عورتوں میں ڈیپریشن: وجوہات اور علاج۔۔۔(2)حافظ محمد زبیر

ڈیپریشن کا علاج کیسے کریں؟۔۔۔(قسط1)حافظ محمد زبیر

ڈیپریشن اس وقت دنیا کی تیسری بڑی بیماری بن چکی ہے اور ریسرچز کے مطابق عورتوں میں ڈیپریشن، مردوں کی نسبت زیادہ ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق 14 سے 25 سال کی عمر میں عورتوں میں ڈیپریشن کی تعداد مردوں کی نسبت دو گنا ہوتی ہے۔ اور کینیڈا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق 2007ء سے 2011ء کے دوران عورتوں کو مردوں کی نسبت دو گنا اینٹی ڈیپریسینٹ (antidepressant) میڈیسن تجویز کی گئیں۔ تو عورتوں میں ڈیپریشن کا فیکٹر ایک نہیں ہے، کئی ایک ہیں جن میں سے ایک بائیولاجیکل فیکٹر بھی ہے کہ عورتوں میں حیض (menses) کے شروع ہونے سے پہلے اور اس کے بعد یعنی بلوغت کے ایام میں اور پھر حیض کے ایام میں موڈ سونگز (mood swings) آتے رہتے ہیں جو طبیعت پر اداسی طاری کرتے رہتے ہیں لیکن یہ ایک عارضی فیکٹر ہے۔

اصل میں ہم غور کریں تو عورت باہمی تعلقات (interpersonal relationship) کے بارے بہت حساس ہوتی ہے جبکہ مرد اپنی ملازمت، کاروبار اور مستقبل کے (external career) بارے۔ تو گھر میں میاں بیوی کا باہمی تعلق اگر ڈسٹرب ہو گا تو عورت زیادہ ڈیپریشن میں رہے گی اور اگر مرد کی ملازمت، کاروبار یا کیریئر کو کچھ دھچکا لگے گا تومرد ڈیپریشن میں چلا جائے گا۔ عورت کا اکثر وبیشتر ڈیپریشن کسی نہ کسی تعلق کے ڈسٹرب ہو جانے سے متعلق ہو گا یا پھر اس پر ہو گا کہ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے مثلا وہ اس پر بھی مرد کی نسبت زیادہ ڈسٹرب ہو گی کہ شادی کے بعد میاں سے اچھی نہیں بن رہی اور اس پر بھی کہ شادی ہی نہیں ہو رہی۔ عورت کی زندگی تعلق میں بند ہے، تعلق اچھا ہے تو وہ خوش ہے، ڈسٹرب ہے تو وہ ڈیپریس ہے۔ اور باہمی تعلقات کے ڈسٹرب ہونے کی ریشو، ملازمت اور کاروبار کے ڈسٹرب ہونے سے زیادہ ہوتی ہے لہذا عورتیں، مردوں کی نسبت زیادہ ڈیپریس رہتی ہیں۔

دیکھیں، آسان الفاظ میں ڈیپریشن کی وجہ کیا ہے؟ وہ وہ فرق (difference) ہے جو آپ کی سوچ اور آپ کے حالات میں ہے۔ آپ چاہتے کچھ ہیں لیکن ہو کچھ رہا ہے تو آپ اداس ہو جاتے ہیں۔ تو اس ڈیفرینس کو آپ دو طرح سے ختم کر سکتے ہیں یا تو خارج میں حالات بدل دیں کہ وہ آپ کی سوچ کے عین مطابق ہو جائیں جو عموما انسان کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ دوسرا یہ کہ اپنی سوچ کو حالات کے موافق کر لیں جو عموما انسان کے بس میں ہوتا ہے لیکن اس کے لیے اسے کاؤنسلنگ کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اور میں کاؤنسلنگ میں عموما یہی ایپروچ اپناتا ہوں۔ اس کی شادی نہیں ہو رہی، یہ ڈیپریس ہے۔ اس کی ہو گی ہے لیکن اس کا شوہر گالم گلوچ کرتا ہے لہذا وہ بھی ڈیپریس ہے۔ اس کا شوہر گالم گلوچ نہیں کرتا لیکن جسم بھاری ہونے پر طعنے دیتا ہے لہذا وہ ویٹ گین کرنے پر ڈیپریس ہے۔ اس کے شوہر کی جاب اور اس کی اپنی فزیک سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے لیکن شوہر اس سے اکتا گیا ہے اور اب دوسری شادی کے چکر میں عورتوں سے رابطے میں ہے لہذا وہ ڈیپریس ہے۔ وہ شوہر کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے لیکن وہ قابو میں نہیں آ رہا لہذا وہ ڈیپریس ہے۔

دیکھیں، دنیا میں کسی کو آزمائش نہیں ہے، سب کو ہے۔ پہلے زندگی کا فلسفہ سمجھیں اور وہ دو لفظوں میں یہ ہے کہ زندگی ایک آزمائش ہے، تعلق ایک آزمائش ہے۔ تو انسان یہ سمجھتا ہے کہ شاید اس مسئلے سے نکل جاؤں گا تو سب ٹھیک ہو جائے۔ کچھ ٹھیک نہیں ہو گا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ سب خراب ہو گا۔ یہ دوسری بات سوچنے والے منفی سوچنے کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں لہذا ہر بات میں منفی پہلو نکال لاتے ہیں۔ انہیں ڈیپریشن سے نکلنے کے لیے مثبت سوچنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ کا شوہرتبدیل نہیں ہو سکتا، اس بات کو قبول کر لیں، آپ کا ڈیپریشن ختم ہو جائے گا۔ یہی بات شوہر کو بھی بیوی کے بارے سوچنی چاہیے۔ تعلق ایک ہی اصول پر چلتا ہے اور وہ ہے قبولیت کا اصول کہ اگلا جیسا ہے میں اسے اسی حالت میں قبول (accept) کرتا ہوں۔ اگر وہ اپنے آپ کو میری خاطر کچھ تبدیل کر لے تو یہ اس کا احسان ہے۔ تو آپ حالات کو بدل نہیں سکتے تو ان کو قبول کر لیں یعنی اپنے ذہن کو بدل لیں، اسے حالات کے مطابق کر لیں تو دونوں کا فرق ختم ہو جائے گا جو ڈیپریشن کی وجہ ہے لہذا ڈیپریشن بھی جاتا رہے گا۔

جب میں یہ کہتا ہوں کہ حالات کو قبول کر لیں تو ا سکا مطلب یہ نہیں کہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ حالات بدلنے کے لیے کوشش نہ کریں۔ لیکن آپ ایک حد تک کوشش کر سکتے ہیں ناں، اس سے زیادہ آپ کا بس نہیں چلتا۔ تو جب کوشش کر لی اور حالات آپ کی سوچ کے مطابق نہ ہو سکے تو اب اس پر کوشش کر لیں کہ اپنی سوچ کو حالات کے مطابق کر لیں یعنی حالات کو قبول کر لیں جیسا کہ وہ ہیں۔ اور حالات کو آپ اس وقت قبول کر پائیں گے جبکہ انہیں دیکھںے کا کوئی مثبت پہلو ڈھونڈ نکالیں گے۔ اگر آپ یہ خود نہیں کر سکتے تو کسی ایسے دوست یا رشتہ دار سے اپنے حالات ڈسکس کریں جو خود بھی مثبت سوچ رکھتا ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارے ہاں ہوتا ہے کہ بیوی اگر اپنی بہن یا سہیلی سے شیئر کرتی ہے کہ میرا شوہر میرے قابو میں نہیں ہے تو وہ بجائے اس کے اسے یہ کہے کہ بی بی اسے قابو کرنے کی سوچ ذہن سے نکال دو، اسے شوہر قابو کرنے کے اور گر بتلانا شروع کر دیتی ہے اور شوہر جب پھر قابو نہیں ہوتا تو وہ مزید ڈیپریشن میں چلی جاتی ہے۔ تو کسی کا بھی شوہر اس کے قابو میں نہیں ہوتا، وہ بھی جو یہ کہہ رہی ہے، اس کا بھی نہیں، یہ ایک حقیقت ہے، اسے تسلیم کر لیں، زندگی آسان ہو جائے گی۔ تو دنیا میں مسائل کس کے نہیں ہیں، سب کے ہیں۔ بس ان کے ساتھ جینا سیکھیں، ڈیپریشن ختم ہو جائے گا۔ میرا ہر مسئلہ حل ہو جائے، اس مزاج کا ڈیپریشن کبھی ختم نہیں ہوتا۔ کبھی یہ سوچ کر اپنے آپ کو مطمئن کر لیں کہ دنیا میں اور بھی بہت سے ہیں کہ جن کے یہی مسائل ہیں جو میرے ہیں۔ اور کبھی یہ سوچ کر خوش ہو جائیں کہ میرے ساتھ وہ مسائل نہیں ہیں جو میرے ارد گرد کے اور لوگوں کےساتھ ہیں۔ [جاری ہے]

Facebook Comments

حافظ محمد زبیر
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی ہیں اور کامساٹس یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، لاہور میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ آپ تقریبا دس کتب اور ڈیڑھ سو آرٹیکلز کے مصنف ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply