سگمنڈ فرائیڈ: بابائے نفسیات کےنظریات کاتعارف(1)-عدیل ایزد

ا۔احوال وآ ثار
تحلیل نفسی کارو ِح رواں پروفیسر سگمنڈ فرائیڈ  ۶ مئی ء۱۸۵۶ کو موراویا (Moravia) جو کہ موجودہ چیکو سلواکیہ ہے، کے ایک قصبے فرائبر گ (Freiberg)کے ایک متوسط یہودی گھرانے میں پیدا ہوا ۔ فرائیڈ کا باپ جیکب فرائیڈ (Jakob) اون اور کپڑے کا ایک معمولی سوداگر تھا ۔ جیکب فرائیڈ نے یکے بعد دیگرے تین شادیاں کیں۔ اس نے پہلی شادی سترہ برس کی عمر میں شیلے کینر (Sally Kanner) سے کی ۔ اس میں سے دو بیٹے عمانوئل (Emanuel) اور فلپ (Philip) پیدا ہوئے ۔ دوسری بیوی ربیکا (Rebecca)تھی جس سے کوئی اولاد نہ ہوئی ۔ اس کے علاوہ جیکب فرائیڈ نے چالیس برس کی عمر میں بیس برس سے بھی کم عمر لڑکی ایملیا نتھینسن (Nathansohn Amalia) سے تیسری شادی کی جو کہ فرائیڈ کی ماں تھی۔ وہ اکتالیس سال کاجفا کش اور قدرے درشت طبیعت اور سخت مزاج کا مالک اور راسخ العقیدہ یہودی (Hasidic Jews) تھا جو گھر میں اپناحکم منوانے کا عادی تھا۔اس لیے فرائیڈ کے ذہن پر باپ کا تصور بچپن ہی سے خوف، دہشت اور حاکم کی علامت کے طور پر نقش ہو گیا اور یہ تمام عمر رہا۔

فرائیڈ اس واقعے   کو اکثر دہراتا رہتا کہ بچپن میں ایک دفعہ غلطی سے وہ اپنے باپ کے کمر ے  میں داخل ہوا جس پر اس کے والد نے اسے اتنے  ہیبت ناک انداز میں ڈانٹا کہ دو سال کی عمر تک اکثر بستر پر اس کا پیشاب نکل جاتا ۔سخت مزاج کے باوجود فرائیڈ نے ان کی چند خوبیوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے مثلاً فرائیڈ کو سیر کروانے باغ میں لے جانا ،کبھی کبھار اس سے پیار بھرے انداز میں میٹھی میٹھی باتیں کرنااور کھیلنا وغیرہ ،لیکن مجموعی طور پر فرائیڈ کی شخصیت پر اپنے باپ کا جو اثر ہوا وہ سخت مزاج اور ڈکٹیٹر کا ہی رہا۔ فرائیڈ کی شخصیت پر نا  صرف ان کے والد کی سخت مزاجی نے اثر ڈالا بلکہ خاندان میں موجود دوسرے رشتوں میں عدم توازن اور نامساعد معاشی حالات کو بھی عمل دخل تھا۔اس لیے بجا طور پرکہا جا سکتا ہے کہ فرائیڈ کی خاندانی صورت حال کو پیچیدہ بنانے میں کئی اسباب اور کردار تھے۔فرائیڈ کے سوانح نگار جو پہلا اور اہم سبب لکھتے ہیں وہ فرائیڈ کی ماں اور اس کے باپ کی عمر میں تفاوت ہے ۔عمر کےاس فرق نے میاں بیوی میں عمر بھر وہ ذہنی ہم آہنگی پیدا نہ ہونے دی جو میاں بیوی کے رشتے کی حقیقی خوبصورتی اور فطری حسن ہے۔فرائیڈ کی ماں ایملیا اپنی شادی کے وقت صرف بیس سال کی تھی ۔اس طرح وہ اپنے شوہر سے عمر میں تقریباًبیس سال چھوٹی تھی ۔ ادھیڑ عمر شوہر سارا دن روزی کمانے میں مشغول رہتا تھا اور جب وہ تھک ہار کر گھر آتا تو وہ ایسے جذبات کا اظہار نہ کر پاتا جو ایملیا کی عمر کی مناسبت سے شاید کوئی نوجوان شوہر کر پاتا ۔فرائیڈ کے لیے ایک طرح مفید بھی ثابت ہوا کہ اس کی ماں کی محبت کا وہ اکلوتا حقدار بن گیا۔ مگر یہ بھی ہے کہ جو نہی وہ بڑا ہوا تو اسے اپنی ماں کے احساسات و جذبات کا احساس ستانے لگا۔ اس نے خود کئی جگہوں پر اس کا اظہار کیا ہے ۔

اس طرح دوسرے اسباب و کردار جن کی طرف فرائیڈ کے سوانح نگار اشارہ کرتے ہیں ۔ان میں جیکب فرائیڈ کی پہلی بیوی اور اس کی اولاد ہے جن کے اثرات فرائیڈ کی زندگی اور ذہنی ارتقاء پر اَنمٹ نظر آتے ہیں ۔جن کا ذکروہ خود اپنی تحریروں اور خود نوشت میں کرتا ہے۔ پہلی بیوی سے جیکب کےدو نوں بیٹے ،بڑا عمانوئل جبکہ دوسرا فلپ تھاجو عمانوئل سے تین سال چھوٹا تھا۔جب فرائیڈ پیدا ہوا تو عمانوئل کی عمر بیس برس کے قریب تھی اور وہ ایک بیٹی اور ایک بیٹے کا باپ بھی تھا۔فرائیڈ کا بھتیجا اس سے ایک سا ل بڑا تھا اوروہ فرائیڈ کے کھیل کود کا ساتھی بھی تھا۔یہ سارا کنبہ ایک ہی چھت کے نیچے رہتا تھا۔فرائیڈ اپنی ماں کا بڑا بیٹا تھا جبکہ خاندان میں سب سے چھوٹا تھا۔ عمر کے لحاظ سے اس کا باپ اس کے دادا کے برابر تھا جبکہ فرائیڈ کی ماں،سوتیلا بھائی اور اس کی بیوی ہم عمر تھے۔ فرائیڈ کی شخصیت اورذہنی ارتقاء میں اس کے خاندان کا بڑا ہاتھ تھاجس میں رشتوں کی ڈور الجھی نظر آتی ہے ۔ ڈاکٹر نعیم احمد فرائیڈ کے خاندان میں موجود عمروں میں تفاوت اور رشتوں میں عدم توازن کے حوالے سے لکھتے ہیں:
فرائیڈ کے گھر میں رشتوں کا تانا بانا اتنا الجھا ہوا تھا کہ وہ اس کی کوئی توجیح نہیں کر پاتا تھا ۔اس کی خوبصورت اور کم عمر ماں، عمانوئل کی ہم عمر تھی اس لحاظ سے اصولی طور پر اسے عمانوئل کی بیوی ہونا چائیے تھا ۔اس کے باپ کی بیوی دراصل فرائیڈ کی دایہ کو ہونا چاہیے تھا ۔اس کا بھائی عمانوئل اور فلپ کے بجائے جان کوہونا چاہیے تھا جو کہ ا س کا بھتیجا تھا ۔جان فلپ کو چچا کہتا تھا اور فرائیڈ کا خیال تھا کہ فلپ کواس کا بھی چچا ہونا چاہیے تھا ۔

ان تمام رشتوں نے فرائیڈ کی شخصیت میں اہم کردار ادا کیا ۔ خاندانی رشتوں کے علاوہ فرائیڈ کی زندگی کا ایک اہم کردار اس کی دایا نینی (Nanny)بھی تھی ۔جو تند خو ہونے کے ساتھ ساتھ محبت کرنے والی عورت بھی تھی ۔وہ رومن کتھولک تھی اور اکثر فرائیڈ کو گرجا گھر لے جایا کرتی تھی ۔جنت ،دوزخ،حشر ،نشر اور خدا کے تصورات اسی نے فرائیڈ کے ذہن میں اس طرح راسخ کیے کہ گرجا سے واپسی پر فرائیڈ اکثر مذہبی امور پر پادریوں کی طرح وعظ و نصیحت کرنے کی کوشش کرتا تھا۔الغرض فرائیڈ کے خاندان میں باپ جہاں سخت مزاج اور مطلق العنان حاکم بنا ہوا تھاوہیں وہ فرائیڈ کے لیے طاقت ،علم اور دانشمندی کا سر چشمہ بھی تھا۔فرائیڈ کے خیال میں اس کا باپ ساری دنیا میں عقل مند ترین اور طاقت ور شخص تھا اس کے بر عکس ماں اس کے لیے نہ ختم ہونے والی محبت اور شفقت کا سر چشمہ تھی اور فرائیڈ سے بے انتہامحبت کرتی تھی ۔

بعض ناقدین کے نزدیک فرائیڈ کا باپ اس کے لیے قانو ِن حقیقت (Reality Principle) کا مآخذ جبکہ ماں اصو ِل لذت (Pleasure Principle) تھی۔فرائیڈ کی زندگی میں کچھ ایسے واقعات نے بھی جنم لیا جو فرائیڈ کی شخصیت اور اس کی فکر میں بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں مثلاً فرائیڈ جب انیس برس کا تھا تو اس کا دوسرا بھائی جولیس پیدا ہو ا اور آٹھ ماہ بعد فوت ہو گیا ۔چونکہ ماں کی تمام محبت کا وہ اکلوتا حقدار تھا۔ جولیس کی پیدائش کے بعد ماں کی مامتا کی فطری تقسیم دیکھ کر فرائیڈ حسد اور عدم تحفظ محسوس کرنے لگا ۔وہ خود لکھتا ہے کہ وہ نومولود کے خلاف طرح طرح کی باتیں سوچا کرتا تھا ۔جولیس سے رقابت اور حسد کے باوجود فرائیڈ کاذہن اس کی موت سے بُر ی طرح متاثر ہوا ۔اپنے معاندانہ خیالات کی وجہ سے اس کے اندر ضمیر کی ملامت ،ندامت اور پشیمانی کے جذبات پیدا ہو گئے بہرحال فرائیڈ کا ذہن شروع ہی سے محبت ،رقابت اور حسد کے ساتھ ساتھ پیدائش اور موت جیسے مسائل سے الجھاہوا تھا جس کے نقوش اس کی شخصیت پر عمر بھر ان مٹ ثبت رہے اور وہ ان کا حل ڈھونڈتا رہا۔

فرائیڈ ابھی جولیس کی موت کو نہ بھولا تھا کہ اس کی ماں نے اس کی بہن اینا (Anna)کو جنم دیا۔اب جولیس کہ جگہ اس کی محبت پر ڈاکہ ڈالنے اینا آگئی ۔اینا کی آمد سے فرائیڈ کا جذبۂ حسد و رقابت اور بڑ ھ گیا ۔جولیس اور اینا ،فرائیڈ کی ابتدائی زندگی اور اس کی بعد کی لاشعوری زندگی میں بہت اہمیت رکھتے ہیں ۔آہستہ آہستہ فرائیڈ نے اپنے آپ کو اس الجھی ہوئی صورت حال کا عادی بنا لیا ۔اینا سے اس نے مصالحانہ رویہ اختیا ر کیا ۔اینا کے بعد روزا اور ڈولفی نے جنم لیا جنہیں فرائیڈ نے نہ صرف قبول کیا بلکہ قدرتی طور پر فرائیڈ کو ان سےمحبت بھی ہو گئی۔

تعلیم و تربیت:
فرائیڈ نے اپنی خود نوشت سوانح حیات میں اپنی تعلیم و تربیت کے متعلق بہت مفصل و جامع لکھا ہے ۔فرائیڈ کا خاندان اپنے آبائی وطن جہاں سیاسی حالات کیوجہ سے یہودی زیرعتاب تھے اور اوپر سے اس کے والد کے معاشی حالات خراب ہوئے تو انہوں نے اس جائے پیدائش کو چھوڑ کر مانچسڑکی طرف ہجرت کی۔بد قسمتی سے یہاں بھی بات نہ بن پائی تو لپزاگ (Leipzig)کی طرف نقل مکانی کی ۔اس وقت فرائیڈ کی عمر صرف تین سال تھی ۔یہاں اس کے خاندان نے صرف ایک سال گزارا اور بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت کے لیے وہ ویا نا منتقل ہو گئے۔اس وقت فرائیڈ کی عمر چار برس کی تھی اور اپنی تعلیم یہیں مکمل کی ۔ہائی سکول میں وہ چار برس تک اول آتا رہا ۔جس کی وجہ سے اسے یہ رعایت دی جاتی کہ سالانہ امتحان دیے بغیر اسے اگلے درجے میں ترقی دے دی جاتی۔اگرچہ فرائیڈ کے گھریلوحالات کچھ اچھے نہ تھے لیکن اس کے والد کا اصرار تھا کہ وہ اپنے رجحان کے مطابق پیشہ اختیار کرے تو فرائیڈ نے معالج کے شعبے کو ترجیح دی ۔حالانکہ اسے نہ تو اپنی تعلیم کی ابتدا میں نہ تعلیم ختم کرنے  کے بعد اس فن سے دلچسپی تھی ۔یہ محض تجسس تھا جو اسے اس سمت لے گیا۔اسے شروع ہی سے قدرتی مناظر سے زیادہ انسانی اعمال سے لگاؤ رہا ۔ لڑکپن میں اس نے انجیل کی ایک کہانی پڑی تھی جس کی وجہ سے اسے ڈاکٹربننے کا شوق ہوا۔ سکول میں فرائیڈ کا ایک دوست جو اس سے اگلی جماعت میں پڑھتا تھا، بڑا ہوکر سیاستدان بنا فرائیڈ اس سے نہ صرف متاثر تھا بلکہ قانون کی تعلیم حاصل کرکے وہ بھی سیاستدان بننا چاہتا تھا لیکن اس کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی ۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے کئی دوسرےلوگوں کو بھی پڑھنے کا بھی موقع ملا۔  ذہنی طور پر فرائیڈ گوئٹے ،شیکسپئر اور ڈارون سے بہت متاثر تھا ۔اسی زمامے میں ڈارون کے نظریات کا بہت چرچہ تھا ۔ایک دن ایک پروفیسر نے گوئٹے کا ایک مضمو ِن فطرت پڑھ کے سنایا اور اس کا  اثر یہ ہوا کہ فرائیڈ نے ڈاکٹر کے پیشے کا انتخاب کر لیا۔طب کے ساتھ ساتھ اس نے فلسفہ ،ادب اور انسانی علوم کا بھی گہرا مطالعہ کیا ۔انسانیات (Anthropology)کا علم ،نفسیات اور طب نفسی جیسے علوم ابھی منظر عام پر نہیں آئے تھے لیکن فرائیڈ کو جہاں سے بھی ایسامواد میسر آتا وہ اسے شوق اور دلچسپی سے پڑھتا۔بائبل کا اس نے خاص طور پر گہرا مطالعہ کیا اوریہ عادت عمر بھر رہی ۔بعد ازاں مذ ہب پر اس کے خیالات میں اس کے واضح اثرات دیکھے جا سکتےہیں۔

۱۸۷۱ءمیں سترہ سال کی عمر میں فرائیڈ یونیورسٹی میں داخل ہوا ۔یونیورسٹی میں داخل ہونے کے بعد جو اثرات فرائیڈ کی شخصیت پر مرتب ہوئے وہ اتنے اہم تھے کہ اس کی زندگی پر یہ اثرات عمر بھر باقی رہے ۔تاہم یہودی ہونے کی وجہ سے اسے بہت سی مایوسیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔فرائیڈ چونکہ یہودی نژاد تھا اس لیے اس سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ اپنے آپ کو کم تر جانے ،جو اسے گوارانہ تھا اور بقول اس کے کہ وہ نہ سمجھ پایا کہ کیوں اسے یہودی ہونے پر شرمانا چاہیے؟ لیکن اسے اس بات کا بھی شدت سے احساس تھا کہ یہودی ہونے کی وجہ سے زندگی کے ابتدائی ایام میں اسے مخالفت سے دوچار ہونا پڑا اور وہ جان گیا کہ اس کا انجام کیا ہونا ہے اور اکثریت کے سامنے فرد کی حیثیت کیا ہوتی ہے؟چنانچہ ان حوادث نے فرائیڈ کی شخصیت میں نا  صرف آزادئ فیصلہ کا جوہر پیدا کیا بلکہ فرائیڈ کو صف اول کا مفکر بننے میں بھی اہم کردار ادا کیا ۔

انیس برس کی عمر میں فرائیڈ کو انگلستان جانے کا موقع ملا ۔ بڑے بھائی عمانوئل اوربھتیجا جو پہلے سے وہاں موجود تھے،نے  خوش آمدید کہا اور کافی آؤ بھگت کی ۔یہاں اس کا یہ قیام مختصر رہا۔کچھ عرصے بعد ہی اسے واپس لوٹنا پڑا۔ فرائیڈ ۱۸۷۶ء میں انگلستان سے واپس آیا تواس بار اسے ارنسٹ بروکی کے ساتھ مل کرعضویات (Physiology)پر کام کرنے کا موقع ملا۔اس دوران اس نے نباتیات اور طبعیات وغیرہ جیسے علوم سے بھی استفادہ کیا ۔فرائیڈ نے فلسفے کے کچھ کورس بھی پڑھے اور معروف استادبریٹانو (Bretano)کے ساتھ ارسطو کی منطق پر ایک کورس مکمل کیا ۔فرائیڈ نے بروکی اور ہیلم ہولٹز سے بہت اثر قبول کیا ۔بروکی نے توانائی کا نظریہ قائم کیا تھا اور ہیلم ہولٹز نے اعصابی نظام پر بروکی کے نظریے کا اطلاق کیا تھا ۔ان دونوں اشخاص کے نظریات کااس زمانے میں پورے یورپ میں چرچا تھا ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سائنسی ارتقا میں ان نظریات نے خاص کردار ادا کیا ہے اور فرائیڈ کی سائنس اور میکانیکی طریق کار میں دل چسپی انہی دونوں اشخاص سے دوستی اور تربیت کا نتیجہ تھی۔

فرائیڈ کو۱۸۸۱ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری (ایم ۔ڈی) ملی تو ملازمت کے لیے سب سے پہلے وہ بروکی کے پاس گئے جس نے فرائیڈ کو اپنے ساتھ رکھنے سے انکار کر دیا جس پر فرائیڈ کو مایوسی ہوئی چنانچہ مالی حالت بہتر بنانے کے لیے اس نے ویانا کے ہسپتال میں بطور جونیئر ریذیڈنٹ ڈاکٹر کام کرنا شروع کر دیا ۔اسی عرصے میں فرائیڈ نے دماغی امراض کے حوالے سے ماہر طب نفسی تھیوڈر مینرٹ سے بہت کچھ سیکھا ۔کم اجرت کے باعث فرائیڈویانا چھوڑ کر پیرس کے مشہور معالج شارکوٹ (Charkot)  سے جا ملا جو ذہنی و عصابی امراض کے ہسپتال میں فرائض سر انجا م دے رہے تھے ۔۱۸۷۸ء میں اس نے شارکوٹ کے ماتحت طب نفسی پر کام شروع کیا ۔شارکوٹ ہپٹانزم کے ذریعے ہسٹریا کے مریضوں کا علاج کرتا تھا اور یہ خیال کیا جاتا تھاکہ ہسٹریا در اصل رحم کی بیماری کی ایک قسم ہے ۔شارکوٹ مریضوں پر ہپٹانزم کے ذریعے مصنوعی نیند طاری کرتا اوران سے ان کے حالات و واقعات دریافت کرتا ۔جب وہ مصنوعی نیند ختم کرتا تو مریض کو بڑی حد تک افاقہ محسوس ہوتا اس طرح اس نے یہ نظریہ رد کر دیا کہ ہسٹریا کوئی رحم کی بیماری ہے بلکہ یہ ایک نفسی اور ذہنی ہے ۔یہ بات فرائیڈ کے دل کو لگی جس سے نفسی تجزیے کی راہ ہموار ہوئی ۔ فرائیڈ نے پیرس سے ویانا واپس آ کر ڈاکٹر بروئر (Breuer) جو ہیلم ہولٹز کا مقلد تھا کے ساتھ مل کر کام کرنا شروع کیا اور بروئر کی تحقیقات سے فرائیڈ کو یہ انکشاف ہوا کہ ہسٹریا کو رحم کی بیماری سے جوڑنا غلط ہے اور نہ ہی یہ عورتوں سے مخصوص ہے ۔ہسٹریا کا شکار مرد بھی ہوسکتے ہیں۔دوسری بات جو بروئر کی تحقیقات سے اسے پتہ چلی وہ یہ کہ ہسٹریا کا سبب کسی قسم کا عصبی یا عضویاتی فساد نہیں بلکہ اسے نفسی او ر ذہنی کوائف میں تلاش کرنا چاہیے ۔اس ضمن میں فرائیڈ، بروئر کے زیر علاج ایک نوجوان لڑکی کا ماجرہ سناتا ہے ۔یہ لڑکی ذہنی دباؤ اور پریشانی کا شکار تھی۔فرئیڈ اس سے متعلق لکھتا ہے۔
جوزف بروئر (Jozeph Breuer) مریضوں کے علاج کے لیے نئے طریقوں پر تجربات کر رہے تھے۔ بروئر کی مریض ایک انتہائی ذہین 21 سالہ لڑکی تھی۔ تین سال کی بیماری کے دوران اسے دو بار شدید جسمانی اور ذہنی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا، جن کا علاج کرنا ضروری تھا۔
علاج کے دوران پتہ چلا کہ اسے اپنے بوڑھے باپ کی تیمار داری کی وجہ سے اپنے منگیتر سے ملاقات کا وقت نہیں ملتا ۔اسی دوران بروئر کو احساس ہوا کہ جب وہ لڑکی اپنے گھر کے حالات بیان کرتی ہے تو ا س کے مرض کی علامات میں کمی واقع ہونا شروع ہو جاتی ہے ۔بروئر نے جس کا یہ نتیجہ نکالا کہ اس کی بیماری کی اصل وجہ محبت کی جنوں خیزی اور فرض کی شدت کا آپس میں تصادم ہے ۔جب وہ لڑکی جی بھر کر بھڑاس نکال لیتی تو افاقہ محسوس کرتی۔بروئر کے ساتھ موجود فرائیڈ جو اس تمام کاروائی میں شامل تھااور نہایت غور و خوض کر رہا تھا اس نتیجے پر پہنچا کہ اگر مریض اپنے مافی الضمیر کا اظہار کرے تو اس کی ہسٹریائی علامات دور ہو سکتی ہیں۔ان دونوں اشخاص نے مل کرایک تحقیقی مقالہ بھی تحریر کیا جس کا عنوان  On the psychical mechanism of hysterical phenomenon تھا ۔ اس طریق علاج میں سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ مریض کو اپنے تمام حالات و واقعات یاد نہیں ہوتے تھے یا پھر اخلاقی و سماجی قیود کے باعث وہ نہ بتا پاتا۔ فرائیڈ کو بروئر کے مصنوعی نیند کے طریقے میں کافی خامیاں نظر آئیں۔چونکہ مریض اس سے مکمل صحت یاب نہیں ہوپاتا تھااور مرض کی علامات بار بار ظاہر ہوتی رہتیں ۔دوسری کمی اس میں یہ تھی کہ بعض عصبانیت کے مریضوں کو ہپناٹائیزنہیں کیا جا سکتا تھا۔انہیں دنوں ننسی (Nancy)سکول میں ایعاذ (Suggestion) کا طریق کار فروغ پا رہا تھا ۔فرائیڈ نے پیرس جا کر اس پر تحقیق کی تو اسے بہت معقول اور مفید پایا۔چنانچہ ہپناٹزم کی جگہ مریض کی لاشعوری یادو ں کو شعور میں لانے کے لیے یہ نیا طریقہ آزمانا شروع کردیا۔وہ مریض کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر آہستہ آہستہ اس کی ہمت بڑھاتا اور دبے ہوئے خیالات کا اظہار کرنے کو کہتا ۔اس طریق علاج سے کئی مریضوں کا علاج کامیاب ہوا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تحقیق کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اور اسی دوران اسے اس بات کا یقین ہوتا گیا کہ اس بیماری کا دائرہ جنس کے گرد ہی گھومتاہے۔تاہم بروئر فرائیڈ کے اس نظریے سے متفق نہ ہوا۔ اس دور میں پیری جینٹ(Pierre Ganet)کے زیر اثر علماء کی ایک جماعت تھی جو ہسٹریا کی جڑیں عضویاتی اور عصبی خلل میں تلاش کرنے پرزور دے رہی یا تھیں لیکن فرائیڈ اور بروئر نے اپنی تحقیقات کے زور پر یہ دعو ٰی کیا یہ ہسٹر یا نفسی فساد کے باعث پیدا ہوتا ہے نہ کہ اس کی وجہ عضویاتی ہے ۔فرائیڈ نے اپنے آپ کو نفسی تحقیقات میں بہت زیادہ مصروف کر لیا ۔اس کی مصروفیات میں مریضوں کو دیکھنا ،اپنی تحقیق کو مضامین اور کتابوں کی صورت میں تحریر کرنا اور مختلف جگہوں پر لیکچر دینا شامل تھا۔اس کی کتابوں میں چند ایک جو زیادہ مشہور ہوئیں یہ ہیں۔
Interpretation of dream
Moses and monotheism
Future of an illusion
Psycho-pathology of everyday life

 

سگمنڈ فرائیڈ :گھریلوں زندگی اور مشاغل
فرائیڈ نے ۱۸۸۶ء میں مارتھا برنیز (Martha Bernays)سے شادی کی ۔فرائیڈ کےہاں تین لڑکے اور تین لڑکیا ں پیدا ہوئیں ۔سب سے چھوٹی لڑکی اینا فرائیڈ بعد ازاں بہت مشہور ماہر تحلیلی نفسی بنی ۔ فرائیڈ کے گھر میں اس کی بیوی مارتھا، سالی اور بچے رہتے تھے ۔بچے اسے ابا کہہ کر پکارتے ،خواتین اسے سگی (جو سگمنڈ کا مخفف ہے)کہتیں اور دوستوں اور شاگردوں میں وہ پروفیسر کے نام سے مشہور تھا ۔حالانکہ فرائیڈ کبھی پروفیسرنہیں بنا ۔فرائیڈ کی دوسری دلچسپیوں میں صبح مریضوں کو دیکھنا ،دوپہر کا کھانا کنبے کے ساتھ کھانا ،کتب فروشوں سے کتب خریدنا ،سگار پینا ،آثار قدیمہ کی چیزیں کباڑیوں سے خریدنا ،تاش کھیلنا وغیرہ شامل ہیں ۔فرائیڈہر سال تین ماہ کے لیے اپنا سارا کاروبار بند کر دیتا اور جون سے لے کر ستمبر تک چھٹیاں مناتا ۔روم کی سیر کا اسے بہت شوق تھا ۔اور وہ اس کے لیے جاتا بھی تھا لیکن جب وہ زیادہ بیمار ہو اور سفر کرنا اس کے لیے تکلیف دہ ہو گیا تو دور دراز جانے کے بجائے گرمیوں میں وہ کسی قریب کے پہاڑی علاقے میں چلا جاتا جہاں اس کے لیے ایک ایسا گھر کرائے پر لیا جاتا جس کے ساتھ سیرکے لیے باغ بھی ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

عدیل ایزد
قاری اور عام سا لکھاری...شاگردِ نفسیات

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply