جان لاک (1704ء – 1632ء)/مبشر حسن

معروف انگریز فلسفی جان لاک پہلا مصنف تھا جس نے آئینی جمہوریت کے بنیادی تصورات کو ایک مربوط صورت میں یکجا کیا۔ اس کے نظریات نے امریکہ کے بانیان کو شدت سے متاثر کیا۔ فرانسیسی خرد افروزی کے دور کے متعدد ممتاز فلاسفہ بھی اس کے اثرات بے پایاں تھے۔
جان لاک انگلستان کے شہر رنگٹن میں 1632ء میں پیدا ہوا۔ اس نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی، جہاں 1956ء میں اس کو گریجوایشن کی سند ملی۔ اور 1658ء میں ایم۔ اے کی۔ نوجوانی میں اسے سائنس میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ چھتیس برس کی عمر میں وہ ”رائل سوسائٹی کا رکن منتخب ہوا۔ معروف کیمیا دان رابرٹ بوئل سے اس کے دیرینہ تعلقات تھے۔ بعد ازاں آئزک نیوٹن بھی اس کے قریبی دوستوں میں شامل ہوگیا۔ اسے علم طب میں بھی دلچسپی تھی۔ اس شعبے میں اس نے بیچلر ڈگری حاصل کی۔ تاہم عملی طور پر اس کا اطلاق کم ل ہی کیا۔ نواب “شیفٹس بری“ سے ملاقات اس کی زندگی کا ایک اہم واقعہ ثابت ہوا۔ وہ اس کا سیکرٹری اور خاندانی معالج بن گیا۔ ”شیفٹس بری“ سیاسی آزاد خیالی کا حامی تھا۔ اپنی اپنی سیاسی سرگرمیوں کے باعث وہ بادشاہ چارلس دوم کے دور میں قید بھی ہوا۔ 1682ء میں ’’شیفٹس بری“ ہالینڈ فرار ہو گیا، جہاں وہ اگلے ہی برس فوت گیا۔ ”
شیفٹس بری“ سے اپنے دیرینہ مراسم کے باعث خود لاک مشکوک افراد میں شمار کیا جاتا تھا۔ 1683ء میں وہ بھی ہالینڈ بھاگ گیا۔ وہ چارلس کے جانشین بادشاہ جیمز روم کے تخت نشین ہونے اور پھر 1688ء میں انقلاب کے ذریعے اس کی دست برداری تک وہیں مقیم رہا۔ 1689ء میں وہ گھر واپس آیا اور انگلستان میں رہنے لگا۔ اس نے مجرد زندگی گزاری اور 1704ء میں فوت ہوا۔
جس معروف کتاب سے اسے شہرت حاصل ہوئی۔ وہ ’’انسانی فہم سے متعلق ایک مضمون” (1690ء) تھی۔ جس میں اس نے انسانی علم کے مبداء ہیئت اور حدود پر مفصل بحث کی۔ لاک کی فکر بنیادی طور پر تجربیت پسندانہ تھی، جبکہ اس کے افکار پر فرانس بیکن اور رینے ڈیکارت کے اثرات واضح ہیں۔ لاک کے افکار نے جارج برکلے ڈیوڈ ہیوم اور ایمنوئل کانٹ جیسے مفکرین پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ اگرچہ اس کی مذکورہ بالا کتاب لاک کی بہترین تصانیف اور فلسفہ کے کلاسیکی ادب میں شمار ہوتی ہے۔ تاہم اس کی سیاسی تحریروں کی نسبت تاریخی ارتقا پر اس کتاب کے اثرات کم ہیں۔
اپنی کتاب “تحمل پسندی سے متعلق ایک خط میں (جو پہلی بار 1689ء میں مصنف کے نام کے بغیر اشاعت پذیر ہوا) لاک نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ریاست کو لوگوں کی مذہبی آزادی پر قدغن نہیں لگانی چاہیے۔ وہ پہلا انگریز نہیں تھا جس نے پروٹسٹنٹ فرقہ کے حوالے سے عیسائیوں کو تحمل کا سبق پڑھایا تھا۔ تاہم اس حکمت عملی کے لیے رائے عامہ کو بہتر بنانے میں تحمل و بردباری پر اس کے مضبوط دلائل نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔ مزید بر آں لاک نے تحمل کی نصیحت کو غیر مسیحیوں کے لیے بھی صاد قرار دیا” نہ بت پرستوں، نہ مسلمانوں، نہ یہودیوں کو ہی ان کے مذہبی اعتقادات کی بناء پر دولت مشترکہ میں شہری حقوق سے محروم کرنا جائز ہے” لاک کا خیال تھا کہ تحمل و برداشت کی یہ پابندی کیتھولک فرقہ پر عائد نہ کی جائے کیونکہ اس کے خیال میں وہ ایک بیرونی حاکم کی اطاعت کرتے ہیں۔ نیز لا اردی بھی اس سے مستثنیٰ ہیں آج کے معیارات کے حوالے سے وہ خود تنگ نظر ثابت ہوتا ہے لیکن اس دور کے مروجہ نظریات کے تناظر میں اس کی بات باجواز معلوم ہوتی ہے۔ دراصل مذہبی رواداری کے حق میں اس کے پیش کردہ خیالات اس کے قارئین کے لیے قابل قبول تھے۔ آج لاک کی مہربانی سے مذہبی برداشت کی روایت ان فرقوں میں بھی پھیل رہی ہے جنہیں اس نے اس حوالے سے خارج کیا تھا۔
لاک کی ایک نہایت اہم تحریر “حکومت پرمقالے” (1689ء) میں شائع ہوئی۔ جس میں اس نے آزاد آئینی جمہوریت کے بنیادی تصورات پر بحث کی ہے۔ تمام انگریزی بولنے والی یورپی اقوام کے سیاسی افکار پر اس کتاب کا اثر بے پایاں ہے۔ لاک کا حتمی خیال تھا کہ ہر انسان قومی حقوق کا حامل ہے اور یہ کہ یہ صرف زندہ رہنے کے حق پر ہی مبنی نہیں ہے، بلکہ ذاتی جائیداد اور آزادی کے حقوق بھی اس میں شامل ہیں۔ لاک نے واضح کیا کہ حکومت کا بنیادی مقصد اپنی عوام اور ان کی جائیداد کا تحفظ ہے۔ اس نظریہ کو عموماً ان لفظوں میں دہرایا جاتا ہے کہ ”حکومت کی شبی چوکیداری کا نظریہ “۔
بادشاہوں کے الہامی حقوق کو رد کرتے ہوئے لاک نے کہا کہ “حکومتوں کی پائیداری کا انحصار فقط اپنی عوام کی راۓ ہے“ معاشرے میں انسان کی آزادی کسی دو سری قانونی طاقت کے زیر تحت نہیں ہے بلکہ اس طاقت کے جسے دولت مشترکہ میں
عوامی منشاء سے قائم کیا جاۓ“۔ لاک نے عمرانی معاہدے کے تصور پر بے حد اصرار کیا۔ یہ تصور ایک حد تک گزشتہ انگریز فلسفی تھامس ہابز کی تحریروں سے اخذ کیا گیا تھا، لیکن بابز نے تو عمرانی معاہدے کے تصور کو مطلق العنانیت کو بنیاد فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔ لاک کے خیال میں خود عمرانی معاہدہ قابل تردید ہے“۔
“جب قانون ساز جائیداد کو لوگوں سے چھینے اور تباہ کرنے یا انہیں استبدادی طاقت کے ذریعے غلام بنانے کی سعی کی تو انہوں نے خود کو لوگوں سے ایک جنگ میں مبتلا پایا، جن سے آپ مزید اطاعت کا مطالبہ کرنے کے مجاز نہیں رہے۔ ان سب نے مشترکہ طور پر پناہ حاصل کی جو خدا نے انہیں جبر اور تشدد کے خلاف مرحمت کی ہے۔ اور یہ کہ لوگوں میں ان قوانین کو ختم یا تبدیل کرنے کی اعلیٰ طاقت بیدار ہو جاتی ہے جب وہ قانونی بندش ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتی ہے“۔ انقلاب کے حق پر لاک کے اصرار نے تھامس جیفرسن اور دیگر امریکی انقلاب پرستوں پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ لاک اختیارات کی تقسیم کے اصول پر یقین رکھتا تھا۔ تاہم اس نے محسوس کیا کہ ایک قانون ساز کو عام انتظامی افسر سے بلند ہونا چاہیے اور اس طور عدالت کو بھی جو اس کے خیال میں انتظامی شعبے ہی کی شاخ ہے)۔ قانون کی برتری کے معتقد کی حیثیت سے لاک نے باصرار عدالتوں کے اس حق کی مخالفت کی کہ وہ کسی بھی قانونی اقدام کو غیر آئینی قرار دے سکتی ہیں۔
لاک کا اکثریت کی حکمرانی کے اصول پر گہرا اعتقاد تھا۔ اس نے صراحت سے بیان کیا کہ ایک حکومت کے پاس غیر محدود حقوق ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ایک اکثریت کا انسانوں کے فطری حقوق پر تسلط نہیں ہے۔ اور کوئی حکومت اپنی عوام کی منشاء کے بغیر اس کی نجی املاک پر قابض نہیں ہو سکتی (امریکہ میں اس نظریہ کو اس نعرے کی صورت میں پیش کیا گیا کہ کسی واضح نمائندگی کے بغیر محصولات کا تقاضا نہیں کیا جاۓ گا)۔
تاریخ کے آئندہ واقعات سے یہ ثابت ہوا کہ لاک نے قریب ایک صدی قبل امریکی انقلاب کے بھی اہم نظریات کو بیان کر دیا تھا۔ تھامس جیفرسن پر اس کے اثرات حیران کن ہیں۔ لاک کے نظریات یورپ کے اہم ملکوں میں سرایت کر گئے خاص طور پر فرانس میں ان کا کردار ایک بلواسطہ اہم عنصر کی حیثیت سے تھا، جیسے انقلاب فرانس اور انسانی حقوق کا فرانسیسی معاہدہ وغیرہ کے معاملات میں۔ اگرچہ والٹیئر اور تھامس جیفرسن جیسی شخصیات لاک سے زیادہ مقبول ہیں۔ اس کی تحریروں نے برتری حاصل کی اور ان پر اپنے اثرات چھوڑے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply