجے پہ پہنچا دینا کہ  آپ اسے انسانیت کی آنکھ سے دیکھ ہی نہ سکیں۔ یہ عمل ریاست کے حق میں اس لیے بھی ہوتا ہے کہ اس سے قومی سلامتی کی آڑ میں وہ کوئی بھی غیر انسانی اقدام کر سکتی ہے اور  وہ  عمل چاہے جتنا  بھی  غیر انسانی ہو اس دوران جائز بن جاتا ہے۔

طلال اسد اس جائز تشدد پر تنقید کرتے ہوئے  ایک دلچسپ موازنه کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دشتگرد اور فوجی دیکھا جائے تو ایک ہی سا عمل کرتے ہیں۔مثلاً  دشمن کو مارنا ، دونوں صورتوں میں جان کا لینا ہے مگر فوجی کا عمل اس لئے جائز قرار دیا جاتا ہے کہ  وہ قوم و ملک کو دشمن سے بچا رہا ہے۔ لہٰذا جیسے ہی ریاست کسی کو دشمن یا خطرہ قرار دیتی ہے، اس کے لئے تشدد کا جواز پیش کرنا آسان ہوجاتا ہے۔

جہاں تک ہماری بات ہے تو ہم وہ بدنصیب قوم ہیں کہ جس نےنائن الیون   واقعہ کے بعد اپنے ہی لوگوں میں سے پشتونوں کو اپنا دشمن بنا کے پیش کیا گیا حالانکہ پاکستان کی بنیاد ہی ایک ایسے بیانیے پہ مشتمل ہے جو دشمنی پر قائم ہے مگر پشتونوں کی نسلی پروفائلنگ ہند و پاک کی تقسیم سے پہلے کی ہے۔ الزبتھ کولسکی کی تحقیق کے مطابق اس وقت کے سامراج برطانوی حکمران جنہوں نے 1867 کے قانون  punjab murderous outrages actکے تحت پشتوں اور افغانوں کو قانونی طور سے fanatics قرار دیا جس کا اردو ترجمہ اکثر کٹر کیا جاتا مگر اس قانون کے تناظر میں اس کے دو معنیٰ بھی ہو سکتے ہیں، پہلا رجعت پسند اور دوسرا شدّت پسند۔

مختصراً یہ قانون اس لیے لایا گیا تھا کہ پشتونوں نے برطانوی حکم ماننے سے انکار کردیا تھا اور برطانوی غاصب افسر پر حملہ کردیا تھا۔ چنانچہ اس واقعہ کے بعد برطانوی حکومت نے پوری پشتون  قوم کو رجعت پسند، سخت اور بدلہ لینے والا قرار دے دیا۔

طلال اسد اور 1867 کے قانون کا ذکر کرنا اس لیے ضروری تھا تا کہ یہ پتہ  چل سکے کہ کیسے یہ حالیہ تناظر پہ اثرانداز ہوتا ہے۔ امریکی حکومت شمالی علاقہ جات پر کئی سالوں سے ڈرون حملہ کر رہے ہیں جس میں ہزاروں معصوم پشتون  مارے جاچکے ہیں۔ سواۓ چند کو چھوڑ کر پاکستانی ریاست اور بالخصوص پاکستانی باشندوں نے کبھی جانی نقصان پر سوال نہیں اٹھایا۔ اٹھایا بھی تو سرحدی اور ہوائی حدود کی خلاف ورزی پر۔اس مجرمانہ خاموشی کی وجہ وہ تاثر ہے جو یہ کہتا ہے کہ ڈرون حملوں میں صرف دہشتگرد مرتے ہیں۔ اسی طرح پاکستانی افواج نے “دہشتگردوں” کے خلاف بیشتر کارروائیاں کیں، جن میں ہزاروں کی تعداد میں فاٹا کے معصوم شہری مارے، ہزاروں بے گھر ہوئے مگر ان تمام فوجی کارروائیوں میں بھی جانی نقصان پر کوئی سوال اور آواز نہیں اٹھی کیونکہ ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ آپریشن میں صرف “دشمن” مرتے ہیں۔

جیسے دہشتگردی کے بین الاقوامی بیانیے میں مسلمانوں کو دشمن کی طرح پیش کیا گیا بالکل ایسے ہی ہماری دہشتگردی کی جنگ میں پشتونوں کو دشمن بنا کر پیش کیا گیا۔
2008 میں جب فوجی کارروائی کا سلسلہ شروع ہوا اور فاٹا کے لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑی، تو ان کو کافی دشواری کا سامنا ہوا ۔پنجاب اور سندھ نے تو صاف انکار کردیا تھا IDPs کیمپ لگانے سے، مجھے آج بھی یاد ہے کہ کراچی شہر کی سب سے بڑی پارٹی نے باقاعدہ مہم چلائی تھی کہ IDPs کے بھیس میں “دہشتگرد” شہر میں گھس جائیں گے،2013میں سندھ گورنمنٹ نے اس وقت کے کور کمانڈر کے ساتھ مل کریہ فیصلہ کیا کہ بغیر جانچ پڑتال کے IDPs شہر میں نہیں آئیں گے  اور حکام یہ  بات یقینی بنائیں   کہ IDPs جب تک اپنا شہر آنے کا مقصد نہیں بتائیں گے انھیں شہر میں جگہ نہیں دی جائے گی ۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ پشتونوں کے لئے پاکستان میں ایک اندرونی امیگریشن آفس کی ضرورت پڑ گئی  ہو۔

اس دہشتگردی کی جنگ میں ہماری ریاست نے خاص طور پر ISPR کے ذریعے ایک ایسے دشمن کی شکل تشکیل دی جو پشتون  قبائلی کپڑے پہنتا ہے۔ اس دہائی کا مشہور جنگی گیت (بڑا دشمن بنا پھرتا ہے ) میں دکھایا گیا کہ دہشتگرد پشتونوں کے انداز کے قبائلی کپڑے پہنتا  ہے جو 130 بچوں کو مارتا ہے۔

پشتونوں کی منظم تذلیل سے نتیجہ یہ  برآمد ہوا کہ  پشتون  کو امتیازی سلوک اور نسلی تعصب کا شکار بنایا گیا۔ مثالیں بہت ہیں مگر پچھلے سال کی پنجاب پولیس کا پشتونوں  کے حوالوں سے پیغام کافی ہے کہ جب پولیس نے ہدایت دی کہ  پھیری والے اور مکئی بیچنے والوں پر نظر رکھیں۔ یہ محنتی  کام اکثر میں نے تو پشتونوں کو ہی کرتے دیکھا ہے۔

مختصراً سب سے پریشان کن جو دہشتگردی ختم کرنے کا   تجزیہ ہے  وہ  جس میں دہشتگردی  کو ایک کینسر بیان کیا جاتا ہے اور اس کا علاج صرف آپریشن کے ذریعے جسم سے کاٹ کر علیحدہ کرنا ہوتا ہے۔ میں نے اکثر پڑھے لکھے لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ اگر بستیاں بھی اڑانی  پڑیں تو اڑا نی ہوں گی، کیونکہ یہ کینسر ہے جو پھیلتا رہے گا۔ اور اس کی کھلے لفظوں   میں تشریح کی جائے تو اس کے معنیٰ ہیں قبائل کے قبائل اڑانے پڑے تو اڑا دو۔

نقیب ایک  شخص نہیں، اس جیسے ہزاروں نوجوان ہیں جو فوج اور پولیس کے ہاتھوں فاٹا سے لے کر کراچی تک مار دیے گئے۔ نقیب کی قسمت کہہ لیں یا راؤ انوار کی بدنصیبی  کہ یہ معاملہ سامنے آگیا مگر ان معصوموں کو کون انصاف دلائے  گا جو محض شک کی بنا  پر فوجی آپریشن اور بمباری میں مار دیے گئے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

2012کی ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ The Hands Of Cruelty میں یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح فوج نے سکیورٹی کے نام پر فاٹا میں انسانی حقوق کی بہیمانہ طریقے سے خلاف ورزی کی ہے۔
سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس تو لیا ہے پر مجھے لگتا ہے کہ ایک معجزہ ہی ہوگا اگر راؤ انوار پر فرد جرم عائد ہوا۔ مگر یہاں سوال صرف راؤ انوار کا نہیں بلکہ ان تمام نقیبوں  کا ہے جو ماضی میں ریاست اور معاشرے کے امتیازی سلوک اور جبر کا نشانہ بنا دیے گئے  یا پھر مستقبل میں بنیں گے۔ انھیں کیسے روکیں؟

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply