ہماری انٹرٹیمنٹ “پارری” گرل۔۔محمد منیب خان

شہرت اور دولت کی تمنا کسے نہیں ہوتی؟ البتہ دولت اور شہرت کے حصول کے لئے اپنایا جانے والا راستہ شخصیت کے کردار کا غمازہوتا ہے۔ راستے کا انتخاب ہی مسافر کی سوچ کا عکاس ہوتا ہے۔ شہرت اور دولت، ہر دو چیزوں کے حصول کے لیے تین راستے دستیاب ہیں:

اوّل اچھا راستہ، دوم بُرا راستہ ،سوم محض خوش قسمتی۔ ۔

دولت یا شہرت کے حصول کے لیے اگر کوئی محنت کے بل پہ اچھے راستے کا انتخاب کرے تو اس شخصیت میں کشش اور لبھاؤ پیدا ہو جاتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف بُرے راستے کا انتخاب کرنے والی شخصیت کسی بھی قسم کی مثبت تاثیر سے محروم ہو جاتی ہے۔ البتہ جس شخص کے پاس دولت یا شہرت محض خوش قسمتی سےپہنچے اسے بھی بہرحال اس کو قائم رکھنے کے لیے محنت کے بل پہ اچھے یا برے راستے کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ دولت اور شہرت حاصل ہونے کے بعد اس کے استعمال سے ہی نظام قدرت فیصلہ کرتا ہے کہ ان درختوں کو پھل لگنے ہیں یا اگلے جاڑے کے اختتام پر پت جھڑ کی نذر ہونا ہے۔

کسی دور میں راتوں رات امیر ہونا یا مشہور ہونا محض خواب اور خیال تھا اور ایک رات میں کایا کلپ ہونے کی باتیں محض  کہانیوں تک محدود تھیں ۔ البتہ الیکڑانک میڈیا اور پھر سوشل میڈیا کے عام ہونے جانے کے بعد اب یہ بات افسانوی نہیں رہی۔ لوگ ایک رات میں مشہور ہوتے جاتے ہیں۔ دولت ان کے دروازے پہ دستک دیتی ہے اور وہ آن کی آن میں وہ سب کچھ سمیٹ لیتے ہیں جو برسوں محنت کرنے والوں کا خواب ہوا کرتا ہے۔ سوشل میڈیا نے راتوں رات لوگوں کو سٹار بنایا چہار سو پھیلے مختلف انواع کی ایپس میں سے کسی ایک پہ ان کے چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں گئی اور اسی وسیلے سے ان کے لیے پیسے کی فراوانی بھی شروع ہو گئی۔

پاکستان میں سوشل میڈیا کو عام ہوئے ابھی ایک دہائی کے آس پاس ہی وقت گزرا ہے کہ اس کی وساطت سے راتوں رات شہرت حاصل کرنے والوں کی تعداد بے تحاشا ہے اور اس میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ یہاں محنت کے بل بوتے پہ کامیابی حاصل کرنے والے لوگ موجود نہیں۔ البتہ بے ڈھنگے مواد اور حالات کی خوش قسمتی سے مشہور ہونے والے لوگوں کی تعداد بہرحال محنت سے اچھا مواد بنانے والوں کی نسبت زیادہ ہے۔ تحریر کی تمہید سے اب تک آپ پڑھ کر یہ سوچ رہے  ہوں گے کہ شاید میں بھی حالات کا مارا جلا کٹا ایک پاکستانی ہوں اور سوشل میڈیا پہ آئے روز مشہور و معروف ہوتے لوگوں کے خلاف تحریر لکھ کر اپنی بھڑاس نکال رہا ہوں، یقین مانیں آپ درست سمجھ رہے  ہیں۔ لیکن میرے پاس اپنی بھڑاس نکالنے کی چند ایک وجوہات ہیں۔ وہ وجوہات آگے بیان کر کے امید رکھوں گا کہشاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری باتوالا معاملہ ہو جائے۔

حالیہ چند مہینوں میں سوشل میڈیا پہ جن دو لوگوں کو راتوں رات شہرت ملی ان میں نوعمر نمرہ  علی اورپارریگرل دنانیر مبین ہیں۔ نمرہ  علی غالباً نویں جماعت کی طالبہ تھیں۔ لیکن ہوا کیا؟ ایک روڈ شو میں انکا انداز عوام کو پسند آ گیا (جو کہ یقیناً اس عمر کاخاصہ ہے اس پہ مستزاد بانکپن اور خوبصورتی) اور وہ ویڈیو منٹوں اور گھنٹوں میں وائرل ہو گئی۔ نمرہ  علی پہلے یکے بعد دیگرےمختلف چینلوں پہ بطور مہمان شریک ہوتی رہیں۔ پھر یکدم وہ ماڈلنگ کی سٹیج پہ پہنچیں اور چند ہفتوں میں ہی اس سولہ سالہ لڑکی نے برائیڈل فوٹو شوٹ بھی کروا دیا۔ اور اب غالباً کسی ویسے ہی روڈ شو کی میزبانی کرتے ہوئے وہ اُوٹ پٹانگ سوالات پوچھ کر سوشل میڈیا پہ ویوز سمیٹنے کی تگ و دو میں جُت چکی ہے۔ لیکن اس سے آگے کیا ہے؟ اس سے آگے صرف خاموشی ہے۔ کیونکہ نمرہ  علی کی شہرت نہ تو کسی محنت کا نتیجہ تھی اور نہ ہی اس کے پاس کوئی ایسا ہنر ہے جو اس کی شہرت کو مستقل رکھے۔ نمرہ  علی جیسابولنے کا انداز اور طبیعت کا بانکپن ہمارے گھرانوں میں کسی نہ کسی لڑکی کا ہوتا ہے البتہ فرق یہ ہوا کہ کیمرے کے سامنے ایسےکسی کردار کا یکدم آنا اسے مقبولیت کی بلندی پہ لے گیا۔ چونکہ یہ مقبولیت کسی محنت اور کسی ہنر کا نتیجہ نہیں تھی لہذا اب نہ تو اس کے شو کو وہ ویوز مل رہے ہیں اور نہ ہی نمرہ  علی اب کسی مارننگ شو کی مہمان ہیں۔ اور تو اور بہت سوں کے ذہنوں سے توشاید اسکا نام تک محو ہو گیا ہو۔

اسی طرح کا ایک واقعہپارریگرل کا بھی ہوا۔ دنانیر مبین کی ایک عام سی ویڈیو انتہائی مصنوعی انداز میں بولے گئے چند جملوں کی بدولت وائرل ہو گئی۔ ابتداً میری طرح شاید بہت سوں کو گمان ہوا ہو گا کہ اس ویڈیو سے اس ہی لڑکی کا مذاق بنے گا۔ لیکن شایدخدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جلد ہی وہ ویڈیو اور وہ مصنوعی انداز میں بولے گئے چند جملے زبان زد عام ہوگئے۔ لوگوں نے پیچھےمیوزک لگایا اور جملوں کا Rap بنا دیا۔ شہرت کے پَر بہت مضبوط ہوتے ہیں اور ساتھ میں اگر قسمت کی دیوی بھی مہربان ہو تو وہ  ہوتا ہے جو دنانیر کے معاملے میں ہوا۔ شہرت کا ہمُا پاکستان سے اڑا اور بھارت بھی پہنچ گیا۔ لیکن اس کے بعد کیا ہے؟ یہ جملے چنددن میں اپنی کشش کھو دیں گے تو اس کے بعد کیا ہوگا؟ دنانیر انسٹا پہ اپنے دس لاکھ فالورز کو کیسے محظوظ کریں گی؟

شہرت ایک نشہ ہے اور انسان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ہر حال میں اس کو برقرار رکھے۔ لہذا ممکن ہے کہ خوش شکل دنانیر بھی شاید آپکو کسی ریمپ پہ واک کرتی نظر آئیں۔ سوشل میڈیا نے شہرت کی دیوی کو نیا روپ دے دیا ہے۔ آپ اگر خوبصورت ہیں، زیب وزینت والا لباس پہن کے کیمرے پہ آ سکتے ہیں اور ہر وہ حرکت کر سکتے ہیں جسے نارمل انسانوں کی زندگی میں معیوب سمجھا جاتاہے تو یقین مانیں آپکے فالورز کی تعداد کرونا کے مریضوں کی طرح بڑھے گی۔ ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارم نے تو لوگوں کی معنویت کومعطل کر دیا ہے۔ ہر  دوسراشخص اداکار ہے، ہر  دوسراشخص گلوکار ہے، ہر دوسرا شخص  رقاص ہے،  ہردوسرا شخص جگت باز ہے اور باقی سب ناظرین اورتماش بین ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

الیکڑانک میڈیا کی اپنی ابتدا سے کوشش رہی ہے کہ لوگوں کو کچھ ایسا مواد فراہم کیا جائے جو ان کو انٹرٹیمنٹ کے ساتھ ساتھ مقصدیت اور معنوعیت بھی دے۔ سوشل میڈیا ایپس کے اس اژدھام میں اب انٹرٹینمنٹ بے مقصد ہو چکی ہے۔ کچھ بھی اناپ  شناب بول دو، کچھ بھی اُوٹ پٹانگ حرکت کر دو، کسی کو گالی دے دو، کسی پہ آواز کس دو، کسی  کا تمسخر اڑا دو۔ اب صرف لوگوں کوپھوکی انٹرٹیمنٹ چاہیے۔ اس کے لیے چاہے انہیں خود ہی انٹرٹینمنٹ بننا پڑے۔

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply