المہدی میں گزرے ایام/سراجی تھلوی

سال 2024 ،اپریل کا مہینہ چل رہا ہے۔سوشل میڈیا کے توسط سے بلتستان کے حسِین مناظر دیکھ رہا ہوں۔اور جی بھر کے آہیں بھر رہا ہوں۔سوچ رہا ہوں ہم کہاں پیدا ہوئے تھے۔تقدیر نے کہاں لا کے چھوڑ دیا۔ ،خوبانی کے درختوں پر پھول کِھلے ہیں۔پہاڑوں کی چوٹیوں سے گلیشئرز پگھل پگھل کر  تنگ و تاریک درّوں سے ہو کر  ندی و نالوں میں بہہ رہے ہیں۔ کسان کھیتوں کو پانی دینے ،باغات میں پودے لگانے میں مصروف ہیں اور میں سرزمینِ  ایران قم المقدس اپنے حجرے میں بیٹھے آج سے چار سال پہلے “مرکز معارف اسلامی مدرسہ المہدی”میں گزرے ایام کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔اور دل و دماغ کے نہاں خانوں سے مٹتی ہوئی دھندلی یادوں کو کھنگال کر یہ امانت صفحہ قرطاس کے حوالے کرنے جارہا ہوں۔انسان بھی کیا شئے  ہے۔جتنا اس کے بارے سوچتا ہوں۔حیرت و استعجاب کے دریچے واء  ہوتے جارہے ہیں۔انسان کا وجود بھی عجوبہ ہے۔ہر شخص ماضی کے تلخ و شیریں یادوں،مستقبل سنوارنے کی  فکر کے درمیاں جکڑے عجب کشمکش کا شکار ہیں۔

“مرکز معارف اسلامی مدرسہ المہدی” المصطفی انٹرنیشنل یونیورسٹی قم ایران کا اک ذیلی ادارہ ہے۔جو قم المقدس ایران میں موجود ہے۔جہاں فارسی زبان و ادب کی تعلیم دی جاتی ہے۔اور فارسی زبان کے حوالے سے یہی مرکزی و معتبر ادارہ ہے۔

مدرسہ المہدی ہمارے مستقبل کےلیے اک پیش خیمہ تھا۔اک بنیاد تھی ۔جہاں فارسی زبان و ادب کے مزاج و مذاق سے واقف ہونا تھا۔اور اسی واقفیت کی بنا پر علم و دانش کے وسیع ترین وادی میں قدم رکھنا تھا۔یہ مارچ کا مہینہ بھی عجب مہینہ ہے۔جب ہم گاؤں چھوڑ کر کراچی آئے تھے تب بھی مارچ کے مہینے میں ہی مادرِ علمی جامعہ نوربخشیہ کراچی میں داخلہ ہوا تھا۔ اور المصطفی انٹرنیشنل یونیورسٹی ایران میں بھی مارچ کے مہینے میں ہی داخلہ ہوا۔ہمیں “ستاد”والوں نے “مرکز معارف اسلامی مدرسہ المہدی”قم المقدس میں فارسی زبان سیکھنے کےلیے بھیجا گیا۔گردش ایام نے ستم یہ کیا  کہ ادھر ہمارا ایڈمشن ہوا ،چائنہ کے فوراً بعد ایران میں کرونا کی بیماری پھیل گئی ۔ کچھ عرصے کےلیے ہمارا عارضی قیام مدرسہ معصومین میں تھا ۔ابھی تک کرونا کے خوف سے ہم مدرسہ المہدی نہیں گئے تھے۔ کرونا کی شروعات تھی ۔ہر طرف خوف و ہراس ،افرا تفری کی فضا تھی۔ ایسے میں اک دن ہم نے واٹس ایپ پر سٹیٹس لگایا کہ”مہدی من کجائی”ہمارے دوست مولانا حافظی صاحب نے سٹیٹس پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا تھا۔”مہدی شما بلوار امین”یعنی تمہارا مہدی بلوار امین میں ہے۔کیونکہ ہمارا قیام و طعام و تحصیل کا انتظام مدرسہ المہدی میں ہی تھا ۔ جو کہ “بلوار امین” نامی جگہ  پر موجود ہے۔ اور ہم ہنوز وہاں گئے نہیں تھے۔اس لیے حافظی صاحب نے ک ہمیں اشارہ دیا کہ اب چلے جاؤ بھئی ۔اسی کے دوسرے دن ہم اپنے ضروری سامان لے کر ڈھلتی شام،حافظی صاحب کے ساتھ مدرسہ المہدی گئے۔گیٹ کے بالائی حصے پر جلی حروف میں “مرکز معارف اسلامی مدرسہ المہدی “لکھا ہوا تھا۔پُرشکوہ ،خوبصورت،دیدہ زیب عمارت تھی۔چوتھی   منزل دائیں طرف اک کمرہ دکھایا۔ کمرہ نہایت کشادہ ،صاف ستھرا ،ہر طالب علم کےلیے جُدا جُدا بیڈ، الماری،اجزائے خوردونوش رکھنے کےلیے نہایت صاف ستھرا فریج موجود تھا ۔اور ہم اپنے سامان الماری میں رکھ کر وہاں بیٹھ گئے ۔کچھ دیر بعد حافظی صاحب واپس چلے گئے ۔اور ہم پر اک اداسی کی فضا چھا گئی۔ انجان فضا،انجان لوگ نہ زبان سے آشنائی ،دل بوجھل ہورہا تھا۔ہمارے روم میٹ دو انڈونیشا کے طالب علم تھے۔وہ لوگ بھی نئی فضا ،انجان شہر کے باسی تھے۔فارسی زبان سے آشنائی نہیں تھی۔ اک دوسرے سے ضرورت کی چیزیں مانگتے ،پوچھتے ہوئے دقت ہوتی تھی۔ اشاروں میں ہی کام چلاتے رہے۔ہمیں تو پڑھنے ،سمجھنے کی حد تک تو فارسی سے آشنائی تھی۔لیکن بول ،چال سے نابلد ،کچھ دن اسی طرح گزرے گئے۔پھر ہاسٹل انتظامیہ نے چوتھی  منزل خالی کرکے ہمیں تیسری منزل میں شفٹ کیا ۔کیونکہ کرونا کی وجہ سے چائنہ کے طالب علموں کو اوپر کٰ  منزل پر شفٹ کرنا تھا۔ اور اک دو دن کے اندر انکو چائنہ روانہ کرنا تھا۔اب نئے کمرے میں ہمارا روم میٹ اک شامی، اک نائیجیرین،اک دُنیا کے  امریکہ لاطین سے طالب علم تھے۔وہ تینوں بھی فارسی زبان سے بالکل نابلد تھے۔لیکن تینوں عربی زبان روانی کے ساتھ بولتے تھے۔ لاطینی طالب علم کا کہنا تھا کہ انکے علاقے میں کوئی اک بھی مسلمان موجود نہیں خود بھی اصلتا عیسائی ہی تھے۔لیکن کسی اور علاقے میں اک لبنانی مسلمان فیملی سے تعلقات کی بنا پر اسلام سے آشنائی ہوئی۔قبول اسلام کے بعد ایران حصول تعلیم کےلیے آئے ہوئے تھے۔لبنانی فیملی کے ساتھ رہنے کی وجہ سے عربی بولتے اور سمجھتے تھے۔لیکن عربی ،فارسی رسم الخط انکےلیے نہایت اچھنبے کی بات تھی۔ ہمیں بھی اس وقت ہیلو ہائے،ابتدائی مکالمے کی حد تک سمجھ بوجھ رکھتے تھے ۔اور عربی زبان سے واقفیت تھی۔اس لیے انکے ساتھ گھل مل گئے ۔مانوسیت بڑھنے لگی۔

یوں مختلف افکار و زہنیت،تہذیب و تمدن،ادب و ثقافت ہر لحاظ سے مختلف لیکن توحید و نبوت ،قرآن و سنت کی نور سے معمور لوگ اک ساتھ اک ہی کمرے میں رہنے لگے۔ہر گزرتے دن فارسی زبان و ادب سے آشنائی،نئی تہذیب و ثقافت سے واقفیت ہوتی جارہی تھی ۔یوں قلب شوریدہ کو یگونہ سکون بھی حاصل ہورہا تھا۔کہ ہم جس مقصد کےلیے طویل سفر،اپنوں سے فراق،پردیس کی اجنبیت،گوارا کی۔اُس مقصد کی تکمیل ہورہی تھی۔اُستاد سید حسینی،اور آقای محسن دونوں نہایت ہی شفیق اُستاد تھے۔ان دونوں استاد کے سائے میں فارسی زبان سیکھنا شروع کیا لیکن کچھ ہی عرصے بعد کرونا کی تیزی کے ساتھ پھیلاو کی وجہ سے تمام کلاسس آنلائن منعقد ہونے لگی۔ یوں ہی کوئی دو مہینہ کے قریب کلاسیں آنلائن چلتی رہیں۔اک تجربہ حاصل ہوا کہ کوئی بھی زبان سیکھنا ہو ،اسی مزاج و مذاق ،اسکے ماحول ،اور اسی زبان میں ہی سیکھے تو بہت جلد اس زبان پر دسترس حاصل ہوجاتا ہے۔شروع میں لگا کہ ماحول فارسی،اُستاد فارسی،اور طلاب فارسی سے نابلد کیسے فارسی زبان سیکھ پائیں گے۔پر کچھ ہی دنوں میں یہ اندازہ غلط ثابت ہوا۔ اور ہم فارسی زبان بولنے ،سمجھنے لگے۔اک نظام نہایت ہی خوبصورت یہ تھا کہ کمروں میں ایک ہی زبان والوں کو ساتھ رہنے نہیں دیتے تھے۔اس وجہ سے جب تک “المہدی”میں رہے ۔رومیٹ والوں سے جبراٙٙ ہی فارسی زبان میں گفتگو کرنی پڑتی تھی۔یوں خواہ ناخواہ فارسی زبان میں ہی گفتگو ہوتی تھی ۔اس لیے طویل عرصہ کورونا کی وجہ سے کلاسز کی بندش،آنلائن ہونے کے باوجود ہمیں فارسی زبان سیکھنے میں دقت نہیں ہوئی۔اسی طرح کتاب “پارسا”جو تین کتابوں پر مشتمل تھی۔چار سے پانچ ماہ کی مدت میں مکمل ہوئیں۔اور ہمیں فارسی زبان کی سند سے نوازا گیا۔

یوں تو مدرسہ “المہدی “میں زبان فارسی،اور تمہیدیہ کے حوالے سے آٹھ ماہ رہنے کا غنیم موقع ملا۔اس عرصے میں مختلف علوم سے آشنائی ہوئی۔بالاخص علم کلام سے ہمیں بالکل واقفیت نہیں تھی۔استاد محترم ڈاکٹر غلام علی سنجری جو اس وقت حوزہ علمیہ قم میں کلام اسلامی کے بہترین اساتذہ میں سے ہے۔کئی کتابوں کے مصنف بھی ہے۔انکی شاگردی میں علم کلام سے آشنائی بھی ہوئی۔اسکے علاوہ جو میری دلچسپی کا باعث بنا وہ لائبریری تھی۔نہایت صاف ،ستھرا،کشادہ،کتابیں نفیس ترتیب سے سجی ہوئی تھیں۔ہر موضوع سے متعلق کتابیں موجود تھیں۔عظیم اسلامی فلاسفر ،مفسر قرآن علامہ طباطبائی کی سوانح حیات اسی لائبریری سے پڑھنے کی توفیق ہوئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

تاریخ اسلام کے ہمارے استاد آقاے بخشی زادہ کہ رہنمائی میں “صحیح بخاری “کی کئی اہم مقامات مطالعہ کرنے ،پڑھنے کی توفیق ہوئی ۔سب سے اہم کتاب اور دلچسپی کا باعث “الصحیح من سیرة النبی الاعظم “تھی۔جو لبنانی عالم الدین ،حوزہ علمیہ قم کے استاد ،علامہ جعفر مرتضی عاملی کی رشحات قلم میں سے ہے۔35جلدوں پر مشتمل یہ کتاب سیرة النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے نہایت دقیق و مفصل ہے۔تاریخ تشیع میں سیرة النبی ص کے حوالے سے اتنی شرح و بسط ،تفصیل کے ساتھ کوئی کتاب مری نظر سے نہیں گزری ہے۔المہدی کی لائبریری میں یہ کتاب موجود تھی۔اور اُستاد بخشی زادہ کی رہنمائی میں کئی اہم مقامات پڑھنے کا موقع ملا۔
یوں خدا کے فضل و کرم سے دسمبر 2020ء میں اس مادر علمی سے رسمی فراغت حاصل کرکے نئے  تعلیمی سفر کا آغاز کیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply