معدوم ہوتی ثقافت کالاش اور مردم شماری

معدوم ہوتی ثقافت کالاش اور مردم شماری
عطا حسین اطہر
حکومت ِ پاکستان کے حالیہ مردم شماری فارم کے پاکستانی زبانوں اور مذہب کے بارے میں اعدادو شمار کے خانے میں معدوم ہوتی ہوئی ثقافت اور مذہب کالاش کے لیے کوئی خانہ مختص نہیں کیا گیا ۔یہ بات چترالی زبانوں پر کام کرنے والی ایک غیر منافع بخش ادارہ مادر ٹانگ انیشیٹیو ز فار ایجوکیشن اینڈ ریسرچ چترال(MIER) نے آئندہ مردم شماری میں پاکستانی زبانوں کے بارے میں اعدادو شمار جمع کرنے کے مسئلے پر منعقد ہ ایک اجلاس میں اٹھایا ۔اجلاس میں اس بات پر افسوس اور شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا کہ صوبے کی تیسری بڑی زبان کھوار اور دیگر بہت سی معدومیت کے شکارزبانوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی۔معلوم یہ ہوا ہے کہ آٹھ زبانوں کے علاوہ باقی ستّر(70) پاکستانی زبانوں کو دیگر کے نام سے ایک ہی خانے میں ڈال دیا گیا ہے ۔ اس طرح ان زبانوں کے بارے میں انفرادی طور پر اعداد و شمار حاصل کرنا ناممکن ہوجائے گا۔اس کے علاوہ یہ بات بھی نوٹ کی گئی کہ مذاہب کے خانے میں چترال میں بسنے والی دنیا کا قدیم ترین مذہب و زبان کالاش کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔
تنظیم کے صدر فرید احمد رضانے اجلاس میں اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ بار بار یاد دہانی کے باوجود ان علاقوں اور زبانوں سے تعلق رکھنے والے ممبرانِ اسمبلی اور سیاسی رہنماؤں نے اس مسئلے سے کوئی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا ۔
اس اجلاس میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ فوری طور پر مردم شماری کے فارم میں تبدیلی کرکے اس میں پاکستان کی تمام بڑی زبانوں اور مذاہب کے اندراج کو یقینی بنایا جائے تاکہ ان اعدادو شمار کی مدد سے ان زبانوں اور ثقافتوں کے تحفظ کی کوششوں میں مدد مل سکے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply