مذہب اور (فلسفہ) سائنس/محمد حسنین اشرف

کچھ عرصہ قبل ہمارے مذہبی طبقہ کے ہاتھ ایک نہایت قیمتی شے مابعدجدیدیت کی شکل میں لگی، جس سے جدیدیت کے پیدا کردہ اعتراضات کو رفع کرنے کی کوشش کی گئی۔ مابعدجدیدیت کا نقد جو جدیدیت پر وارد ہُوا اسی کو ہم نے مذہب کے دفاع میں استعمال کرنے کی کوشش میں یہ بھلا دیا کہ مابعدجدیدیت نے بھی مذہب کے لیے بہتیرے مسائل پیدا کردئیے ہیں۔ نتیجتاً نہ جدیدیت کے مسائل کا حل پیش کیا جاسکا اور نہ مابعدجدیدیت کے سوالات اپنے جواب پاسکے۔ بس اتنا ہوا کہ ہم نے دوسروں کے مسائل دیکھ کر اپنے اکابر کو شاباشی دی اور لحاف اوڑھ کر سو گئے۔

پچھلے کچھ عرصے سے یہی رویہ تاریخ و فلسفہ سائنس اور اس کے معاون مضامین سے متعلق اپنایا جارہا ہے۔ خیال ہوتا ہے کہ یہ طریق کار نہ صرف ان مضامین میں مطلوب استعدادا پیدا کرنے کی راہ رکاوٹ ہے بلکہ یہاں کے سماجی و مذہبی مسائل کے حل کی طرف بڑھنے سے روکتا ہے۔ ان مسائل کو دیکھ کر ہمیں یہ لگتا ہے کہ خود سے محنت کرنے اور نئے سوالات کے جواب میں نئے طریق کار وضع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے علما ہزار صدیاں قبل جو کام کر گئے تھے وہ کافی ہے، بس اسی کا دفاع اور اسی پر اکتفا کرنا چاہیے۔

تاریخ و فلسفہ سائنس اور اس کے معاون مضامین (جن کی ایک فہرست ہے) جن مسائل کا تذکرہ کر رہے ہیں اور جن چیزوں سے عوام و خواص کو منع کرتے ہیں۔ وہ تمام تر مسائل مذہب میں بدرجہ اُتم موجود ہیں۔ مثلاً
۱۔ اگر سائنسدان کنفرمیشن بائس کا شکار ہوتے ہیں تو کیا مذہبی علما نہیں ہوتے؟ وہ کیا طریق کار ہے جو ہم نے وضع کیا ہے؟ کیا اس بحث کو کو مذہبی علم نے زیر بحث لا کر یہ دیکھنے کی بھی کوشش کی ہے کہ مذہب کے بہت بنیادی مقدمات کو کنفرمیشن بائس کا شکار ہوئے بغیر کیسے حل کیا جائے یا مذہب جو سب سے مضبوط بائس ہے اس سے متعلق کیا رویہ اپنایا جاسکتا ہے تاکہ مذہبی علم کو اس سے پاک کیا جاسکے؟

۲۔ اگر سائنسدان متعصب ہوسکتا ہے تو کیا ہم نے یہ دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ مذہبی عالم کو مذہبی تعصب سے کیسے بچایا جاسکتا ہے؟ مذہبی علم کو مذہبی تعصب (مسلکی تعصب سے پہلے مذہبی تعصب پر نگاہ کرنا ضروری ہے کہ یہ علم کی راہ میں کیسے رکاوٹ بنتا ہے) سے کیسے پاک کیا جاسکتا ہے؟
اب کچھ علمیاتی مسائل پر نگاہ کیجیے؛

۳۔ پال فائرآبنڈ، لکاتوس، ڈیوہم کوائن تھیسز اور دیگران نے جن جن مسائل کی جانب توجہ دلائی ہے۔ وہ تمام مسائل مذہبی علم کو سب سے پہلے لاحق ہوتے ہیں۔ کیا ہم نے ان کا جواب کھوج لیا ہے؟

الہیات کے باب میں ہماری تمام تر دلیلیں پیور ریزننگ سے آگے نہیں بڑھ پا رہی، ہم ابھی تک کانٹ کو جواب نہیں دے سکے یا اس کی مدد سے یا کسی اور مدد سے یا خود سے ہی اپنے فریم ورک کو بہتر بنانے کی بجائے پیور ریزننگ پر اصرار کر رہے ہیں۔ یہ تمام علمیاتی مسائل جن کا ہم سائنس سے متعلق تذکرہ کرتے ہیں وہ (اگر درجہ بندی کی جائے) سائنس کو بہت بعد میں لاحق ہوتے ہیں۔

۴۔ سائنس کو لاحق تاریخی مسئلے سب سے پہلے مذہب کو لاحق ہوتے ہیں۔ کیا ہم نے اس باب میں کوئی بڑھوتری کی ہے؟ ہمارے علما نے روایت درایت کے باب میں بہت عمدہ کام کیا لیکن کیا اس کو آگے نہیں بڑھنا یا یہ بھی منزل من اللہ ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

سائنس و فلسفہ سائنس، سائنٹزم وغیرہ کی گفتگو سے پہلے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ وہ کوئی بھی علمی اعتراض جو سائنس، سائنس سے جڑے رویوں اور سائنس میں کام کرنے والے لوگوں پر وارد ہوتا ہے۔ وہ مذہب کی تمام تر انٹرپرائز پر، سب سے پہلے اور زیادہ شدت سے وارد ہوتا ہے۔ اس لیے فلسفہ سائنس کے استعمال سے اگر تو مقصود سائنس کے میدان میں بڑھوتری اور اسی میدان کی بہتری ہے تو یہ سعی بار آور ہوسکتی ہے۔ مذہب کے باب میں یہ ہمیں مزید سُلانے کےعلاوہ کسی دوسری شے کا فائدہ نہیں دے سکتی اور نہ دے رہی ہے۔ تاریخ و فلسفہ سائنس اور دیگر مضامین مستقل ایک جد و جہد میں ہیں جن کا مقصد انسانی علم اور اس تک پہنچنے کے ذرائع میں بہتری لانا ہے۔ اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ ہم ان کی بلند کردہ عمارت پر کھڑے ہو کر محض چلا رہے ہیں جس کا کوئی فائدہ نہ ہو رہا ہے اور نہ ہوگا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply